اداریہ
ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد حجاب کے قانون کے خلاف خواتین کا احتجاج سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے۔مختلف خبر رساں اداروں کی اطلاعات کے مطابق ایران کے مختلف علاقے اس سے متاثر ہیں اور تقریباً 80 سے زائد شہروں میں اس وقت یہ احتجاج جاری ہے۔ اس احتجاج کے دوران ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں اب تک کم از کم 40 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکومت نے سیکڑوں سماجی کارکنون اور سیاسی مخالفین کو گرفتار کیا ہے۔
22 برس کی مہسا امینی 16 ستمبر کو تہران کے ایک ہسپتال میں فوت ہو گئیں۔انہیں 13 ستمبر کو ایران کی مخصوص پولیس نے حجاب درست طریقے پر نہ پہننے کی وجہ سے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ حراست کے دوران وہ کوما میں چلی گئی تھیں اور تیسرے دن ہسپتال میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ مہسا امینی کی موت کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور خواتین کی جانب سے اس کے خلاف زبردست احتجاج شروع ہو گیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ایران کے کئی علاقوں میں پھیل گیا۔
واضح رہے کہ ایران میں خواتین کے لیے قانوناً سر ڈھکنا ضروری ہے اور اس سرکاری حکم کی تعمیل کروانے کے لیے ایک مخصوص پولیس بھی موجود ہے جو خلاف ورزی کرنے والوں کو اپنی تحویل میں لے کر ان کی کاونسلنگ و تربیت کرتی ہے۔ مہسا امینی کو اسی ادارے نے اپنی تحویل میں لیا تھا جہاں اس کی موت واقع ہوئی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایران کسی احتجاجی تحریک کی لپیٹ میں ہے۔ اس ملک کی حالیہ تاریخ میں ایسے کئی نشیب و فراز آ چکے ہیں۔ 1979ء کے انقلاب سے قبل ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے 1936ء میں کشف حجاب کے نام سے ایک فرمان جاری کرکے خواتین کے چادر اور اسکارف پہننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ رضا شاہ پہلوی کا یہ فرمان ایران کے معاشرے کو مغربی تہذیب میں ڈھالنے کے لیے کیے گئے اقدامات کا ایک حصہ تھا۔ اس وقت ایران کے مذہبی طبقے نے رضا شاہ پہلوی کے اس حکم شاہی کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا، پابندی کے باوجود کئی خواتین حجاب اوڑھتی تھیں اور حکومت ان کے خلاف کارروائی بھی کرتی تھی۔ یہ سلسلہ انقلاب ایران تک جاری رہا۔ انقلابِ ایران کے بعد 7 مارچ 1979ء کو آیت اللہ خمینی نے حجاب کی تاکید کا حکم جاری کیا، اس کے خلاف بھی خواتین نے احتجاج کیا۔ پھر ملک میں خواتین پر لباس اور سر ڈھانکنے سے متعلق پابندیوں کا نفاذ شروع ہوا اور رفتہ رفتہ اس میں سختی بھی آنی شروع ہوئی۔ آیت اللہ خمینی کی تاکید و تائید کو بنیاد بنا کر کبھی کبھی خواتین کو زد وکوب کرنے کے واقعات بھی سامنے آنے لگے۔ حکومت نے بھی خواتین پر حجاب کی پابندی اور لباس سے متعلق اپنے ضوابط لاگو کرنے کے لیے مختلف حکم نامے جاری کرنے شروع کیے، بالآخر 1983ء میں اس سلسلے میں باقاعدہ قانون بنا دیا گیا۔ اس قانون کے تحت حجاب نہ پہننے پر 74 کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی۔ بعد کے برسوں میں اس پابندی پر عمل آوری کروانے کے لیے وہ اخلاقی پولیس بھی تشکیل دی گئی جسے گشت ارشاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایران میں ہونے والے خواتین کے اس احتجاج کو بھارت کے بشمول دنیا کے مختلف ممالک کی حقوق نسواں اور حقوق انسانی کی تنظیموں اور دیگر اداروں کی جانب سے پرزور حمایت حاصل ہو رہی ہے اور اس احتجاج کی آڑ میں اسلام اور اسلام کی تعلیمات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسلام کے احکام اور قوانین پر تنقید کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اسلام خواتین کی آزادی اور ان کی ترقی کے خلاف ہے۔ اسلام جبر کا مذہب ہے، وہ اپنے احکام انسانوں پر جبراً نافذ کرنے کا قائل ہے وغیرہ۔ ایران کی خواتین نے بھی حکومتی اقدامات کے ردعمل میں کئی مقامات پر علامتی طور پر حجاب کو جلانے کی کوشش کی جس کو اسلامی احکام کے خلاف خواتین کی بغاوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایران کے احتجاج کے بعد ہمارے ملک میں بھی اس موضوع پر بحث شروع ہو گئی ہے چنانچہ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر یہ مسئلہ چھایا ہوا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے ٹی وی چینلوں کو ایک زریں موقع ہاتھ آ گیا ہے جس کے ذریعے وہ اب اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنائیں گے۔ اس مسئلے کو کرناٹک حکومت کی جانب سے حجاب پر امتناع کے ساتھ جوڑ کر بحث کو نیا رخ دینے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔
یقیناً اس وقت ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے نزدیک درست نہیں ہے اور نہ ہی ایرانی حکومت کا طرز عمل اسلام کی صحیح نمائندگی ہے۔ اسلام انفرادی معاملات میں انسانوں کو مختلف احکام پر عمل آوری کے لیے جبر نہیں کرتا بلکہ وہ تعلیم و تلقین اور ذہنی تربیت کے ذریعے ان پر عمل آوری کا ماحول تیار کرتا ہے۔ وہیں اجتماعی معاملات میں سماج کو بے حیائی اور برائیوں سے پاک رکھنے کے لیے کچھ اصول بھی مقرر کرتا ہے اور تمام انسانوں کو ان کی پابندی کرنے کے لیے کہتا ہے۔ اور اس طرح کے اصول ہر سماج میں ہوتے ہیں۔ انسانوں کی مرضی اور آزادی کے نام پر کسی فرد کو مکمل برہنگی کی اجازت آج کا کوئی بھی معاشرہ نہیں دیتا۔ اس معاملے میں کچھ بنیادی اصول تو اسلام نے بھی مقرر کر دیے ہیں جن کی پابندی اس لیے ضروری ہے تاکہ سماج میں بے حیائی اور برائی کو پنپنے نہ دیا جائے۔ چنانچہ اس معاملے میں اعتدال کا رویہ اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ایرانی حکومت اور وہاں کی اخلاقی پولیس کا طرز عمل بھی اتنا ہی نا مناسب ہے جتنا کرناٹک کی حکومت کا طرز عمل غلط ہے۔ دونوں ہی جگہوں پر خوتین کو جبراً ایک عمل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اگر ایران کی حکومت جبراً حجاب پہننے کے لیے مجبور کر رہی ہے تو کرناٹک کی حکومت جبراً حجاب اتارنے کے لیے مجبور کر رہی ہے۔ دونوں جگہوں پر محض جبر کے ماحول کے ذریعے اپنی مرضی کو تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ نا مناسب طرز عمل ہے۔