!دو ہزار کے نوٹ پر پابندی، کالے دھن والوں پر قدغن یا سہولت

سیاہ دھن ختم کرنے کے نام پر لائے گئے دو ہزار کے نوٹ سیاہ دھن بڑھا رہے تھے

زعیم الدین احمد/ ظفیر احمد

نوٹ بندی کا ایک مقصد جعلی نوٹوں کو ختم کرنا تھا لیکن نوٹ بندی کے بعد دو برسوں میں پکڑے گئے جعلی نوٹوں میں 56 فیصد حصہ دو ہزار روپے کے نوٹوں کا تھا۔
گزشتہ دنوں پھر اعلان ہوا کہ دو ہزار روپے کے نوٹ بند کیے جا رہے ہیں۔ شکر ہے کہ اس بار ہمارے ملک کے شو مین نے ٹی وی پر آ کر اعلان نہیں کیا ورنہ یہ بھی ان کے ماسٹر اسٹروکس میں اپنی جگہ بنا لیتا، بہر کیف دو ہزار روپے کے نوٹ اب ہماری جیبوں سے غائب ہونے والے ہیں، بینکوں میں جمع ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ بازار میں اس کے چلن پر پابندی نہیں لگائی ہے لیکن اکثر دکان دار اسے لینے سے گریزاں ہیں، دکان اور خاص طور پر پٹرول پمپوں پر لکھ کر آویزاں کر دیا گیا ہے کہ دو ہزار روپے کے نوٹ قبول نہیں کیے جائیں۔ جن کے پاس بھی دو ہزار کے نوٹ ہیں انہیں موقع دیا گیا ہے کہ وہ ماہ ستمبر تک بینکوں میں جمع کرادیں، ممکن ہے کہ جمع کرانے کی آخری تاریخ میں توسیع کی جائے، تاریخ میں توسیع ہو یا نہ ہو یہ بات تو یقینی ہے کہ دو ہزار کے سارے نوٹ بینکوں میں پہنچ جائیں گے۔
اکتیس مارچ 2023تک 3 لاکھ 62 ہزار کروڑ روپے کے دو ہزار کے نوٹ بازار میں گردش کر رہے تھے ۔ یہ ملک بھر میں گردش کرنے والی رقم کا 10.8 فیصد ہے۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ بازار میں گردش کرنے والے دو ہزار روپے کے سارے نوٹ بینکوں میں واپس جمع ہوجائیں گے، ہم اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سارے ہی دو ہزار کے نوٹ واپس آجائیں گے؟ نوٹوں کی واپسی کا سابقہ تجربہ بتا رہا ہے کہ نوٹ ضرور واپس جمع ہو جائیں گے، کیوں کہ جب پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹوں پر پابندی لگائی گئی تھی تو اس وقت تقریباً پندرہ لاکھ کروڑ روپے بینکوں میں جمع ہوئے، جو نقد رقم بازار میں گردش کر رہی تھی اس کا تقریباً 86 فیصد حصہ ان ہی دو نوٹوں کی شکل میں تھا اور بینکوں میں جمع ہو گیا تھا۔ حکومت نے بھی عدالت عظمٰی میں حلف نامہ داخل کرکے بتایا کہ 99.3 فیصد نقد رقم واپس جمع ہوگئی ہے، باقی اعشاریہ سات فیصد نقد رقم کئی ایک وجوہات کی بنا پر جمع نہیں ہوئی ہوگی۔ حکومت نے اب تک اس جمع شدہ رقم میں سے کتنی رقم کالا دھن تھی نہیں بتایا ہے، وہ کون لوگ تھے جنہوں نے کالا دھن دبا کر رکھا تھا، حکومت نے آج تک ان کے نام بھی ظاہر نہیں کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو دو نوٹوں پر پابندی عائد کی گئی تھی اور جو رقم جمع ہوئی تھی وہ سارا سفید دھن ہی تھی۔ اور جو اعشاریہ سات فیصد پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹ جمع نہیں ہوئے ہیں ان کو ہم کالا دھن قرار نہیں دے سکتے، کیوں کہ ممکن ہے کہ چند وجوہات کی بنا پر لوگ اپنے پاس موجود نوٹ تبدیل نہیں کرا پائیں ہوں! کلی طور پر کوئی کالا دھن سرے سے تھا ہی نہیں، جمع شدہ رقم میں سے نہ تو آر بی آئی نے اور نہ ہی حکومت نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس میں اتنی رقم کالا دھن ہے، اور فلاں فلاں شخص نے اپنا کالا دھن جمع کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے اس وقت ملک میں جتنا مال ہے وہ سارا کا سارا سفید دھن ہی ہے۔
اس سارے عمل سے ملک کی معیشت پر کاری ضرب لگی ہے، کئی لاکھ کروڑ روپے کی جی ڈی پی بری طرح متاثر ہو گئی، سارے معاشی اشاریے تہ وبالا ہوگئے اور اس عمل کے جو منفی اثرات مرتب ہوئے تھے وہ آج تک محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ملک کی معیشت ابھی لڑکھڑائی ہوئی ہے، معیشت کی حالت یہ ہے کہ مالی سال 15 تا 16 میں جو ترقی کی شرح حاصل ہوئی تھی وہ آج تک حاصل نہیں ہو پائی ہے، یہ شرح کوویڈ سے پہلے اور بعد میں بھی حاصل نہیں کی جاسکی۔ اس سطح پر نوٹ بندی سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے، ملک کے وزیر خزانہ اور بی جے پی کے بہت سے رہنما بلند بانگ دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ ملک کی معیشت پانچ کھرب ڈالر کو پہنچنے والی ہے، لیکن اب تک ملک کی معیشت صرف تین اعشاریہ پانچ کھرب ڈالر تک ہی پہنچ پائی ہے، محض نوٹ بندی سے لاکھوں کروڑ روپے کی جی ڈی پی مار کھائی، کئی غیر منظم شعبے مستقل طور پر بند ہوگئے، صنعتوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا یا پھر وہ مستقل طور پر بند ہی ہوگئیں، اتنی بھاری تباہی کے بعد ہم نے کیا حاصل کیا؟ کچھ بھی تو نہیں، نہ کالا دھن ہاتھ لگا اور نہ ہی کالے دھندے کرنے والے۔ حکومت کے کالا دھن پکڑنے کے سارے دعوے کھوکھلے اور غلط ثابت ہوئے، پھر دو ہزار روپے کے نوٹ بازار میں متعارف کروائے گئے، ان نوٹوں کو متعارف کرواکر حکومت نے کالا دھندا کرنے والوں کو پکڑنے کے دعوے کے برعکس کام کیا، دراصل یہ نوٹ تو کالا دھن رکھنے والوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے لائے گئے تھے، یہ بات اتنے وثوق کے ساتھ اس لیے کہی جاسکتی ہے کیوں کہ جب پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹوں پر پابندی عائد کی جا رہی تھی اس وقت مودی نے کہا تھا کہ کالا دھن رکھنے والے لوگ اپنا دھن انہی بڑے نوٹوں کی شکل میں رکھے ہوئے ہیں، اب جو اس سے بڑی نوٹ جاری کی گئی تو اس کا کیا مطلب اخذ کیا جانا چاہیے؟ ایک معمولی ذہانت والا بھی اس بات کو سمجھنے میں دشواری محسوس نہیں کرے گا کہ کالا دھن رکھنے والوں کے لیے دو ہزار کے نوٹ مزید سہولتیں بہم پہنچائیں گے۔
سوال کیا گیا کہ دو ہزار روپے کے نوٹوں کو بازار میں کیوں متعارف کروایا گیا ہے؟ تو جواب دیا گیا کہ ’’ریمونیٹائزیشن‘‘ کے لیے کیا گیا ہے، یعنی ’’ڈیمونیٹائزیشن‘‘ کے برعکس عمل، کیوں ڈیمونیٹائزیشن کی وجہ سے بازار سے نوے فیصد نقدی ختم ہو گئی ہے اور اس کی بھر پائی چھوٹے نوٹوں کے ذریعے کرنے میں کافی وقت لگتا ہے اس لیے یہ سوچ کر کہ بڑے نوٹوں سے اس کی بھر پائی جلد ہو سکتی ہے، یہ نوٹ متعارف کروایا گیا ہے۔
درحقیقت اتنے بڑے نوٹ چھاپنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، یہ نوٹ کسی عام آدمی کے کام آ ہی نہیں سکتے تھے، یہ تو صرف دولت مند افراد کے کام ہی آ سکتے تھے اور آئے بھی، چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اس کا استعمال یا تو دولت مند افراد نے یا پھر سیاست دانوں نے کیا، اس نوٹ کے ذریعے دولت مندوں نے اپنا کالا دھن آسانی سے چھپا لیا اور سیاست دانوں نے انتخابات میں اس کا خوب استعمال کیا۔ ایک عام آدمی کے لیے جتنی چھوٹی نوٹ ہوگی اتنا ہی اس کو فائدہ ہوگا، کیوں کہ وہ چھپانے کے لیے نہیں بلکہ خرچ کرنے کے لیے نقدی رکھتا ہے۔ عام فہم بات ہے کہ بڑے نوٹ چھپانے والے کے لیے زیادہ کار آمد ہوسکتے ہیں نہ کہ ایک عام آدمی کے لیے؟ روز اول سے ہی عام آدمی نے ان دو ہزار روپے کے نوٹوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے، اس وقت بھی یہ نوٹ اس کے کوئی کام نہ آئے اور آج بھی اس کے کسی کام کے نہیں ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جہاں کہیں چھاپے مارے گئے وہاں سے صرف دو ہزار روپے کے نوٹ ہی برآمد ہوئے، چاہیے وہ کسی زمینوں کے کاروبار کرنے والے کے پاس ہوں یا کسی انتخابی حلقے میں ہوں، الیکشن کمیشن نے جہاں بھی چھاپے مارے ہیں وہاں سے صرف دو ہزار روپے کے نوٹ ہی برآمد ہوئے ہیں۔
حکومت نے اس کی گردش اب تک کیوں برقرار رکھی اس کا بھی کوئی جواز نہیں ہے، جب بازار میں نقدی بحال ہوگئی تھی تب اس کو ختم کردیا جانا چاہیے تھا، جب نوٹ بندی کی گئی تھی اس وقت بازار میں نقدی 17 لاکھ کروڑ روپے تھی، لیکن آج یہ نقدی 34.6 لاکھ کروڑ تک پہنچ گئی ہے، اتنی بھاری مقدار میں نقدی کیسے پہنچی اس کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ پانچ سال تک اس کو کالا دھن کے مالکین کی الماریوں زینت بنا کر رکھا گیا لیکن شاید اب انہیں اس کی ضرورت باقی نہیں رہی اس لیے پھر اس کو بازار سے ہٹایا جا رہا ہے۔
اب اس کو ختم کرنے کا کیا مقصد ہے؟ مقصد واضح نہیں ہے، پھر وہی پرانا راگ آلاپا جا رہا ہے تاکہ بازار سے کالا دھن ختم ہو۔ کے وی سبرامنیم جو آئی ایم ایف میں ہندوستان کے نمائندہ ڈائریکٹر ہیں، انہوں نے ایک تعجب خیز بیان دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے دو ہزار روپے کے نوٹ اس لیے متعارف کرائے تھے تاکہ اس کے ذریعے سے کالا دھن رکھنے والوں کو جال میں پھانس کر انہیں دبوچا جائے، اسی لیے اس کو اب تک جاری رکھا گیا، اور اب اس کو ختم بھی اسی لیے کیا جا رہا ہے تاکہ کالا دھن رکھنے والوں کی ریڑھ کی ہڈی توڑی جا سکے۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکومت کا موقف ان سے بالکل مختلف ہے۔ بالفرض حکومت کے موقف کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو کالا دھن رکھنے والے جب بینکوں میں رقم جمع کریں گے تو انہیں اس رقم کی ساری تفصیلات دینی چاہیے، لیکن حکومت اور آر بی آئی کہہ رہی ہے کہ ہم اس رقم سے متعلق کوئی سوال نہیں کریں گے کہ وہ کہاں سے آئی ہے اور کیوں جمع کرائی جا رہی ہے۔ جب ہر کوئی روزانہ کی اساس پر 25 ہزار روپے کے نوٹ تبدیل کر سکتا ہے، پھر کیسے کالا دھن پکڑا جائے گا؟ حکومت کہہ رہی ہے کہ عام آدمی کو نوٹ تبدیلی میں کوئی تکلیف نہ ہو اس لیے کوئی شرط نہیں رکھی گئی ہے، لیکن عام آدمی کے پاس دو ہزار کے نوٹ ہیں کہاں جو وہ تبدیل کروائے؟ حکومت کے ان حرکتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بڑے نوٹوں کی تبدیلی کالا دھن رکھنے والوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہی کی جا رہی ہے۔
8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم مودی کے احمقانہ فیصلہ اور جملہ بازی نے ملکی معیشت پر زبردست ضرب لگائی تھی، لیکن اس بار مودی نے ٹیلی ویژن پر آکر نوٹ بندی کا اعلان نہیں کیا بلکہ یہ ذمہ داری آر بی آئی کے گورنر کو دے دی۔ مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ دو ہزار روپے کا کرنسی نوٹ فی الحال قانونی ہی رہے گا۔ پھر بڑی بے شرمی سے سنگھی وزرا اور اندھ بھکتوں نے اسے پہلے کی طرح بدعنوانی کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک قرار دے دیا ہے اور اسے نوٹ بندی کے بجائے نوٹ واپسی کہہ رہے ہیں۔ دو ہزار روپے کے نوٹ مالکین کو آر بی آئے نی 30 ستمبر تک بینک میں جمع کرنے کا موقع دیا ہے۔ اس مرتبہ ایک بار میں دو ہزار کے دس ہی نوٹ جمع کرائے جاسکتے ہیں۔ 8 نومبر 2016 کا دن باشندگان ملک کے لیے بڑا ہی پر آشوب دن تھا۔ ڈیڑھ سو تا دو سو لوگ پیسہ اٹھانے کے لیے لائین میں کھڑے ہوکر اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ اس وقت لوگوں کو محض ڈھائی ہزار روپے ہی نکالنے کی اجازت تھی۔ پیسے کا بر وقت انتظام نہ کر پانے کی وجہ سے بہت ساری شادیاں معطل ہوگئیں۔ غریب بچیوں کے والدین نے جہیز دینے کے لیے جو پونجی جمع کر رکھی تھی وہ زیادہ تر پانچ سو اور ہزار والے نوٹوں پر ہی مشتمل تھی۔ ان غریبوں کے لیے یہ اچانک فیصلہ عذاب جاں ثابت ہوا تھا ۔ اسی طرح چھوٹے دکانداروں و تاجروں کی تو کمر ہی ٹوٹ گئی۔ کروڑوں کے روزگار ختم ہو گئے۔ اس ظالمانہ اور بے تکے فیصلہ کی وجہ سے کتنے گھر تباہ ہوگئے، اس کا آج تک اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ مودی کے اس ’ماسٹر اسٹروک‘ کے وقت 90 فیصد، ہزار اور پانچ سو روپے کے نوٹ تھے وہ سب کے سب بازار سے غائب ہوگئے۔ معیشت عملاً بیٹھ گئی۔ باشندگان ملک کی قربانیوں کے باوجود نہ سیاہ دھن پر روک لگی نہ دہشت گردی پر قابو پایا جاسکا، نہ ڈرگ ٹریفکنگ ختم ہوئی اور نہ ہی جعلی نوٹوں کی گردش پر لگام لگی، بلکہ جعلی نوٹوں کا چلن مزید بڑھ گیا۔ ادھر مودی کے گجرات میں دو ہزار کے لاکھوں جعلی نوٹ ملے جہاں سے یہ جعلی نوٹ ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ایسے ہی جعلی نوٹوں کے ذریعے ہزاروں کروڑ روپے کا ڈرگ گجرات کے مدرا اپورٹ سے ملک میں پھیلا یا گیا۔ 2016 میں مودی جی نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ نوٹ بندی سے جمع خوری اور سیاہ دھن پر روک لگے گی، دہشت گردی کی کمر ٹوٹ جائے گی بدعنوانی کا خاتمہ ہو گا، ڈرگ ٹریفکنگ اور جعلی نوٹوں پر بریک لگے گا مگر سات سال گزر جانے کے بعد بھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایک ہزار کے بجائے دو ہزار کے نوٹ جاری کر کے کالا دھن جمع کرنے والوں کے لیے مزید آسانیاں پیدا کر دی گئیں۔ بڑے کرنسی والے نوٹ بندی سے سیاہ دھن پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا جب تک تمام غیر قانونی کاموں کا خاتمہ نہ کردیا جائے۔ دراصل غیر قانونی کام ہی سیاہ دھن پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں آن لائن لین دین کے باوجود نوٹوں کی گردش بڑھتی جا رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے آخر تک محض دس فیصد ہی دو ہزار کے نوٹ استعمال میں تھے اور نوٹ بندی کے وقت دگنی نقدی معیشت میں موجود ہے اور معیشت میں وسعت کے ساتھ نقدی کی مقدار بھی بڑھی ہے۔ ویسے پہلے سے ہی دو ہزار کے نوٹوں کے بارے میں اندیشہ تھا کہ حکومت انہیں کسی بھی وقت بند کر سکتی ہے، اس لیے کہ حکومت نے اسے 2018 کے بعد سے انہیں ہی چھاپنا بند کر دیا تھا۔ اب لوگوں میں کرنسی نوٹوں کے تعلق سے کئی طرح کے اندیشے پیدا ہو رہے ہیں۔ اسی لیے اب عام لوگ نوٹ رکھنے کے بجائے سونا، چاندی خرید رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نقد نوٹ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بڑے نوٹ رکھنے والی چھوٹی صنعتوں کو اور اپنی بچت کو ان نوٹوں کی شکل میں رکھنے میں کچھ پریشانی ہوگی ہی۔ دراصل یہ دو ہزار روپے کے نوٹ ان کاروباریوں کے پاس ہیں جو ٹیکس ادا کیے بغیر کروڑوں کمانے کی حرص رکھتے ہیں یا ان افسروں کے پاس ہیں جو رشوت کے بھوکے ہیں، اسی طرح یہ ان سیاسی پارٹیوں کے پاس بھی ہیں جو صنعت کاروں اور کاروباریوں سے بے حساب چندہ لیتے ہیں۔ یہ چندہ نہیں رشوت ہے۔
اگرچہ آر بی آئی نے کہا ہے دو ہزار روپے کے نوٹ 30 ستمبر تک کسی بھی بینک میں کسی دستاویز کے بغیر بیس ہزار تک جمع کروائے جاسکتے ہیں اور مرکزی بینک نے مزید اعلان کیا ہے کہ ستمبر تک یہ نوٹ بازار میں گردش میں رہیں گے اور انہیں سامان خریدنے یا خدمات کے حصول میں خرچ کیا جاسکتا ہے، مگر دکاندار انہیں لینے میں ہچکچارہے ہیں اس لیے لوگ نوٹ تبدیل کرنے کے لیے بینکوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 30 ستمبر کے بعد کیاہوگا؟ توقع ہے کہ آر بی آئی بعد میں کوئی نئی گائیڈ لائین جاری کرے گا۔ آر بی آئی کو احساس ہے کہ اس نوٹ واپسی سے عام لوگوں کو نقدی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ دو ہزار روپے کے نوٹ محض چند لوگوں کے ہی تصرف میں ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کرنسی نوٹوں کی اس طرح کی واپسی سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور ایسے اقدام سے ترقی کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ کا امکان رہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دو ہزار روپے کے نوٹوں کو گردش میں رکھنا ایک مسئلہ بن رہا ہے کیونکہ مرکزی بینک کی جانب سے سخت ہدایت جاری نہ ہونے کی وجہ سے تاجر، کاروباری اور پٹرول پمپ والے اسے لینے سے انکار کر رہے ہیں جس سے لوگوں کی الجھنوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔نوٹ بندی کی خاص وجہ جعلی نوٹوں کو ختم کرنا تھا لیکن نوٹ بندی کے بعد دو برسوں میں پکڑے گئے جعلی نوٹوں میں 56 فیصد حصہ دو ہزار روپے کے نوٹوں کا تھا۔ 31 مارچ 2023 تک دو ہزار روپے کے 181 کروڑ نوٹ سرکولیشن میں تھے جن کی کل قیمت 3.62 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ گزشتہ چار سالوں میں دو ہزار روپے کے 102 کروڑ برباد کر دیے گئے۔ 2016 میں یہ کل کرنسی ویلیو کا 50 فیصد تھا جو 8.13 فیصد باقی رہ گیا۔
دلی ہائی کورٹ میں دائر کردہ مفاد عامہ کی ایک درخواست میں وکیل رجنیش بھاسکر گپتا نے کہا ہے کہ آر بی آئی کے پاس ایسا فیصلہ لینے کے لیے اس کے پاس کوئی انڈیپنڈنٹ پاور نہیں ہے۔ محض پانچ یا چھ سالوں کے سرکولیشن کے بعد بینک کا نوٹ واپس لینے کا فیصلہ ظالمانہ اور من مانی ہے اور کلین نوٹ پالیسی میں آر بی آئی جعلی اور خراب نوٹوں کو برباد کرتی ہے مگر دو ہزار کے نوٹوں کے معاملے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے مختلف سوشل میڈیا، اخبارات اور معاشی ماہرین جیسی آراء کا اظہار کر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو ہزار کے نوٹ سیاہ دھن بڑھانے کا کام ہی کر رہے تھے اسی لیے انہیں بند کیا جا رہا ہے۔نوٹ واپسی کے لیے بیس ہزار کی حد مقرر کی گئی ہے تاکہ بازار میں رقیقیت (Liquidity) برقرار رہے۔ فی الحال بھارتی معیشت کی کل قیمت 350 لاکھ کروڑ روپے یا 3.5 ٹریلین ڈالر ہے، اگر دو ہزار روپے کے تین لاکھ کروڑ روپے گردش میں نہیں ہوں گے جو مجموعی معیشت کا محض ایک فیصد ہے تو اس کا ملکی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔

 

***

 دو ہزار روپے کے نوٹ ان کاروباریوں کے پاس ہیں جو ٹیکس ادا کیے بغیر کروڑوں کمانے کی حرص رکھتے ہیں یا ان افسروں کے پاس ہیں جو رشوت کے بھوکے ہیں اسی طرح یہ ان سیاسی پارٹیوں کے پاس ہیں جو صنعت کاروں اور کاروباریوں سے بے حساب چندہ لیتے ہیں۔ یہ چندہ نہیں رشوت ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 جون تا 17 جون 2023