دہلی فسادات: عدالت نے انکوائری میں ’’لاپروائی کی روش‘‘ کے لیے پولیس افسر کی تنخواہ سے 5 ہزار روپے کاٹنے کا حکم دیا
نئی دہلی، ستمبر 29: دہلی کی ایک عدالت نے سٹی پولیس کمشنر سے کہا ہے کہ وہ تفتیش کرے اور اس کے سامنے پیش نہ ہونے اور بار بار کے احکامات کے باوجود فروری 2020 کے دہلی فسادات سے متعلق کیس میں التوا کی درخواست کرنے والے افسر کی تنخواہ میں سے 5 ہزار روپے کاٹے۔
شمال مشرقی دہلی میں 23 فروری اور 26 فروری 2020 کے درمیان ہوئے مسلم مخالف فسادات میں کم از کم 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو ئے تھے۔
ان مقدمات میں نامزد افراد کو ضمانت دینے کے متعدد عدالتی احکامات میں دہلی پولیس کی تحقیقات پر تنقید کی گئی ہے۔
اپنے 25 ستمبر کے حکم میں چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ارون کمار گرگ نے مشاہدہ کیا کہ ’’خصوصی پبلک پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسران مقررہ تاریخوں پر سماعت کے لیے پیش نہیں ہوتے اور جب وہ ’’سینئر افسران کی پیشکش‘‘ کے بعد آتے ہیں تو فائلوں کا معائنہ کیے بغیر آتے ہیں۔‘‘ جج نے مزید کہا کہ اس کے بعد حکام ’’انتہائی آرام دہ انداز میں‘‘ کیس میں التوا چاہتے ہیں۔
گرگ نے یہ جرمانہ اس وقت لگایا جب پولیس پچھلے حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہی، جس میں اس نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایک ملزم کومل مشرا کو ’’ای-چالان‘‘ کی کاپی فراہم کرے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ مشرا کو یہ دستاویز نہیں دی گئی کیوں کہ وہ 12 اپریل کے حکم سے واقف نہیں تھا اور اس نے اس کیس میں التوا کی درخواست کی۔
جج نے کہا ’’پولیس کے ساتھ ساتھ ایس پی پیز [اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرز] کے مذکورہ بالا طرز عمل کو پہلے ہی سینئر پولیس افسران بشمول ایس ایچ اوز [اسٹیشن ہاؤس افسران]، اے سی پیز [اسسٹنٹ کمشنر پولیس]، ڈی سی پی [ڈپٹی کمشنر آف پولیس] اور پولیس کمشنر، دہلی کے نوٹس میں لایا جا چکا ہے، تاہم وہ اس بات کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات اب نہ ہوں۔‘‘
عدالت نے جرمانہ عائد کرنے کے بعد کیس میں التوا کی درخواست منظور کرلی۔ یہ رقم متعلقہ افسر کی تنخواہ سے کاٹ کر وزیراعظم کے قومی ریلیف فنڈ میں جمع کرائی جائے گی۔
جج نے کہا ’’یہ عدالت اس حقیقت سے غافل نہیں ہے کہ اس لاگت کا بوجھ سرکاری خزانے پر پڑے گا اور اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ کمشنر آف پولیس، دہلی کو انکوائری کرانے اور مذکورہ اخراجات کی اطلاع کے ذمہ دار افسر کی تنخواہ سے کٹوتی کا حکم دیا جائے۔ اور اس عدالت میں چار ہفتوں کے اندر رپورٹ دی جائے۔‘‘
اس سے قبل 17 ستمبر کو گرگ نے فرقہ وارانہ تشدد سے متعلقہ معاملات کو سنبھالنے میں پولیس کے ’’جانبدارانہ نقطہ نظر‘‘ کی وجہ سے پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
گرگ نے یہاں تک خبردار کیا تھا کہ اگر پولیس مقدمات کی موثر کاروائی کو یقینی نہیں بناتی ہے تو انھیں منفی احکامات دینے پڑیں گے، بشمول ذمہ دار افسران کی تنخواہوں سے کٹوتی کے۔
حالیہ مہینوں میں ، دہلی کی کئی عدالتوں نے پولیس کی 2020 کے تشدد سے متعلق مقدمات کو سنبھالنے پر سرزنش کی ہے۔
منگل کے روز ایک عدالت نے جون میں درج کیس میں کوئی پیش رفت نہ کرنے پر پولیس کو کھینچا اور مشاہدہ کیا کہ یہ ’’واقعی ایک افسوس ناک صورت حال‘‘ ہے۔
3 ستمبر کو ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا کہ پولیس فسادات کے معاملات میں منصفانہ تحقیقات کرنے اور متاثرین کو انصاف ملنے کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔
مزید یہ کہ کم از کم تین مقدمات میں عدالتوں نے ایف آئی آر درج کرنے میں بے ضابطگیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دی اسکرول ڈاٹ اِن کی خبر کے مطابق کچھ مواقع پر پولیس نے ایک ہی واقعہ کے لیے ایک ہی تھانے میں متعدد مقدمات درج کیے ہیں، جب کہ دوسرے معاملات میں اس نے ایک ہی ایف آئی آر میں متعدد شکایات کو جمع کر دیا ہے۔