کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کو مذہب کی بنیاد پر نہ دیکھیں: لیفٹیننٹ گورنر
نئی دہلی، دسمبر 26: جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا ہے کہ ملک کو وادی میں ٹارگٹ کلنگ کو مذہب کی نظر سے دیکھنا بند کر دینا چاہیے۔
سنہا نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ کشمیری پنڈتوں کی ٹارگٹ کلنگ کے کئی واقعات ہوئے ہیں، لیکن اس معاملے کا دوسرا رخ بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ملک کو اس معاملے کو مذہب کی بنیاد پر دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے۔ بہت سے دوسرے لوگ بھی مارے گئے ہیں۔‘‘
سنہا نے مزید کہا ’’میں بتانا چاہتا ہوں کہ وادی کشمیر کے لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔ ایسے مزدور بھی ہیں جو سیب کے موسم میں بہار، اوڈیشہ، جھارکھنڈ سے آتے ہیں… دو تین واقعات ہوئے، لیکن ایک [جھوٹی] داستان پھیلائی گئی ہے۔‘‘
تاہم انھوں نے کہا کہ وہ کشمیری پنڈت برادری کے غصے کو سمجھ سکتے ہیں۔
لیفٹیننٹ گورنر نے یہ بھی کہا کہ یہ سچ ہے کہ کشمیری پنڈت مکانات کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن انھوں نے مزید کہا کہ بحالی کے منصوبے کے تحت اب 6,000 گھروں کے لیے زمین دستیاب کرائی گئی ہے۔
سنہا نے کہا ’’تقریباً 10 دن پہلے، میں ذاتی طور پر دو مقامات بارہمولہ اور بانڈی پورہ میں معائنہ کے لیے گیا تھا۔ اپریل میں کشمیری پنڈتوں کو 1,200 گھر دیے جائیں گے۔ اگلے دسمبر تک مزید 1,800 مکانات الاٹ کیے جائیں گے۔ سرینگر میں ایک بڑا ہاؤسنگ کمپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس کام کو جلد مکمل کرنا ہماری ترجیح ہے۔ ہمیں امید ہے کہ تمام 6000 مکانات جلد مکمل ہو جائیں گے۔‘‘
14 دسمبر کو مرکز نے راجیہ سبھا کو بتایا تھا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں گذشتہ تین سالوں میں آٹھ کشمیری پنڈتوں اور ایک کشمیری راجپوت کو عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا ہے۔ 20 جولائی کو مرکز نے ایوان بالا کو بتایا تھا کہ جموں اور کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 5 اگست 2019 کے بعد سے کافی حد تک کمی آئی ہے، جب دفعہ 370 کے تحت سابقہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کیا گیا تھا۔
تاہم 2008 میں وزیر اعظم کے بحالی پیکیج کے تحت بھرتی کیے گئے کشمیری پنڈت ملازمین کا ایک گروپ مئی سے احتجاج کر رہا ہے۔ وہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ انھیں وادی سے باہر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔
یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب 12 مئی کو بڈگام ضلع کے چاڈورہ علاقے میں ایک کشمیری پنڈت راہل بھٹ کو اس کے دفتر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
بدھ کو منوج سنہا نے کہا تھا کہ کشمیری پنڈت ملازمین کو اس وقت تک تنخواہ نہیں دی جائے گی جب تک وہ کام پر واپس نہیں آتے۔
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا تھا ’’ہم نے 31 اگست تک ان کی تنخواہیں کلیئر کر دی ہیں۔ لیکن گھر بیٹھے بیٹھے انھیں تنخواہ نہیں دی جا سکتی۔ یہ ان کے لیے ایک بلند اور واضح پیغام ہے۔ انھیں اسے سننا اور سمجھنا چاہیے۔‘‘
تاہم وزیر اعظم کے دفتر میں مرکزی وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے کہا کہ وہ ترجیح دیں گے کہ ایک درجن سرکاری دفاتر بند کیے جائیں، بجائے اس کے کہ ایک شخص کی جان کو خطرہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ زندگی بچانا زیادہ ضروری ہے۔