عمارتوں کی مسماری صرف قانونی طریقۂ کار کے مطابق ہونی چاہیے: سپریم کورٹ

نئی دہلی، جون 16: بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے جمعرات کو زبانی طور پر مشاہدہ کیا کہ اتر پردیش کے شہری حکام کو مبینہ غیر قانونی ڈھانچوں کو منہدم کرتے وقت قانونی طریقہ کار پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔

جسٹس اے ایس بوپنا اور وکرم ناتھ پر مشتمل بنچ نے اسلامی تنظیم جمعیۃ علمائے ہند کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ تنظیم نے اتر پردیش حکومت کے لیے عدالت سے ہدایت مانگی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ریاست میں کوئی غیر قانونی انہدام نہ ہو۔

گزشتہ ہفتے سے اتر پردیش میں شہری انتظامیہ ان لوگوں کے گھروں کو مسمار کر رہی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ترجمانوں کے توہین آمیز تبصروں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

اس میں پریاگ راج میں کارکن جاوید محمد کا گھر بھی شامل تھا۔ انھیں پیغمبر اسلام کے بارے میں تبصروں کی مخالفت کے لیے شہر میں پرتشدد مظاہرے کرنے کی سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے دعویٰ کیا کہ اس نے محمد کو ان کی غیر قانونی تعمیر کے بارے میں 10 مئی کو نوٹس دیا تھا۔ تاہم محمد کے اہل خانہ نے کسی قسم کا بھی نوٹس ملنے سے انکار کیا۔

اگرچہ ہندوستانی قانون کے تحت کسی بھی ملزم کے گھر کو منہدم کرنے کی کوئی دفعات نہیں ہیں، تاہم یہ نمونہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں باقاعدگی سے دیکھا گیا ہے۔

عدالت نے جمعرات کو کہا کہ جن ملزمین کو اپنی جائیدادوں کے انہدام کا خدشہ ہے وہ معاشرے کا حصہ ہیں اور انھیں اپنی شکایات کا ازالہ کرنے کا حق ہے۔ عدالت نے کہا ’’جواب دہندگان [اتر پردیش حکومت] کو اپنے اعتراضات کے لیے وقت ملے گا۔ ہمیں اس دوران ان کی [ملزمان کی] حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔‘‘

لائیو لاء کے مطابق اتر پردیش حکومت نے اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماے ہند کا کوئی موقف نہیں ہے۔ ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے ہریش سالوے نے کہا کہ پریاگ راج میں شہری حکام نے شہر میں تشدد سے بہت پہلے مئی میں محمد کو نوٹس دیا تھا۔

سالوے نے جمعرات کو اتر پردیش حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے حلف نامہ داخل کرنے کے لیے تین دن کا وقت مانگا ہے۔ جسٹس بوپنا نے کہا کہ عدالت کا فرض ہے کہ اس دوران فریق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ جج نے کہا ’’اگر یہ عدالت بچانے کے لیے آگے نہیں آتی ہے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ یہ منصفانہ نظر آنا چاہیے۔‘‘

عدالت کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے کرے گی۔