دلی ایم سی ڈی الیکشن سے عین قبل جے این یو سرخیوں میں کیوں ؟
ملک میں طاقتور برہمنوں کو مظلوم ثابت کرنے میں کس کا فائدہ؟۔ہزاروں سال سے دلتوں پر ظلم وستم پھر بھی برہمن اور بنیاٹھہرے بےچارے…!
(دعوت نیوز ڈیسک)
ملک میں برہمنوں اور اعلیٰ ذاتوں کو مظلوم قرار دیےجانے کی کوشش جاری ہے۔پہلے صرف’ ہندو خطرے میں’ تھا اب’ برہمن خطرے میں ہے’ کےنعرے لگائے جا رہے ہیں۔جب سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی دیواروں پر برہمنوں کے خلاف ’بنیے‘ ہم تم سے نمٹنے آرہے ہیں۔ ہم تم سے بدلہ لیں گے۔ برہمنو‘ کیمپس چھوڑو‘ ہندوستان چھوڑدو‘ اب خون خرابہ ہوگا‘ شاکھا واپس چلے جاؤ۔’وغیرہ نعرے لکھے گئے تب سےایک طرف برہمن ہونے پر فخرکیے جانےکاسلسلہ جاری ہے تودوسری طرف برہمنوں کے تئیں ہمدردی کی فضابھی ہموار کی جارہی ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ دیکھا جاتاکہ آخریہ حرکت کس نے کی ہے اور ان جیسی تحریروں کو لکھنے سے فائدہ کس کو پہنچے گا، تمام جانب دار نیوزچینلوں کے رپورٹرس اور اینکرس برہمنوں کاردعمل جاننے میں لگ گئے۔ برہمنوں،سورنوں اور اعلیٰ ذات کے افراد نے بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر بچپن میں سنی ہوئی ایک کہانی یاد آئی کہ ایک شخص کھڑا ہوا اپنا کان کھجارہا تھا کہ اچانک کہیں سے ایک کوا آیا اور اس کے کان میں چونچ ماری اور اڑ گیا۔ وہ شخص یہ کہہ کر چلاتا ہوا کوے کے پیچھے دوڑا کہ کوا میرا کان لے گیا۔۔۔ اس کی چیخ وپکار سن کر کچھ اور لوگ بھی کوے کے پیچھے بھاگنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک جم غفیر کوے کے پیچھے بھاگنے لگا۔ جب کوا ان کی نظروں سے غائب ہوگیا تو سب واپس آئے۔ کچھ دیر بعد ایک آدمی نے اس شخص سے پوچھا کہ بتاو کہ کیا ماجرا ہے۔ اس نے روتے ہوئے کہا کہ صاحب! کوا میرا کان لے گیا ہے۔ اس نے پوچھا کون سا کان، تمہارے تو دونوں کان موجود ہیں؟ تب سارے لوگ کھسیانے ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
ملک کے جانب دار میڈیا نے اس تنازعہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ برہمنوں کو پریشان حال بتانے میں لگ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نجی چینل سے بات کرتے ہوئے بی جےپی کے سینئرلیڈرسبرامنیم سوامی نے کہا کہ ہمیں ہائے توبہ مچانےکے بجائے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے جنہوں نے یہ نعرے لکھے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ برہمن کی کوئی ذات نہیں ہوتی ۔برہمن کابیٹا برہمن نہیں ہوتا بلکہ جس کے اندر برہمنی صفت ہو گی وہی برہمن ہوگا۔ طلبا یونین کے سابق صدر این سائی بالاجی نے این ڈی ٹی وی کے رپورٹرسے بات کرتے ہوئے اسے مضحکہ خیز بتاتے ہوئے کہاکہ یہ ایک سازش کاحصہ ہے۔کیوں کہ بایاں محاذ اور کمیونسٹ، ذات پات کے نظام کے خلاف ہیں وہ اس طرح کی حرکت کر ہی نہیں سکتے ہیں۔این سائی بالاجی نے اس واقعہ کو ایم سی ڈی ایلیکشن سے بھی جوڑ کر دیکھا۔ انہوں ںے کہاکہ جے این یو سے پہلی بار دلت امیدوار ایم سی ڈی کاانتخاب لڑ رہا ہے اور اس وجہ سے اسے کمپنی نے نوکری سے برخاست کرنے کی دھمکی بھی دی تھی، لہذا دائیں بازو اسے انتخابی موضوع بنا کر سیاسی فائدہ حاصل کرناچاہتاہے۔ انہوں نے کہاکہ ان کے اور ان کی تنظیم کے افکار وخیالات کسے سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔جے این یو کی دیواروں پر تحریروں کی بھرمار ہے لیکن اس طرح کی تحریر آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ہاں یہ ضرور ہے کہ’ ہم برہمن وادی اورمنووادی نظام کے خلاف ہیں’ ۔
دوسری طرف دلتوں کی آوازبلند کرنے والے نامورصحافی شمبھوکمار سنگھ کہتے ہیں کہ”وہ لوگ کچھ لکھے جانے پر اتنا تلملا اٹھے۔جبکہ انہوں نے کتابوں میں لکھاہے کہ سیسہ پگھلا کر ان (دلتوں) کے کانوں میں ڈالو۔ ’شمبھوک’ کاقتل کرو۔ ’کرن’ کو تعلیم سے محروم رکھو۔ان کے سارے گرنتھ ذات پات کے نظام سے اٹے ہوئے ہیں”
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں دلتوں پر ظلم وستم کی ایک لمبی داستان ہے۔ ہر دس منٹ میں ایک دلت نشانہ ستم بنتا ہے۔قانونی اعتبار سے ہندوستان کے دستور میں ذات پات کی تفریق پر پابندی ہے مگر ہندو سماج کبھی بھی اس لعنت سے پاک نہیں رہا۔ بھارت میں ذات پات کی بیماری اس طرح سرایت کر گئی ہے کہ جس کے ختم ہونے کی کوئی صورت نظرنہیں آتی۔ صورتحال "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” کے مصداق ہو گئی ہے۔ یہ ناسور ہزاروں سالوں سے انسانی سماج کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ ملک آج بھی چھوت چھات کی بیماری سے آزاد نہیں ہوسکاہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر برہمنوں کے خلاف آواز اٹھا کر کس کو فائدہ ملنے والاہے؟ حال ہی میں وکاس نام کاشخص مسلمان بن کر گھومتا ہوا پکڑا گیا ہے۔ آخر ملک میں کون سازشوں کے جال بن رہا ہے؟
اب اسی سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں برہمنوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔اکثر رپورٹس کے مطابق محض چار فیصد ہے لیکن ملک کے اکثرو بیشتر وسائل پر انہیں کا قبضہ ہے۔ آؤٹ لک کی رپورٹ کے مطابق ملک میں غریب برہمن تیرہ فیصد ہیں جبکہ امیر برہمنوں کی تعداد انیس فیصد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برہمن پڑھے لکھے ہیں کیوں کہ 18 سال سے اوپر کی ان کی شرح خواندگی چوراسی فیصد ہے۔ ان میں انتالیس فیصد گریجویٹ پائے جاتے ہیں۔ برہمن چیف جسٹس 1950 سے 2000 کے درمیان 47 فیصد مقرر ہوئے۔چالیس فیصد 1950-2000 کے درمیان اسوسی ایٹ جسٹس ہوئے لیکن پھر بھی وہ مظلوم کے طور پر پیش کیے جارہے ہیں۔
چھتیس گڑھ کی حکومت نے ریاست میں ذات پات کی مردم شماری کرائی جس میں اعلیٰ ذات کی آبادی صرف تین فیصد پائی گئی۔ چھتیس گڑھ کی حکومت نے اونچی ذات کے غریبوں یعنی EWS کو چار فیصد ریزرویشن دیا۔ اس کے علاوہ اعلیٰ ذاتیں 24 فیصد غیر محفوظ یعنی کھلی نشستوں پر بھی مقابلہ کر سکتی ہیں۔ اسی طرح ہر ریاست میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہو تاکہ لوگوں کو ذات کی بنیاد پر حقوق دیے جائیں ۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے مرکزی حکومت سے ذات پات کی مردم شماری کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں EWS پر بحث ہونی چاہیے۔ دلتوں کی آواز بلند کرنے والے مشہور مصنف اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ دلیپ منڈل نے کہا کہ ”ذات پات کی مردم شماری سے ملک میں ذات پات کے جھگڑے ختم ہوں گے۔ تمام فیصلے حقائق اور ڈیٹا پر مبنی ہوں گے۔ نہ احتجاج ہو گا نہ بسیں جلائی جائیں گی نہ نوجوان پولیس کی فائرنگ سے مریں گے”۔
بحث کا حاصل یہ ہے کہ کسی بھی ذات کو نشانہ ہدف بنانا آئین کے خلاف ہے۔ بھلے ہی ہزاروں سال سے دلتوں نچلی ذاتوں آدی واسیوں اور قبائلیوں پر ظلم ہوتا رہا ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برہمنوں کے خلاف بھی ایک جنگ چھیڑ دی جائے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ منووادی نظام کے خلاف آئینی اور دستوری لڑائی جاری رکھی جائے۔ وہیں جے این یو میں جس نے بھی اس طرح کی حرکت کی ہے اسے قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس قصورواروں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گی؟
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022