دہلی ہائی کورٹ نے راکیش استھانہ کی بطور دہلی پولیس سربراہ تقرری کو چیلنج کرنے والی درخواست پر مرکز کو نوٹس جاری کیا
نئی دہلی، یکم ستمبر: دہلی ہائی کورٹ نے راکیش استھانہ کی دہلی پولیس کے کمشنر کے طور پر تقرری کو چیلنج کرنے والی عرضی پر آج مرکز کو نوٹس جاری کیا۔ عدالت اس معاملے کی دوبارہ سماعت 8 ستمبر کو کرے گی۔
یہ درخواست صدرعالم نامی شخص نے ایڈووکیٹ بی ایس بگا کے ذریعہ دائر کی تھی، جس میں 27 جولائی کو دہلی پولیس کے سربراہ کے طور پر استھانہ کی تعیناتی کے مرکز کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عالم نے مرکزی حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
استھانہ کا مرکزی تفتیشی بیورو کے خصوصی ڈائریکٹر کی حیثیت سے متنازعہ موقف رہ ہے۔ ان کا نام 2018 میں رشوت کے ایک کیس سے متعلق ایک بڑے تنازع میں بھی آیا تھا۔ تاہم فروری 2020 میں انھیں تمام الزامات سے پاک کر دیا گیا۔
31 جولائی کو بارڈر سیکورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہونے سے صرف چار دن پہلے استھانہ کو دہلی پولیس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ ’’عوامی مفاد‘‘ کے تحت استھانہ کی خدمت میں ایک سال کی توسیع کی گئی ہے۔
چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس جیوتی سنگھ پر مشتمل ہائی کورٹ بنچ نے مرکز برائے مفاد عامہ کی جانب سے دائر مداخلت کی درخواست کی بھی اجازت دی۔
غیر سرکاری تنظیم نے ابتدائی طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ 25 اگست کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر دو ہفتوں میں فیصلہ کرے۔
سی پی آئی ایل کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل پرشانت بھوشن نے بدھ کو دعویٰ کیا کہ نئے درخواست گزار عالم نے ان کے موکل کی درخواست کی کاپی کی ہے۔ بھوشن نے الزام لگایا کہ ایسی درخواستیں حکومت کے ساتھ ملی بھگت سے دائر کی گئی ہیں تاکہ حقیقی درخواست گزاروں کو کمزور کیا جا سکے۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق بھوشن نے کہا ’’میری درخواست سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ میں یہاں بحث نہیں کرنا چاہتا۔ اس درخواست کو مثالی اخراجات کے ساتھ خارج کیا جانا چاہیے۔ یہ عدالت کے تمام قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
تاہم عالم کے وکیل نے اس سے انکار کیا۔ اس کے بعد عدالت نے مداخلت کی درخواست منظور کی اور اس معاملے میں نوٹس جاری کیا۔
مرکز برائے مفاد عامہ نے دعویٰ کیا ہے کہ استھانہ کی تقرری پرکاش سنگھ بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ ستمبر 2006 میں سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو اصلاحات متعارف کرانے کی ہدایت دی تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پولیس سیاسی مداخلت کی فکر کیے بغیر اپنا کام کر سکے۔
استھانہ کے پاس اپنی سروس کی مدت میں کم از کم چھ ماہ کا عرصہ باقی نہیں تھا اور ان کی تقرری کے لیے کوئی یونین پبلک سروس کمیشن کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی تھی، جو کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا۔ وہیں استھانہ کو کم از کم دو سال کی خدمت کے لیے بھی مقرر نہیں کیا گیا تھا۔
استھانہ کی تقرری کو عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ 29 جولائی کو دہلی اسمبلی نے ان کی تقرری کی مخالفت میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔