دہلی فسادات: اگر ’’سلام‘‘ کرنا غیر قانونی ہے تو مجھے یہ بند کرنا پڑے گا، خالد سیفی نے استغاثہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت میں تیکھا تبصرہ کیا

نئی دہلی، ستمبر 11: لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق کارکن خالد سیفی نے جمعہ کو دہلی کی ایک عدالت کے سامنے کہا کہ وہ ’’سلام‘‘ کہنا بند کردیں گے اگر یہ غیر قانونی ہو جائے۔

سیفی۔ جو فروری 2020 دہلی تشدد سے متعلق ایک مقدمے میں گرفتار ہیں، خصوصی پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد کی طرف سے ایک دلیل کا حوالہ دے رہے تھے، جو کارکن شرجیل امام کی ضمانت کی درخواست کے جواب میں تھا، جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج سے متعلق ایک الگ کیس میں جیل میں بند ہے۔

2 ستمبر کو پرساد نے دعویٰ کیا تھا کہ امام نے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک تقریب میں اپنی تقریر کا آغاز روایتی مسلم سلام ’’السلام علیکم‘‘ کے ساتھ شہریت کے قانون کے خلاف کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ان کا خطاب ایک خاص کمیونٹی سے تھا۔‘‘

یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ نامی سول سوسائٹی تنظیم کے بانی سیفی نے اسی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذکورہ بات کہی، جب انھیں ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کے سامنے پیش کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ میں ہمیشہ اپنے دوستوں کو سلام کرتا ہوں ’’مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ غیر قانونی ہے تو مجھے اسے بند کرنا پڑے گا۔‘‘

تاہم بار اینڈ بنچ کے مطابق جج نے نوٹ کیا کہ یہ تبصرہ استغاثہ کی جانب سے کیا گیا تھا، نہ کہ عدالت کی جانب سے۔

سیفی نے مزید کہا کہ جب بھی انھیں ضمانت ملے گی، وہ دہلی پولیس کے خلاف فروری 2020 کے تشدد سے متعلق چارج شیٹ میں کاغذ کے 20 لاکھ ٹکڑے ضائع کرنے کے خلاف نیشنل گرین ٹریبونل میں مقدمہ دائر کریں گے۔

گزشتہ سال 23 فروری اور 26 فروری کے درمیان ہونے والے دہلی فسادات میں 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔

پولیس کی طرف سیفی، عمر خالد، نتاشا نروال، دیونگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا کے خلاف تشدد کے سلسلے میں سخت غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ کے تحت الزامات عائد کیے گئے۔ ان پر اسلحہ ایکٹ، پبلک پراپرٹی کو نقصان کی روک تھام ایکٹ اور تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت بھی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

دہلی فسادات سے متعلق متعدد الزامات میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ یہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ اس کی منصوبہ بندی ان لوگوں نے کی تھی جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی بھر میں کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے۔

7 ستمبر کو دہلی کی ایک عدالت نے تشدد سے متعلق مقدمات کی تفتیش میں پولیس کے ’’غیر سنجیدہ رویے‘‘ پر ناراضگی ظاہر کی تھی۔

فسادات سے متعلق مقدمات کی تحقیقات میں خامیوں کی وجہ سے دہلی پولیس کو عدالتوں نے کئی بار تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

3 ستمبر کو ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا تھا کہ پولیس فسادات کے معاملات میں منصفانہ تحقیقات کرنے اور متاثرین کو انصاف ملنے کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔

جج نے مزید کہا ’’میں اپنے آپ کو اس مشاہدے سے روکنے کے قابل نہیں ہوں کہ جب تاریخ دہلی میں تقسیم کے بعد بدترین فرقہ وارانہ فسادات پر نظر ڈالے گی، اور پائے گی کہ یہ تحقیقاتی ایجنسی کی ناکامی ہے جو جدید ترین سائنسی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے بھی مناسب تفتیش نہیں کر سکی، تو یقیناً جمہوریت کو اذیت پہنچے گی۔‘‘