دہلی فسادات: پولیس بیانیہ کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، جیل میں بند کارکن نے عدالت میں کہا
نئی دہلی، فروری 7: جیل میں بند کارکن خالد سیفی نے بدھ کے روز دہلی کی ایک عدالت کو بتایا کہ پولیس قومی راجدھانی میں 2020 کے فسادات کی داستان کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سیفی کی وکیل ریبیکا جان نے کارکن کی ضمانت کی سماعت کے دوران ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کے سامنے یہ عرضی پیش کی۔ راوت نے درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
سیفی پر دہلی فسادات کے سلسلے میں سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، اسلحہ ایکٹ، عوامی املاک کو نقصان کی روک تھام کے قانون اور تعزیرات ہند کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
شمال مشرقی دہلی میں 23 فروری سے 26 فروری 2020 کے درمیان ہوئے فسادات میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا۔ پولی نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی ان لوگوں نے کی تھی جنھوں نے دہلی بھر میں کئی مقامات پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔
بدھ کے روز سماعت کے دوران سیفی کی وکیل ریبیکا جان نے عدالت کو بتایا کہ دہلی پولیس کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد ’’اندازوں اور قیاس آرائیوں‘‘ پر مبنی ہیں اور ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔
انھوں نے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج فرقہ وارانہ تھا۔
انھوں نے کہا ’’استغاثہ نے اس کیس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ ایک کمیونٹی اس بل (شہریت ترمیمی قانون) سے متاثر ہوئی۔ احتجاج کرنا ان کا حق تھا۔‘‘
جان نے مزید کہا کہ سیفی کے خلاف ان الزامات میں کوئی وزن نہیں ہے کہ وہ جنتر منتر کے احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوئے تھے۔
انھوں نے کہا ’’جنتر منتر ایک احتجاجی مقام ہے جسے عوام کے لیے کھولا گیا ہے، اس کے بارے میں کچھ بھی خفیہ نہیں ہے۔ طویل عرصے سے لوگ اپنی شکایات کا اظہار کرنے وہاں جاتے رہے ہیں۔‘‘
جان نے مزید کہا کہ سیفی کے کارکن عمر خالد سے ملاقات کا بھی کوئی ثبوت نہیں، جو اس کیس کے ایک اور ملزم ہیں، جیسا کہ استغاثہ نے نشان دہی کی ہے۔