دہلی فسادات: ہائی کورٹ نے عمر خالد کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ رکھا
نئی دہلی، ستمبر 10: بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق دہلی ہائی کورٹ نے 2020 کے دہلی فسادات کیس میں کارکن عمر خالد کی طرف سے دائر ضمانت کی درخواست پر جمعہ کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
پولیس نے خالد پر فروری 2020 میں قومی دارالحکومت میں فسادات کو ہوا دینے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا ہے۔ شہر کی کرکرڈوما عدالت کی طرف سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد خالد نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
خالد کو 13 ستمبر 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا اور تب سے وہ زیر حراست ہے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل تردیپ پیس نے جمعہ کو استغاثہ کی اس دلیل کا جواب دیا کہ خالد اور شریک ملزم شرجیل امام کی طرف سے کی گئی تقریروں میں مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کا مشترکہ عنصر تھا۔
استغاثہ نے دلیل دی تھی کہ خالد اور امام دونوں نے شہریت ترمیمی قامنون، تین طلاق قانون اور دفعہ 370 کی منسوخی جیسے مشترکہ موضوعات پر بات کی تھی۔ پیس نے پوچھا کہ کیا ان اقدامات کی مخالفت کو غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔
وکیل نے یہ بھی کہا کہ خالد سے کوئی ریکوری نہیں ہوئی اور وہ تشدد کے مقامات پر بھی موجود نہیں تھا۔
پیس نے کہا ’’مجھ (میرے مؤکل) سے منسوب واحد واضح فعل [مہاراشٹر کے امراوتی شہر میں] تقریر ہے۔ اور صرف ایک لائن ’’سڑکو پر اتر آئے‘‘ یہ بہت سے لوگوں نے سنا تھا، یہ ایک عوامی تقریب تھی۔ یہ کبھی بھی تشدد کا باعث نہیں بنی۔‘‘
یکم اگست کو خصوصی پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے پولیس کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ عمر خالد، شرجیل امام اور خالد سیفی جیسے دیگر کارکنان کی تقریریں ایک دوسرے سے منسلک تھیں اور مبینہ سازش کا حصہ تھیں۔
انھوں نے الزام لگایا تھا کہ خالد کی جانب سے فروری 2020 میں امراوتی میں کی گئی تقریر ’’ایک سوچا سمجھا اقدام‘‘ تھا کیوں کہ اس میں شہریت ترمیمی قانون اور شہریوں کے قومی رجسٹر کے علاوہ خاص طور پر مسلم کمیونٹی سے متعلق معاملات کو اٹھایا گیا تھا۔
23 فروری سے 26 فروری 2020 کے درمیان شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر مسلمان تھے۔