ایک اور بابری مسجد۔۔۔۔؟
گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں عدالتی اجازت سے پوجا کا آغاز، انصاف کا خون!
عطا بنارسی
بابری مسجد کے طرز پر ہی گیان واپی مسجد کے ساتھ بھی معاملات کیے جا رہے ہیں جو لمحۂ فکریہ ہے
متعدد ملی تنظیموں نے فیصلے کی شدید مذمت کی۔ صدر جمہوریہ اور چیف جسٹس سے ملاقات کا فیصلہ
جامع مسجد گیان واپی معاملے میں ضلعی عدالت نے جس سرعت اور برق رفتاری کے ساتھ سماعت کی اور یکے بعد دیگرے مندر کے حق میں فیصلے صادر کیے وہ عدالتی کارروائی کی تاریخ میں حیرت انگیز ہے۔ابھی معاملہ اے ایس آئی کی سروے رپورٹ میں مندر ہونے کے دعوے پر چل رہا تھا دریں اثنا ضلعی عدالت نے ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے گیان واپی جامع مسجد کے تہ خانے کے جنوبی حصے میں ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دے دی ۔اس سے بھی حیران کن امر یہ ہے کہ وارانسی کے پولیس کمشنر اور مجسٹریٹ نے راتوں رات ضلعی عدالت کے حکم پر عمل در آمد بھی کرا دیا۔ بروز بدھ31 جنوری 2024 کی صبح عدالت کا فرمان جاری ہوتا ہے اور شہری انتظامیہ سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ دیر رات ہندو فریق اور وشوناتھ ٹرسٹ کے ساتھ مل کر جامع مسجد گیان واپی کی باؤنڈری وال کو توڑ کرتہ خانہ میں پوجااور دیگر رسومات کی شروعات کر دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں مسلم فریق یعنی انتظامیہ کمیٹی کو کہیں سے بھی عدالت میں اپنا موقف رکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔اس تمام عاجلانہ کارروائی کے بعد جب انتظامیہ کمیٹی سپریم کورٹ سے رجوع کرتی ہے تو اسے مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ گیان واپی مسجد کی قانونی ٹیم، جس میں وکیل فضیل ایوبی، نظام پاشا اور آکانکشا شامل ہیں، نے بدھ کی علی الصبح 3 بجے سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے رابطہ کیا تھا، اس کے لیے انہوں نے رجسٹرار سے ایک گھنٹے تک بات چیت بھی کی تھی مگر مسجد انتظامیہ کمیٹی کی جانب سے دائر عرضی پر سپریم کورٹ نے سماعت سے انکار کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے کہا اور جب بروز جمعہ دو فروری کو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی پر سماعت ہوئی تو ہائی کورٹ نے بھی مسجد فریق کو مایوس کیا اورمسجد کے تہ خانہ میں پوجا پر پابندی عائد کرنے سے انکار کر دیا۔سماعت کے دوران مسلم فریق نے کہا کہ عدالت نے مسجد کمیٹی کے اعتراض کو نظر انداز کرتے ہوئے اجازت فراہم کی ہے۔ سماعت کرنے والے جج جسٹس روہت رنجن اگروال نے مسجد کمیٹی کے وکیل سے کہا کہ آپ نے ڈی ایم کو ریسیور مقرر کرنے کے 17 جنوری کے حکم کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ہائی کورٹ نے نہ صرف پوجا پر پابندی عائد کرنے سے انکار کر دیا بلکہ پوجا کے دوران سخت سیکورٹی فراہم کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔
سیشن کورٹ میں انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ رئیس احمد نے گفتگو میں بتایا کہ ہندو فریق کو مسجد کے تہ خانہ میں پوجا کی اجازت قانون کی خلاف ورزی ہے۔عدالت کے ذریعہ حکم جاری کرنے سے ہم حیران ہیں۔ انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس تیزی کے ساتھ سیشن کورٹ نے ہندو فریق کے حق میں فیصلے صادر کیے ہیں اس سے ہم حیران ہیں اور ہم پہلے ہی کہتے آ رہے ہیں کہ ہمیں کورٹ سے کوئی امید نہیں ہے لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔تہ خانے میں 1993 تک پوجا ہونے کی بات پر انہوں نے کہا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے، پوجا شرنگار گوری کی ہوتی تھی اور وہ بھی مسجد کے احاطے سے باہر کے حصے میں ہوتی تھی۔ جس تہ خانے میں پوجا کی اجازت دی گئی ہے یہاں کبھی پوجا نہیں ہوتی تھی۔
اس پورے تنازعہ پر جس سرعت کے ساتھ ضلعی عدالت نے کارروائی کی ہے اور تہہ خانہ میں پوجا کی اجازت دی ہے یہ تمام مسلمانوں کے لیے حیران کن ہی نہیں بلکہ افسوسناک بھی ہے۔ضلعی عدالت کے فیصلے سے تمام مسلمانوں میں مایوسی کا عالم ہے، سرکردہ ملی جماعتوں نے حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ سے مایوسی کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں ملک کی سر کردہ ملی تنظیموں کے نمائندوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور نچلی عدالت کے ذریعہ پوجا کی اجازت کے فیصلے کی شدید مذمت کی۔ اس فیصلے کو مکمل طور پر غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد دلائل پر مبنی قرار دیتے ہوئے انہوں نے انتظامیہ اور ہندو فریق کے درمیان ساز باز کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے اس معاملے پر ملک کے صدر جمہوریہ سے ملاقات کا وقت مانگا ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا سے ملاقات کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ انہیں اس کیس کے پورے عدالتی عمل سے آگاہ کیا جاسکے۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی، امیر جمعیت اہل حدیث مولانا اصغر علی امام سلفی مہندی، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی، جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر ملک معتصم خان، ایم پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی، مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس اور معاون ترجمان کمال فاروقی نے خطاب کیا۔ مسلم رہنماؤں نے کہا ہے کہ گیان واپی مسجد پر نچلی عدالت کے فیصلے سے ہندوستانی مسلمانوں میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ ضلع جج کا یہ فیصلہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اور بے بنیاد معلومات پر مبنی ہے۔ انصاف پر لوگوں کا اعتماد کم کر دیا گیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گیان واپی مسجد کے تہ خانے میں کبھی کوئی مورتی نہیں تھی اور نہ ہی وہاں کوئی پوجا کی گئی تھی۔مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایک جمہوری ملک میں عدالتوں پر ہمیشہ اقلیتوں اور کمزور طبقات کا بھروسہ رہا ہے لیکن حالیہ عدالتی فیصلوں کی وجہ سے مسلمانوں کا اعتماد کمزور ہواہے۔ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ 1991 میں پارلیمنٹ کے پاس کردہ مذہبی مقامات کے تحفظ کے ایکٹ کو نافذ کرنے میں خاموشی اختیار کر رہی ہے۔ اگر سپریم کورٹ اس قانون کو سختی سے نافذ کرے تو نچلی عدالتیں کبھی ایسے فیصلے نہیں دیں گی۔
اس موقع پر شرکا نے کہا کہ انہوں نے صدر جمہوریہ سے ملاقات کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہیں اور ان سے ملاقات کرکے وہ اپنے تمام مسائل ان کے سامنے رکھیں گے اور وہ ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کریں گے۔
دریں اثنا امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے بھی پوجا کی اجازت دیے جانے پر اپنی حیرانی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’وارانسی کی عدالت کے ذریعے گیان واپی مسجد کے جنوبی تہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت دینا انتہائی حیران کن امر ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ ’ورشپس پلیس ایکٹ 1991‘ کے خلاف ہے۔ عملی طور پر ٹائٹل سوٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ یہ مقدمہ ابھی عدالتوں میں زیر التوا ہے۔ چونکہ تہہ خانہ اس مسجد کا حصہ ہے لہٰذا وہاں پوجا کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
گیان واپی مسجد کے تعلق سے ضلعی عدالت میں چل رہی تمام کارروائی پر ماہرین نے پہلے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اسے بھی بابری مسجد کی طرز پر ہی عدالت میں سماعت کیا جا رہا ہے۔بعینہ اسی طرز پر مقامی عدالت کی جانب سے فیصلے بھی مندر کے حق میں صادر کیے جا رہے ہیں ۔ضلعی عدالت کے ذریعہ تہ خانے میں ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دینا اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اسے محض ایک اتفاق کہا جائے یا منصوبہ بند سازش کہ ٹھیک 38 سال قبل یکم فروری 1986 کو ہی عدالت نے ایودھیا میں بابری مسجد کے احاطے میں پوجا شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ فیض آباد کے سیشن جج کرشنا موہن پانڈے نے یہ فیصلہ مقامی وکیل امیش چندر پانڈے کی درخواست پر دیا تھا۔ یکم فروری کو جج کرشنا موہن پانڈے نے اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ اندو کمار پانڈے اور ایس ایس پی کرم ویر سنگھ کا موقف سننے کے بعد عام عقیدت مندوں کے لیے دروازے فوری طور پر کھولنے کا حکم دیا تھا۔ بابری مسجد کے تعلق سے دیے گئے اس فیصلے کے ٹھیک 38 سال بعد گیان واپی مسجد میں بھی پوجا کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ دینے والے جج اجے کرشنا وشویش فیصلہ دینے کے بعد ریٹائر ہو گئے ہیں۔ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے بھی پریس سے بات کرتے ہوئے تہ خانے میں پوجا کی اجازت کو بابری مسجد میں تالا کھولنے کے حکم سے موازنہ کیا ہے۔
جامع مسجد گیان واپی کے سلسلے میں حالیہ دنوں میں سروے رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ہندو فریق کی جانب سے بلند بانگ دعوے شروع ہو گئے ہیں ۔شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے مسجد میں مورتیوں کی برآمدگی کے دعوے کے ساتھ پہلے مندر ہونے کے دعویٰ کیا جا رہا ہے ۔پوری شدو مد کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ موجودہ جامع مسجد گیان واپی کسی بڑے مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہے۔ میڈیا میں بھی وہی سب کچھ دکھایا اور بتایا جا رہا ہے جو ہندو فریق دعوے کر رہا ہے۔ بلکہ اس دعوے کو حقیقت کا جامہ پہنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔جبکہ تاریخی شواہد اور مآثر اس سلسلے میں کچھ اور بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی نے ہندو فریق کے دعوے پر اپنے تفصیلی رد عمل میں اس سروے رپورٹ کو سرے سے خارج کر دیا ہے اور اس دعوے کو جھوٹی روایت قائم کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ کمیٹی کے پاس دستیاب تاریخ کی بنیاد پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مسجد 15ویں صدی میں اورنگ زیب سے پہلے تعمیر ہوئی اور خالی زمین پر تعمیر کی گئی تھی ۔اس کے بعد تین مرحلوں میں اس کی توسیع اور تجدید اکبر اور اورنگ زیب کے ذریعہ کی جاتی رہی۔
کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری ایس ایم یاسین نے کہا کہ اے ایس آئی رپورٹ کا تفصیلی مطالعہ قانونی ماہرین اور مورخین کر رہے ہیں۔ لیکن، رپورٹ کے ابتدائی مطالعہ کے بعد، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اے ایس آئی رپورٹ کے حقائق اور نتائج مئی 2022 میں کیے گئے کورٹ کمشنر سروے سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ سائنسی مطالعہ کے نام پر صرف ایک غلط بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جامع مسجد گیان واپی انتظامیہ کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری ایس ایم یاسین نے کہا کہ "ہمارے پاس دستیاب تاریخ کے مطابق سلطان ابراہیم شرقی جونپور کے صدر الصدور قاضی صدر کے شاگرد شیخ سلیمان محدث نے 42 ہجری (15ویں صدی کے آغاز میں) ہمایوں سے بھی پہلے گیانواپی میں ایک کھلی زمین پر مسجد تعمیر کی تھی۔ اس کے بعد مغل بادشاہ اکبر نے دین الٰہی کے فلسفے کے مطابق مسجد کی توسیع کا آغاز کیا اور مغربی دیوار کے کھنڈرات اسی تعمیر کا حصہ ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اورنگ زیب نے 17ویں صدی میں مزید توسیع کی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ مسجد اورنگ زیب سے پہلے موجود تھی اور اسے تین مرحلوں میں تعمیر اور توسیع کی گئی۔ ہندو فریق کا یہ دعویٰ کہ مسجد مندر کو توڑ کر تعمیر کی گئی بے بنیاد ہے۔
مولانا عبدالحمید نعمانی نے مآثر عالم گیری اور دیگر تاریخی شواہد کے حوالے سے بتایا کہ اورنگ زیب نے مندر ضرور منہدم کیے ہیں لیکن جس مندر کے توڑے جانے کا دعویٰ ہندو فریق کی جانب سے کیا جا رہا ہے وہ بے بنیاد ہے۔اورنگ زیب نے وہاں ان مندروں کو منہدم کرنے کا حکم دیا تھا جہاں حکومت وقت کے خلاف سازشیں رچی جا رہی تھیں۔ اس کے علاوہ ان مندروں میں ہندو اور مسلم دونوں بچوں کو غلط تعلیم دی جا رہی تھی۔رہی بات مسجد کی تعمیر کی تو اورنگ زیب نے کوئی مسجد تعمیر نہیں کرائی۔ انہوں نے کہا کہ ہندو فریق مندر توڑنے اور مسجد تعمیر کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں دونوں چیزیں الگ الگ ہیں۔موجودہ مسجد اورنگ زیب سے بہت پہلے کی تعمیر کردہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اکبر، جہاں گیر اور شاہ جہاں کے عہد میں بھی گیان واپی جامع مسجد موجود تھی۔
گیان واپی مسجد سے قبل عظیم الشان مندر کے دعوے پر بھی انتظامیہ کمیٹی نے سوال کھڑے کیے ہیں۔کیونکہ کہا جاتا ہے کہ کاشی کا ہندوؤں کے مرکز سے قبل بودھوں کا مذہبی مرکز تھا۔ مورتیوں اور مجسموں کی برآمدگی اس دعوے کی حقیقت کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہاں کوئی بڑا مندر تھا۔ جوائنٹ سکریٹری یٰسین نے ہندو فریق کے دعوے پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ’’یہ کیسے دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ پہلے صرف ایک عظیم الشان ہندو مندر تھا؟‘‘ وارانسی بدھ مت کا بھی ایک بڑا مرکز رہا ہے اور شنکراچاریہ کی آمد کے بعد بدھ مت کے ماننے والے یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اصل تاریخ معلوم کرنے کے لیے اس بات کا بھی مطالعہ کیا جانا چاہیے کہ کیا یہاں کوئی بدھ مٹھ یا مندر موجود تھا۔ اگر شہر کی کھدائی کی جائے تو بدھ مت اور جین مت کے بہت سے حقائق بھی مل سکتے ہیں۔
ہندو تاریخ ،تہذیب و ثقافت پر نظر رکھنے والے دانشور مولانا عبدالحمید نعمانی نے کہا کہ ہندو اور سناتن روایت میں مورتی پوجا کہیں نہیں ہے، ہندوؤں کے اندر مورتی پوجا کی روایت بودھوں کے بعد آئی ہے۔انہوں نے تاریخی حوالوں سے دعویٰ کیا کہ ہندو برہمنوں نے بودھوں کے مجسموں کو بڑی تعداد میں تبدیل کر کے اپنے یہاں قدیم سناتن کی روایت کے بر عکس مورتی پوجا کی نئی روایت شروع کی۔
سروے کے دوران اے ایس آئی کے ذریعہ پائی گئی مورتیوں، سکوں اور دیگر اشیاء کے بارے میں ایس ایم یٰسین نے کہا کہ "1993 سے پہلے گیان واپی کے آس پاس کا علاقہ کھلا تھا اور اسے ڈمپنگ یارڈ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اے ایس آئی نے جب سروے شروع کیا تو مسجد کے عقبی حصے میں ملبے کا تقریباً 10 فٹ اونچا ڈھیر پڑا ہوا تھا، جبکہ کوٹھریوں میں 3 فٹ اونچائی تک ملبہ دیکھا گیا۔ یہ چیزیں اسی ملبے سے برآمد ہوئیں، جو کئی دہائیوں سے مسجد کے قریب پھینکی گئی تھیں۔
’جامع مسجد گیان واپی اور بنارس کی دیگر تاریخی مساجد حقیقت اور کہانی‘ کے مصنف مولانا عبدالحمید نعمانی نے بات چیت میں بتایا کہ مسجد کے پیچھے کرایہ دار تھے جو مجسمے اور مورتیاں بنایا کرتے تھے اور اس کے باقیات وہیں خالی پڑی زمین پر ڈمپ کر دیا کرتے تھے ،ایک عرصہ تک ایسا چلتا رہا ،پھر آگے ایسا بھی ہونے لگا کہ بنارس کے دیگر مقامات پر مورتی ساز اپنے باقیات یہیں ڈمپ کرنے لگے جس سے ملبے کا ڈھیر جمع ہو گیا۔یہ مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کی عدم توجہی کا نتیجہ تھا۔ آج مورتیوں اور مجسموں کی برآمدگی کے دعووں کی یہی حقیقت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ پورا علاقہ ہندو تہذیب اور ثقافت کا علاقہ ہے اس لیے جب تہذیبوں کا تصادم ہوتا ہے تو قدیم تہذیب ملبے میں چلی جاتی ہے ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس علاقے میں جہاں کہیں بھی کھدائی کی جائے گی وہاں مورتیاں اور مجسمے برآمد ہوں گے۔
مغربی دیوار کے تعلق سے مولانا عبدالحمید نعمانی نے کہا کہ در اصل ترک اور مغل ایرانی حکم رانوں کی تہذیب اور ثقافت میں تصاویر اور مجسمے ممنوع نہیں سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عام مندروں کے کھمبوں اور پلروں کو بلا جھجھک مسجد کی تعمیر میں استعمال کیا ۔
ہندو فریق سروے رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد پر جوش ہے،ل وشو ہندو پریشد نے مسلمانوں سے مسجد سے دستبرداری کا مطالبہ بھی شروع کر دیا ہے۔اس کے علاوہ سروے رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ میں سیل وضو خانے کے سروے کرانے کی عرضی بھی داخل کی گئی ہے۔دریں اثنا انتظامیہ کمیٹی نے بھی آئندہ پوری تیاری اور شدت کے ساتھ مسجد کے تحفظ کے اقدامات کا اعلان کیا ہے ۔مسجد کمیٹی نے یقین کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عبادت گاہ (خصوصی دفعات) ایکٹ، 1991 کے تحت سپریم کورٹ سے راحت ضرور ملے گی۔ جوائنٹ سکریٹری یاسین نے کہا کہ کمیٹی نہ صرف اے ایس آئی سروے رپورٹ کو چیلنج کرے گی بلکہ مسجد کی حفاظت کے لیے پوری تیاری کے ساتھ مقدمہ بھی لڑتی رہے گی۔
***
***
اب اور کتنا پیچھے جائیں گے؟
گیان واپی معاملے پر ضلعی عدالت نے حالیہ عاجلانہ فیصلہ پر نہ صرف مسلمانوں میں حیرت ہے بلکہ اس معاملے میں گہری نظر رکھنے والے دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد بھی حیرت زدہ ہیں۔ پیشہ سے صحافی اور سوشل میڈیا پر مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر بے باک اظہار خیال کرنے والی سواتی مشرا نے اپنے ایکس ہینڈل پر اس پورے معامل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ تہ خانے میں پوجا شروع کرنے کی راہ ہموار کر کے مقامی عدالت پہلے سے ہی گہرے فرقہ وارانہ تنازعات کو بڑھا رہی ہے۔ سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں مسجد ہے وہاں مندر تھا یا مندر کو گرا کر مسجد بنائی گئی۔ یہ سوال پرانا ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ اس وقت میں اور اب میں بہت فرق ہے۔
ہم قرون وسطیٰ میں نہیں رہتے، اب ہیڈ ہنٹنگ نہیں ہوتی، ملک اور معاشرہ پیچھے کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ ایودھیا پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے خود کہا تھا کہ وہ تاریخ کو پرانے تنازعات کو کھرچنے اور نئے تنازعات کو ہوا دینے کا آلہ بننے کی اجازت نہیں دے سکتے۔سی جے آئی چندر چوڑ خود پانچ ججوں کی بنچ کا حصہ تھے۔ اس کے باوجود جب مسجد انتظامیہ کمیٹی نے سول کورٹ کے جج کے ذریعہ دیے گئے سروے کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے الہ آباد کے راستے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو گزشتہ سال مئی میں چندر چوڑ نے سروے کے حق میں تبصرہ کیا اور درخواست ڈسٹرکٹ جج کو واپس بھیج دی گئی۔ نہ تو عبادت گاہوں کے قانون پر غور کیا گیا اور نہ ہی ایودھیا کی سپریم کورٹ بنچ کے تبصروں پر غور کیا گیا۔ سپریم کورٹ کا اس طرح کا رویہ اور خود چیف جسٹس کے تبصروں نے نچلی عدالت میں کیس کے مستقبل کے سفر کا رخ طے کیا۔ سوال یہ ہے کہ ملک آگے جائے گا یا پیچھے؟ کل ایودھیا پھر گیان واپی اور متھرا کے لیے عرضی ہے۔ کوئی سری رنگا پٹنم کی مسجد میں پوجا کرنا چاہتا ہے۔ کوئی جامع مسجد میں کھدائی چاہتا ہے۔ تاریخ میں بدھ خانقاہوں اور جین مندروں کو گرانے اور ہندو مندر بنانے کے الزامات ہیں۔ کتنے سروے ہوں گے اور ہم کتنا نیچے کھدائی کریں گے اور مزید کتنے پیچھے جائیں گے؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024