بشری ناہید، مہاراشٹر
اسلامی حدود کا لحاظ ضروری۔ صحابیاتؓ کو رول ماڈل بنائیں
مغربی تہذیب کے دلدادہ جدت پسند طبقہ نے آزادی ’مساوات و برابری‘ خواتین کے حقوق اور ترقی و ماڈرنزم کے نام پر خواتین کے ناتواں کاندھوں پر دوہری ذمہ داری ڈال دی ہے ۔ آزادی کے فریب میں مبتلا خواتین نے بھی خوشی خوشی اس بوجھ کو اپنے کاندھوں پر لے لیا ہے، اب وہ گھر بھی سنبھال رہی ہیں اور معاشی جدوجہد میں بھی مصروف ہیں۔
عورت جب معاشی ذمہ داری سنبھالتی ہے تو اسے مختلف مسائل پیش آتے ہیں ۔
ہر میدان کے الگ الگ مسائل ہوتے ہیں مثلاً اعلیٰ سوسائٹی میں ملازمت یا کاروبار کرنے والی خواتین دفتروں و فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین،کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین، مٹی اور پتھر اٹھانے والی خواتین، مزدور و ملازمت پیشہ خواتین وغیرہ۔ انہیں عام طور پر جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے ان میں مزدور پیشہ خواتین کو مردوں سے کم اجرت کا دیا جانا ،حالانکہ وہ مردوں کے برابر کام کرتی ہیں۔ ہراساں کیا جانا ،جنسی استحصال ، بلیک میل، ڈرانا دھمکانا وغیرہ شامل ہیں۔
درج بالا مسائل زیادہ تر ان وطنی بہنوں کو پیش آتے ہیں جو صنفی تفریق کا لحاظ رکھے بغیر آزادنہ اختلاط کے ساتھ رہتی ہیں ۔ ہندوستانی معاشرے کے اثرات کہیں نہ کہیں مسلمانوں پر بھی پڑتے ہی رہتے ہیں وہ مسلم خواتین جو کسی بھی طرح کی معاشی جدوجہد کرتی ہیں اگر معاشی میدان میں خواتین کے لیے متعین کردہ احکامات و شرائط سے واقفیت نہیں رکھتی ہیں تو ممکن ہے ملک کی رنگا رنگی تہذیب میں خلط ملط ہونے کے باعث فتنوں میں پڑھ جائیں اور اس کےغلط نتائج سے خدانخواستہ ملت ہی نہیں اسلام کو بھی بدنام کرنے کے نئے موضوعات اسلام دشمن و شر پسندوں کے ہاتھ لگ جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملت کی باشعور بہنیں ‘ خواتین کے لیے معاش سے متعلق اسلام کی تعلیمات کو صرف ملت ہی نہیں بلکہ ملک کی ہم وطن بہنوں تک بھی پہنچا نے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ النساء میں ارشاد فرمایا:
’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘ (4:34)
شریعت نے خواتین پر معاش کی ذمہ داری نہیں رکھی ’حتیٰ کہ خود اس کی اپنی بھی نہیں۔ اہل خانہ کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے بیٹی ہو تو والد ذمہ دار، بہن ہو تو بھائی ذمہ دار ، بیوی ہو تو شوہر ذمہ دار اور ماں ہو توبیٹا ذمہ دار ہوتا ہے بالفرض ان میں سے کوئی رشتہ موجود نہ ہو تو عورت قریبی رشتہ دار کی ذمہ داری میں ہوگی اور خدا نخواستہ قریبی رشتہ دار بھی نہ ہو تو حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ اسے ضروریات زندگی فراہم کرے۔
ملت کے بعض گھرانوں میں خواتین کا معاشی جدوجہد کرنا پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ اگر خاتون کوئی ذریعہ معاش اختیارکر تی ہے تو گھر کے مردوں کو لعن طعن کیا جاتا ہے ۔ عورتوں کی کمائی کھانے والے نکمے مرد کا خطاب ملتا ہے۔ حتیٰ کہ عورت کے کسب معاش کو بعض گھروں میں حرام بھی سمجھا جاتا ہے ۔
معاشرے کی اس سوچ کو دیکھ کر بہت سارے مرد معاشی پریشانی اٹھاتے ہیں لیکن گھر کی خواتین کو کسی بھی قسم کا ذریعہ معاش اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہم اپنی ذاتی سوچ اور معاشرے کے رواج و خیالات کے بجائے یہ دیکھیں کہ اسلام اس تعلق سے کیا رہنمائی کرتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے
خواتین کی معاشی جدوجہد کے جواز کی مختلف جائز وجوہات سامنےآتی ہیں جیسے
معاشی تنگی دور کرنے،اپنی صلاحیت و دلچسپی کے میدان میں انسانیت کی بھلائی ،اپنے وقت کے مناسب و کارآمد استعمال ،کسی سماجی ضرورت کو پورا کرنے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کے لئے وہ معاشی تگ ودو کرتی ہیں۔
خواتین اپنی مرضی اور خوشی سے سرپرست کی اجازت کے ساتھ ہر جائز ذریعہ معاش اختیار کر سکتی ہیں ۔ ان پر کوئی زبردستی نہیں وہ جب تک چاہے کریں اور جب چاہے چھوڑ دیں۔
اسلام نے عورت پر کفالت کی ذمہ داری نہیں ڈالی لیکن اسے بے کار یا اضافی بوجھ کی طرح بھی نہیں رکھا گیا بلکہ اسے وراثت ، حق مہر اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے جائیداد بنانے کا حق دیا ہے وہ اپنی آمدنی کو خود پر اور بچوں پر اپنی مرضی سے آزادانہ خرچ کرسکتی ہیں اس پر اسی کا حق اور اختیار ہوگا۔
عورت اسلامی حدود کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی مرضی و پسند کا ذریعہ معاش اختیار کرسکتی ہے ۔
اسلام جو حدود مقرر کرتا ہے اس میں سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ حلال روزی اختیار کریں ،حرام سے بچیں۔
( یہ حدود مرد و خواتین دونوں کے لئے ہیں)
خواتین کو پردہ کا اہتمام کرنا ہوگا ، نامحرم سے لچھے دار گفتگو سے بچنا ، لب ولہجہ میں احتیاط ، تنہائی میں ملاقات و سفر سے اجتناب، خوشبواور زیورات کی جھنکار ،بناو سنگھار کے اظہار سے پرہیز کرنا ہوگا ۔
یہ اسلامی احکام و حدود ہیں جو خواتین کی عصمت و عزت کے تحفظ کے لیے لازمی ہیں۔خود ہمارے ملک میں بھی عورتوں کے لیے حکومت کی جانب سے منظور شدہ فیکٹری ایکٹ کے تحت شام 6 بجے کے بعد خواتین کو نائٹ شفٹ لازمی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن جدت پسند طبقہ نے آزادی و مساوات کے نام پر خواتین کی ذمہ داریوں میں اضافہ کر دیا ہے بیشتر خواتین آزادی کے فریب میں دوہری ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔
دور حاضر کی خواتین کو ان سے متاثر ہوئے بغیر دور نبوی کی خواتین کو نمونہ عمل بنانا چاہیے جنہوں نے اسلامی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے مختلف ذریعہ معاش اختیار کیا ’ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ضرورت پڑنے پر اپنی پسند اور صلاحیت کے مطابق پیشہ اختیار کیا ، تجارت کی ، اپنی مرضی سے خرچ کیا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکی اہلیہ کاریگری کے ذریعے اپنے شوہر و بچوں کےاخراجات پورے کرتی تھیں ایک دن حضورﷺ سے عرض کیا میں کاریگر ہوں مال تیار کر کے فروخت کرتی ہوں میرے شوہر اور بچوں کے پاس کچھ نہیں نہ کوئی ذریعہ آمدنی ہے کیا میں اپنے بچوں پر خرچ کر سکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں تم کو اس کااجر ملے گا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ کی خالہ جو مطلقہ تھیں انہوں نے دوران عدت کھیت میں جا کر کھجور کے درخت کاٹنے کا ارادہ کیا تو ایک صاحب نے سختی سے منع کیا’ وہ اس سوال کو لے حضور ﷺ کے پاس گئیں اور دریافت کیا کہ کیا وہ ایسا کر سکتی ہیں یا نہیں؟ تو حضور ﷺ نے جواب دیا :
کھیت جاو اور اپنے کھجور کے درخت کاٹو اس رقم سے ممکن ہے کہ تم صدقہ و خیرات یا اور کوئی بھلائی کا کام کر سکو ۔ ( ابو داود۔ )
حضرت خدیجہؓ تاجرہ تھی ’حضرت سودہ دستکار تھی چمڑے کی دباغت کا کام کرتی تھیں یعنی لیدر ٹیکنالوجی سے بہرہ مند تھیں ‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خطیبہ بھی تھی اور طبیبہ بھی‘ تاریخ شعر و ادب اور تدریس کا کام انجام دیتی تھیں۔
حضرت خولہ بنت قیس اور اسماء بنت مخزمہ عطر کا کاروبار کرتی تھیں ‘ حضرت زینب بنت جحش مختلف چیزیں تیار کر کے فروخت کرتی تھیں اس کے علاوہ کئی صحابیات رضی ﷲ عنہما طبیبہ تھیں۔ کئی خواتین رضاعت کے پیشہ سے وابستہ تھیں۔ بہرحال تاریخ میں خواتین کی معاشی جدوجہد کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
خواتین خود کو بااختیار بنانے کے لیے یا کسی اور وجہ سے ذریعہ معاش اختیار کررہی ہوں تو وہ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ ان کے کسی طرز عمل سے اس بات کا اظہار نہیں ہونا چاہیے کہ اب وہ مرد کی سرپرستی سے بے نیاز ہیں یا انہیں کسی تحفظ کی ضرورت نہیں ۔ وہ مردوں کی برابری کی خواہش مند ہیں اور نہ ہی ان پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ اپنی کمائی کا رعب جمانا چاہتی ہیں اور نہ ہی مردوں کی حریف بن کر کھڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے نہ تو مال کی ہوس و لالچ میں کوئی پیشہ و ملازمت اختیار کی ہے اور نہ ہی مغربی تہذیب پر فریفتہ ہو کر ان کی نقالی میں جدت پسندی کا لبادہ اوڑھ کر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کررہی ہیں۔
کسب معاش میں مصروف خواتین کے طرز عمل سے ظاہر ہونا چاہی کہ وہ صحابیات کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہی ہیں جنہوں نے اسلامی حدود میں رہ کر معاشی تنگی کو دور کرنے، راہ خدا میں خرچ کرنے ، انسانیت کو فائدہ پہنچانے کی خاطر معاشی جدوجہد کی تھی۔ وہ جس میدان کی صلاحیت اپنے اندر رکھتی تھیں انہوں نے اسی میدان میں کام کر کے اپنا نام اسلامی تاریخ میں درج کروایا۔
خواتین اپنی صلاحیت و وقت کے مطابق مختلف طریقوں سے کسب معاش کر سکتی ہیں جیسے:
ابتداء میں کم سرمایہ لگا کر چھوٹے پیمانے پر کاروبار کیا جا سکتا ہے۔
زیادہ سرمایہ لگا کر شراکت داری یا گروپ کی شکل میں تجارت کی جاسکتی ہے۔
مختلف چیزیں تیار کرکے فروخت کی جاسکتی ہیں ۔
معاش کے لیے اپنی صلاحیتوں و ہنر مندی سے استفادہ کرسکتی ہیں
وشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس کے ذریعہ بھی آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے
سرکاری و نیم سرکاری اداروں اور گھر یلو ملازمت کے ذریعہ بھی خواتین معاش حاصل کرسکتی ہیں۔ان کے علاوہ بھی روزگار کے بے شمار ذرائع ہے جو گھر بیٹھے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ محنت و ایمانداری کے ساتھ حلال و حرام کی حدود میں رہتے ہوئے خواتین کے معاشی جدوجہد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ اسلام اس سے روکتا ہے۔
اس عنوان کے ذیل میں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ وہ خواتین جن کو شوہر اپنی آمدنی میں سے گھر کے اخراجات کے لیے رقم دیتے ہیں ان خواتین کو اس رقم کے مطابق بجٹ بنا کر خرچ کرنا چاہیے ۔
محض شوقیہ یا خوامخواہ پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی حرص کر کے مسابقت کے جذبہ سے اخراجات کو بڑھانا نہیں چاہیے ورنہ معاشی تنگی کا سامنا کرنا ہوگا پھر شوہر اخراجات پورے کرنے کے لیے غلط طریقے اختیار کرے گا اور مزید نئی پریشانیاں پیدا ہوں گی دنیا کے ساتھ آخرت بھی خراب ہوگی۔
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے
اس لیے جو خواتین معاشی تگ ودو نہیں کر سکتیں یا نہیں کرنا چاہتیں وہ بھی اگر سلیقہ مندی سے شوہر کی آمدنی کے مطابق بجٹ بنا کر کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کریں تو ان کا بھی گھر کی معیشت کو مستحکم کرنے میں بہت اہم رول ہوگا۔ نیزاس کے بہت اچھے اثرات گھر کے بچوں اور خاندان پر پڑیں گے اور بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
***
***
جو خواتین معاشی تگ ودو نہیں کر سکتیں یا نہیں کرنا چاہتیں وہ بھی اگر سلیقہ مندی سے شوہر کی آمدنی کے مطابق بجٹ بنا کر کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کریں تو ان کا بھی گھر کی معیشت کو مستحکم کرنے میں بہت اہم رول ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اپریل 2022