افروز عالم ساحل
اس ملک کو آزاد ہوئے ۷۴ برس مکمل ہوچکے ہیں اور اب ہم نے اپنے ملک کی آزادی کا۷۵واںجشن منایا۔ لیکن ان ۷۵ برسوں میں مجھے کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان ۷۵ برسوں میں ملک کے دلت، آدیواسی، پسماندہ طبقہ و اقلیتوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ ملک کا آئین تیار کرتے وقت ایک ایسا نظام بنانے کی کوشش کی گئی تھی جس سے ان کا تعلیمی، اقتصادی و سماجی پسماندگی اور پچھڑاپن دور ہوتا رہے، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار حیدرآباد کے ویرنچی ہاسپیٹل میں سینیئر کنسلٹنٹ گیسٹرولوجسٹ و ماہر ٹرانسپلانٹ ہیپاٹولوجسٹ ڈاکٹر منیشا بانگر نے کیا۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں ڈاکٹر منیشا بانگر کہتی ہیں کہ دراصل ملک کی آزادی کےبعد پرانے حکمراں گئے اور نئے حکمران آگئے۔ ان نئے حکمرانوں کے اوپر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ اب یہ بالکل کھلے عام اور بے خوف ہوکر اپنا سماجی تسلط اور اپنے عقائد نافذ کرتے چلے گئے۔ وہ صرف ’غریبی ہٹاؤ‘ یا ’سماجی برابری‘ کا نعرہ دیتے رہے، لیکن زمینی سطح پر کچھ بھی نہیں ہوا۔ دراصل آزادی تو اپر کاسٹ کے لوگوں کی تھی۔ انہیں پھر سے اپنی من مرضی کی حکومت کرنے کا بہترین موقع مل گیا۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے جس طرح سے انہوں نے ورنا سسٹم بناکر حکومت کی تھی، ویسا ہی پھر کررہے ہیں۔
منیشا بانگر کا ماننا ہے کہ ملک کے دلت، آدیواسی و پسماندہ طبقات کے لئے یہ پرانے حکمران ہی زیادہ بہتر تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ انگریزوں کا دور تو بہوجنوں کے لئے بہت اچھا تھا۔ ان کےراج میں ہی انہیں پڑھنے لکھنے کا موقع ملا۔ انگریزوں نے ہی ان کے لئے تعلیم کے دروازے کھولے۔ ان کی بدولت ہی ملک میں خواتین کے لئے تعلیم حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ انگریزوں نے ہی Untouchability کے خلاف قانون بنائے۔ ملک میں موجود تمام گندے رسوم و رواج کو انہوں نے ختم کیا۔ اس لحاظ سے ان کی حکومت کافی بہتر تھی۔ اور حقیقت تو یہی ہے کہ برٹش راج میں ہی یہ تسلیم کیا گیا کہ دلت، آدیواسی یا پسماندہ طبقات خود سے پچھڑے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک سماجی و مذہبی سازش ہے۔ پاور اسٹرکچر یا فیصلہ سازی کے عمل اور ملک کے تمام سسٹم میں انہیں کہیں نہیں رکھا گیا۔ اس وجہ سے ایسا ہوا۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ برٹش راج میں بھی ان لوگوں کے ذریعے ہمیں پیچھے رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ گاندھی نے دلتوں کو سپریٹ الیکٹوریٹ سے پوری طرح ہٹا دینے کی بات کی۔ مسٹر تلک نے تو یہاں تک کہا کہ گھسیارے، تیلی، تمبولی پارلیامنٹ میں جا کر کیا کریں گے؟ یعنی یہ شروع سے ہی ’سورن پارلیمنٹ‘ کی حمایت میں تھے۔
تبدیلئ مذہب کے سوال پر منیشا بانگر کا کہنا ہے کہ مذہب ایک ایسی چیز ہے، جو ہمیں وراثت میں ملتی ہے اور وراثت میں ملی چیزوں کو شاید ہی کوئی چھوڑنا چاہے۔ اگر واقعی اس میں وقار اور سالمیت ہے، اگر اس میں واقعی انسان کو راحت پہونچانے والی چیز ہے، اگر اس میں عزت نفس ہے، خود اعتمادی کے ساتھ زندگی کو خوشحال بنانے والی چیز موجود ہے، تو کوئی بھی اسے کیوں چھوڑنا چاہے گا۔ کوئی مذہب تبدیل کیوں کرنا چاہے گا۔ اور پھر مذہب تو ایک ایسی چیز ہے، اسے کوئی اتنی آسانی سے بدلنا نہیں چاہتا۔ لیکن جب لوگ ’چھی تھو‘ کہہ کر مذہب تبدیل کریں، جب وہ یہ کہنے کو مجبور ہوجائیں کہ ’ہمیں ایسے مذہب میں رہنا ہی نہیں‘، تب یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ان کی پریشانی کافی بڑی تھی اور ان کے اوپر ذات پر مبنی گھناؤنےجرم ہوئے ہیں کہ ان لوگوں کو مجبوراً وراثت میں ملے مذہب کو بھی چھوڑنا پڑ رہا ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ شروع سے ہی دلتوں و آدیواسیوں کو ہراساں کیا جاتا رہا۔ ایسے میں جب ان کو لگنے لگا کہ ہندو دھرم یا برہمن اتنے گندے ہیں تو اس مذہب سے نکل کر دیگر مذہب اپنانا شروع کیا۔ وہ یہاں سے نکل کر بودھ، عیسائی یا مسلمان بن رہے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ گزشتہ ۷۰۰-۸۰۰ سالوں سے یہ کسی بندوق کی نوک پر یا تلوار کے دم پر مسلمان نہیں بنائے گئے۔ تلوار کے دم پر بنائے گئے ہوتے تو پورا کا پورا ملک ہی مسلمان بن جاتا۔ آج بھی ان کی اذیت اور تشدد کے چلتے ہی خود بخود لوگ بودھ، عیسائی یا مسلمان بن رہے ہیں۔ جب آپ انہیں ہر طرح سے ہراساں کروگے، ان کی عورتوں کے ساتھ زنا کروگے، آپ ان کو چپل نہیں پہننے دوگے، اپنے ساتھ بیٹھ کر کھانے نہیں دوگے، پانی نہیں پینے دوگے، وہ شادی کریں تو ان کو گھوڑی پر چڑھنے بھی نہیں دوگے، تو وہ آپ کے مذہب میں کیوں رہنا چاہیں گے؟ سچ تو یہ ہے کہ ملک میں مذہب کی تبدیلی کو لے کر قانون اس لیے بنایا جا رہا ہے، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ جب ملک میں کوئی ہندو رہے گا ہی نہیں، تو یہ اپنا راج کس کےاو پرچلائیں گے؟
منیشا بانگر کہتی ہیں، مذہب کی تبدیلی اور سماج میں بیداری آنے کی ایک وجہ تعلیم بھی ہے۔ اس سماج میں جیسے جیسے لوگ تعلیم یافتہ ہونے لگے، اپنے مذہب کا معائنہ کرنے لگے، جیسے پیرییار اور بابا صاحب نے کی۔ انہوں نے سوچا کہ اس مذہب میں ہمارے لئے ہے کیا؟ ہم اس مذہب میں کیوں رہیں؟ آج بھی ہمارا سماج جیسے جیسے تعلیم یافتہ ہورہا ہے، وہ سوچ رہا ہے کہ ہم اس مذہب کی غلامی میں کیوں رہیں۔ اور پھر انہیں کچھ بتانا نہیں پڑتا، یہ کسی کے بہکاوے یا لالچ میں نہیں، بلکہ خود سے مطالعہ کرکے اپنے حساب سے مذہب تبدیل کر لیتے ہیں۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ اس ملک میں درج فہرست ذاتوں و قبائل اور اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو کسی نہ کسی طرح سے ان کے اپنے آئینی حقوق سے دور رکھنے اور ان کی آواز دبانے کے لیے پرتشدد طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف میڈیا بھی اس ’تشدد‘ کو ہندو بنام مسلمان بناکر پیش کر رہا ہے۔ درحقیقت میڈیا مذہبی پولرائزیشن بتاکر یہاں کے بہوجنوں کے بنیادی حقوق اور مسائل کو دبانے کی کوشش کر رہاہے۔ یہ حکومت اس ملک میں ’برہمن ازم‘ قائم کر رہی ہے۔ سچ پوچھیں تو ’برہمن ازم‘ کی بنیاد ہی تشدد پر مبنی ہے۔ یہ دہشت اور تشدد پھیلائے بغیر حکمرانی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
منیشا بانگر کہتی ہیں، موجودہ دور میں ملک کے دلتوں، آدیواسیوں اور اقلیتوں کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں کسی راہ چلتے مسافر سے پوچھ لیجئے، تو وہ یقیناً کہے گا یہ انسانیت کے خلاف ہے۔ لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اس کے پیچھے کی سیاست کیا ہے۔ دراصل، اس ملک میں شروع سے ہی درج فہرست ذاتوں و قبائلیوں کو ہراساں و پریشان کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن جب یہ ذرا بیدار ہوئے اور ان کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے حقوق کی بات شروع کی تو ان کو نشانے پر لیا گیا، لیکن یہ کام انہیں زیادہ خطرے والا نظر آیا۔ انہیں یہ محسوس ہوا کہ اگر سب اٹھ کھڑے ہوئے تو کیا ہوگا۔ تو ایسے میں ان کی آواز دبانے کا ایک ہی راستہ تھا کہ ملک میں ’ہندو مسلم نیریٹیو‘ کھڑا کیاجائے۔ دلتوں و آدیواسیوں کی آواز کو دبانے کے لئے انہیں ہندو بتاتے ہوئے ’ہندی، ہندو اور ہندوستان‘ اور ’اردو، مسلم اور پاکستان‘ کا نعرہ دیا گیا۔ اس کے لئے بھی دونوں طرف کے ’اپر کاسٹ‘ ذمہ دار ہیں۔ ایسے میں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جب تک اس ملک میں مذہب کے نام پر پولرائزیشن اور سیاست چلتی رہے گی، بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی طاقتیں جیت حاصل کرتی رہیں گی اور اس ملک کے دلت، آدیواسی اور اقلیت ان کی اذیت و تشدد کے شکار ہوتے ر ہیں گے۔ لیکن اگر ہم اپنی سماجی پہچان کے ہونے یا نہ ہونے پر چلتے رہیں گے تو پھر ان کی پوری سیاست ختم ہو جائے گی۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ طویل گفتگو میں منیشا بانگر کا کہنا ہے کہ اس ملک میں درج فہرست قبائلیوں کی آبادی ۸-۹ کروڑ کے آس پاس ہے۔ اگر آپ جنوبی افریقہ کے ساتھ ساتھ یوروپ کے دو چار ملک ملا لیں گے، تب اتنی آبادی ہوگی۔ پھر بھی اس ملک میں ان کے بارے میں زیادہ سوچا نہیں گیا۔ آج ان کے جو حالات ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اسی طرح سے درج فہرست ذاتوں کی آبادی۱۷ -۱۶ کروڑ کے آس پاس ہے۔ لیکن آج یہ نہ تو پالسی بنانے والے لوگوں میں شامل ہیں اور نہ ہی پالسی نافذ کرنے والوں میں کہیں نظر آتے ہیں۔ در حقیقت اس ملک میں اپر کاسٹ اقلیت میں ہیں۔ یہ لوگ ملک میں ۵ فیصد سے زیادہ نہیں ہیں، لیکن سسٹم میں ہرجگہ یہی ہیں۔ یہی لوگ ملک کی اکثریت کے لئے پالیسی بنارہے ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ آج ہمارا ملک دنیا کے تمام انڈکسوں میں پچھڑتا جا رہا ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ ہم ہیومن انڈکس میں کہاں ہیں؟ ہیلتھ انڈکس میں کہاں ہیں؟ سوچنے کی بات ہے کہ جب حکومت اس ملک کی اصل اکثریت آبادی پر توجہ ہی نہیں دے گی، جب ملک میں اکثریت آبادی کا حال ہی صحیح نہیں ہوگا، ۹۰ فیصد لوگ برے حالات میں ہوں گے، تو کسی ملک کے حالات بہتر کیسے ہوں گے۔
ذات پر مبنی مردم شماری کے سوال پر منیشا بانگر کا کہنا ہے کہ یہ بہت اہم سوال ہے، کیونکہ جیسے جیسے اس ملک کی اس اکثریت کو معلوم ہوگا کہ ہندو کے نام پر کون راج کررہا ہے، تو یہ برہمن جو ہمیں ہندو مسلمان کے تفریق میں پھنساتے ہیں، وہ اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔ میرا تو ماننا ہے کہ جس دن اس ملک کا او بی سی سدھر جائے گا، اپنی اصل طاقت کو سمجھ جائے گا، ملک کے حالات بدل جائیں گے ۔
***
تعارف : ڈاکٹر منیشا بانگر
ڈاکٹر منیشا بانگر حیدرآباد کے ویرنچی ہاسپیٹل میں سینیئر کنسلٹنٹ گیسٹرولوجسٹ و ماہر ٹرانسپلانٹ ہیپاٹولوجسٹ ہیں۔ منیشا بانگر کا میڈیکل کے میدان میں ایک طویل کیریئر رہا ہے۔ آپ ’انڈین نیشنل ایسوسی ایشن فار اسٹڈی آف دی لیور‘ (INASL) کا گورننگ کونسل ممبر رہ چکی ہیں۔ فی الحال ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار اسٹڈی آف لیور (SAASL) کے ہیپاٹائٹس بی اور NASH بیماری کے لیے بنی ٹاسک فورس کی رکن ہیں۔ آپ نے دہلی کے جی بی پنت انسی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز سے ڈاکٹریٹ ان میڈیسین کی ڈگری حاصل کی ہے۔مہاراشٹرہ کے ناگپور شہر میںپیدا ہونے والی ۵۱ سال کی ڈاکٹر منیشا بانگر کی خاندان کا ایک سماجی و سیاسی بیک گراؤنڈ رہا ہے۔ متعدد لوگ ملک کے اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ منیشا بانگر کا کہنا ہے کہ والد کا تعلق ناگپور شہر سے رہا، وہیں والدہ امراوتی کی رہنے والی تھیں۔ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر جب امراوتی آتے تو نانا کے گھر ہی رکتے تھے۔ میری مامی سلوچنا ڈونگرے بابا صاحب کے ساتھ کام کرتی تھیں۔ ۱۹۴۲ کی کانفرنس میں وہ صدر تھیں۔ یہ کانفرنس کافی اہم تھی کیونکہ کانگريس اس کانفرنس کی مخالفت کر رہی تھی، باوجود اس کے اس میں اٹھائیس ہزار عورتوں نے شرکت کی تھی۔ اپنے حقوق کے ليے اتنی بڑی تعداد ميں خواتين پہلی بار سامنے آئی تھیں۔ اور اس وقت پسماندہ اور بہوجن معاشرہ کی بات کرنا، عورتوں کے حقوق کی وکالت کرنا، اپنے آپ ميں بڑی بات تھی۔ میرے دادا کا خاندان بھی سماجی و سیاسی طور پر کافی سرگرم رہا۔ خود میرے دادا ناگپور کے کارپوریٹر کے ساتھ ساتھ مشرقی ناگپور میونسپل کارپوریشن کے نائب صدر رہے ہیں۔ اس طرح سے میرے خاندان کا ہر فرد سماجی و سیاسی کاموں کے ساتھ سماج کی بھلائی کے کاموں میں لگا رہا ہے۔ بتادیں کہ منیشا بانگر بھی ۲۰۱۹ لوک سبھا الیکشن میں ناگپور سیٹ سے بی جے پی کے نتن گڈکری کے خلاف اپنی قسمت آزما چکی ہیں۔ سال ۲۰۲۴ میں پھر سے میدان میں اترنے کی تیاری میں لگی ہوئی ہیں۔
انہوں نے سال ۲۰۱۷ میں ملک کے بہوجنوں کو آواز دینے کے لئے ایک ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ’نیشنل انڈیا نیوز نیٹ ورک‘ قائم کیا۔ اس وقت اس کے یوٹیوب چینل پر دو ملین سے زیادہ سبسکرائبر ہیں۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں منیشا بانگر بتاتی ہیں کہ اس پروفیشنل کام کے ساتھ ساتھ میں اس بات کے لئے فکر مند رہتی ہوں کہ ملک کے دلتوں، آدیواسیوں اور خاص طور پر خواتین کی زندگی میں بہتری کیسے لائی جائے۔ صحت کےمعاملات کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی پہلوؤں پر ان میں بیداری کیسے لائی جائے۔ بتادیں کہ ڈاکٹر منیشا بانگر گزشتہ ۱۲ سالوں سے بامسیف اور مولنیواسی سنگھ جیسی تنظیموں میں قومی قیادت کے عہدوں پر فائز ہیں۔ اور اگر ان کےکام کی بات کریں تو گزشتہ ۲۰ سالوں سے ہندوستان کی "اچھوت” کہی جانے والی نچلی ذاتیں و پسماندہ طبقات کے شہری حقوق کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ خاص طور پر نچلی ذات کی خواتین اور صحت کے مسائل کو لے کر اندرون ملک و بیرون ملک میں کافی سرگرم ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021