تشدد میں ملوث افراد کے پوسٹر لگانا غیر قانونی ہے، جھارکھنڈ کے ہوم سکریٹری نے رانچی کے ایس ایس پی سے وضاحت طلب کی

رانچی، جون 16: جھارکھنڈ حکومت نے بدھ کو پولیس سے کہا کہ وہ رانچی میں پرتشدد مظاہروں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے پوسٹر جاری کرنے کے اپنے ’’غیر قانونی‘‘ عمل کی وضاحت کرے۔

10 جون کو رانچی میں پیغمبر اسلام کے بارے میں بی جے پی کے ترجمان کے گستاخانہ تبصرے کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ سے دو مظاہرین کی موت ہو گئی تھی اور 13 سے زیادہ زخمی ہو ئے۔

پولس نے منگل کو راج بھون کے قریب 33 ملزمان کے پوسٹر لگائے تھے اور شہر کے مکینوں سے ان کے بارے میں معلومات مانگی تھیں۔

تاہم ’’تکنیکی خامیوں‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے جلد ہی ان پوسٹرز کو ہٹا دیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے مطابق پولیس نے کہا تھا کہ غلطیوں کو درست کیا جائے گا اور پوسٹرز دوبارہ جاری کیے جائیں گے۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق پولیس کا یہ اقدام جھارکھنڈ کے گورنر رمیش بیس کے ذریعے 10 جون کو تشدد کے سلسلے میں پولیس کے ڈائریکٹر جنرل نیرج سنہا اور دیگر اعلیٰ حکام کو راج بھون میں طلب کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔

اخبار کے مطابق گورنر نے ان سے کہا تھا کہ وہ تمام مظاہرین کے نام اور پتے عام کریں اور ان کی تصاویر نمایاں جگہوں پر ہورڈنگز پر آویزاں کریں۔

تاہم جھارکھنڈ کے ہوم سکریٹری راجیو ارون ایکا نے بدھ کو کہا کہ پولیس کی کارروائی الہ آباد ہائی کورٹ کے مارچ 2020 کے حکم کے خلاف تھی۔

عدالت نے اتر پردیش حکومت سے کہا تھا کہ وہ لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاج کے دوران تشدد میں ملوث ہونے والوں کے نام، تصاویر اور پتے والے پوسٹر ہٹائے۔

ایکا نے رانچی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سریندر جھا کو لکھے ایک خط میں کہا ’’معزز عدالت نے ریاست اتر پردیش کو ہدایت دی تھی کہ سڑک کے کنارے قانونی اختیار کے بغیر لوگوں کی ذاتی معلومات پر مشتمل پوسٹر نہ لگائیں۔ یہ معاملہ لوگوں کی پرائیویسی میں بے جا مداخلت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

انھوں نے جھا کو دو دن کے اندر جواب دینے کی ہدایت دی۔