اداریہ

عدلیہ اور حکومت تصادم کی راہ پر،لیکن۔۔۔

ہندوستان کی سب سے اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ نے وزیر قانون کرن رجیجو کی جانب سے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران کیے گئے بعض تبصروں پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مذکورہ ٹی وی انٹرویو کے دوران وزیر قانون نے ججوں کے تقررات کے لیے اس وقت رائج کالیجیم کے طریقہ کار پر تنقید کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس سے قبل اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے تقرریوں کے لیے کالیجیم کی جانب سے سفارش کردہ ناموں کی منظوری میں تاخیر پر ناراضی ظاہر کی تھی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ "یہ مت کہیے کہ حکومت نے فائلیں دبا کر رکھی ہوئی ہیں، اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو حکومت کے پاس فائلیں مت بھیجیے، خود اپنے طور تقرر کر لیجیے اور کام چلائیے”۔ حکومت کے ایک اعلیٰ ذمہ دار کی جانب سے ملک کی عدلیہ اور اس کے نظام کے متعلق اس طرح کے ریمارکس اپنے آپ میں حکومت کی انانیت، ضد اور ہٹ دھرمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اپنے مذکورہ بیان میں جسٹس سنجے کشن کول اور اے ایس اوکا کی بنچ نے کہا کہ "کئی لوگوں کو رائج قانون کے متعلق تحفظات ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب تک کوئی قانون تبدیل نہیں ہوتا وہی ملک کا قانون ہوتا ہے۔۔۔۔ ہم نے صحافتی رپورٹس کو نظر انداز کیا ہے لیکن اب ایک اہم شخصیت کی طرف سے بات سامنے آئی ہے۔۔۔۔ جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا”۔ وزیر موصوف کے تبصرے پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس کول نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی کو کہا کہ شاید حکومت این جے اے سی نظام کے عدم نفاذ سے ناراض ہے، لیکن اس وجہ سے رائج قانون و ضابطے کی پابندی نہ کرنا مناسب نہیں ہے۔
ہندوستان میں عدالتوں کے ججوں کا تقرر ایک کالیجیم کے ذریعے ہوتا ہے۔ کالیجیم کے نظام میں چیف جسٹس آف انڈیا اور سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججوں کا ایک فورم ججوں کے تقرر اور تبادلوں کی سفارش کرتا ہے اور حکومت کی رسمی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ مرکزی حکومت کے بشمول مختلف افراد کو یہ نظام پسند نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ سپریم کورٹ میں سلطنت کے اندر ایک اور سلطنت کی طرح ہے۔ موجودہ حکومت نے 2014 کے دوران دستور میں 99ویں ترمیم اور نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹس کمیشن ایکٹ منظور کیا تاکہ اس کے ذریعے ججوں کے تقرر کو منضبط کیا جائے۔ اپریل 2015 کو یہ ایکٹ اور دستوری ترمیم نافذ ہو گئی۔اس ایکٹ کے مطابق یہ کمیشن چیف جسٹس آف انڈیا، سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں، وزیر قانون اور دو معروف شخصیتوں یعنی کل چھ افرد پر مشتمل ہو گا۔ ان معروف افراد کی نامزدگی چیف جسٹس، وزیر اعظم، لوک سبھا میں قائد اپوزیشن پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تین سال کے لیے ہو گی اور کسی کو بھی دوبارہ نامزد نہیں کیا جا سکے گا۔ اکٹوبر 2015 میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعے مذکورہ ایکٹ اور دستور میں 99ویں ترمیم کے ایکٹ 2014 کو مسترد کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ مذکورہ ایکٹ اور ترمیم کی وجہ سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں میں ججوں کے تقرریوں میں سیاست دانوں اور سیول سوسائٹی کا عمل دخل بڑھ جائے گا۔ یہ ہے وہ پورا پس منظر جس کی وجہ سے سپریم کورٹ اور وزارت قانون کے درمیان یہ لفظی نوک جھونک ہوئی اور اس طرح کے بیانات سامنے آئے۔
یقیناً حکومتوں اور عوام کو ہمیشہ اس بات کو کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ ملک کی عدلیہ سیاسی و سماجی اور ہر قسم کے دباو اور اثرات سے آزاد ہو۔ یہ بات درست ہے کہ موجودہ نظام میں بہت سی خرابیاں ہیں۔ بھارت کے عدالتی نظام پر برہمنوں کے غلبہ کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔ ملک کے تمام ہی پسماندہ طبقات جاری کالیجیم سسٹم کے ذریعے ججوں کے انتخاب بلکہ تقرر کو ‘منواسمرتی’ والے نظام سے تشبیہ دیتے رہے ہیں۔ دیگر دانشور اسے Uncle Judge Syndrome بھی کہتے آئے ہیں جس کے تحت ہر نیا وکیل کسی نہ کسی جج کا قریبی رشتے دار ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ موجودہ عدالتوں میں تقرری کے نظام میں اصلاح کی ضرورت تو ہے لیکن حکومت کی کسی بھی مداخلت کے بعد وہی کچھ اندیشے موجود ہوں گے جن میں ہر دیگر سرکاری ادارے کو اپنے تنگ نظریے اور حقیر مفادات کی خاطر استعمال کرنے کا رجحان پنپ رہا ہے جو جمہوریت کو کھرچ ڈالنے کی مانند ہو گا اور اس میں ایسی کوئی بھی تبدیلی مزید خرابی پیدا کرے گی جس میں اہل سیاست کا عمل دخل بڑھ جائے۔ اب جب کہ مذکورہ ترمیم کے مطابق وزیر قانون کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا ہے اور معروف شخصیتوں کے تقرر میں وزیر اعظم
اور قائد حزب اختلاف کی بھی شمولیت ہو تو یقیناً اس تبدیلی سے یہ اندیشہ کرنا بے جا نہیں ہے کہ سیاست دانوں کے عمل دخل کے بعد ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ کا کیا انجام ہو گا؟

ملک کا دستور بنانے والوں نے عدلیہ، بالخصوص سپریم کورٹ کو ملک کے آئین اور سماجی انقلاب کے ایک محافظ کی حیثیت سے دیکھا تھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عدلیہ کو سماجی انقلاب کا اہم بازو بننا چاہیے جو ایسی مساوات کا علم بردار ہو جس کا خواب ہندوستان کے عوام نوآبادیاتی دور سے ہی دیکھتے آرہے تھے لیکن اس وقت وہ اسے شرمندہ تعبیر نہ کر سکے تھے۔ عدلیہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی بھی نگہبان ہے بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق اسی وقت باقی رہ سکتے ہیں جب عدلیہ ہر قسم کے بالخصوص حکمرانوں کے دباو اور اثرات سے آزاد ہو۔
اسلام نے آج سے چودہ سو برس قبل ہی ایک ایسا ہی آزاد نظام عدالت قائم کر دیا تھا جہاں قاضی اور عدالتیں پوری طرح آزاد اور خود مختار تھیں۔ قاضی صرف اس بات پر خلیفہ وقت کا مقدمہ خارج کر دیتا ہے کہ وہ اپنے حق میں فرزند اور غلام کے سوا کوئی اور گواہ پیش نہیں کر سکا، اور خلیفہ کے خلاف فیصلہ سنانے میں اسے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ ملک میں جاری مختلف مباحث میں اہل اسلام کو حصہ لیتے ہوئے اپنا موقف مدلل انداز سے پیش کرنا چاہیے اور مختلف معاملات میں اسلام کی تعلیمات سے ملک کے عوام کو بھی واقف کروانا چاہیے۔