عمر عبداللہ نے مرکز سے جموں و کشمیر میں انتخابات کرانے سے پہلے ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا

نئی دہلی، جون 27: دی ہندو کی خبر کے مطابق نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے ہفتہ کے روز کہا کہ مرکز کو اسمبلی انتخابات سے پہلے جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ لازمی طور پر بحال کرنا چاہیے۔

عبد اللہ نے صحافیوں سے کہا ’’اگر آپ کو الیکشن کروانا ہے تو پہلے ریاست کا درجہ واپس کریں۔ جب بھی اور جہاں بھی ہمیں موقع ملے گا ہم اِس پر دباؤ ڈالتے رہیں گے۔‘‘

عبداللہ نے مزید کہا کہ 24 جون کو مرکزی حکومت سے ملاقات کے دوران کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد نے وزیر اعظم نریندر مودی کو بتایا تھا کہ ’’حد بندی-انتخابات-ریاست‘‘ ٹائم لائن کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

دی نیشنل کانفرنس کے رہنما نے کہا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ مرکز کے سامنے ’’قانونی طور پر، پرامن طور پر اور آئینی طور پر‘‘ رکھا جائے گا۔

تاہم عبد اللہ نے کہا کہ اس بات کی کوئی امید نہیں ہے کہ بی جے پی حکومت اس مطالبے کو پورا کرے گی۔ انھوں نے اخبار کو بتایا ’’بی جے پی کو دفعہ 370 کے اپنے سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے میں 70 سال لگے۔ ہماری جدوجہد ابھی شروع ہوئی ہے۔ ہم لوگوں سے یہ کہہ کر انھیں بیوقوف نہیں بنانا چاہتے کہ ان مذاکرات کے ذریعے دفعہ 370 ہمیں واپس مل جائے گا۔ اس حکومت سے یہ توقع کرنا بیوقوفی ہوگی کہ یہ دفعہ 370 کو بحال کر دے گی۔‘‘

معلوم ہو کہ جمعرات کے روز مودی نے جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ تین گھنٹے طویل ملاقات کی تھی۔ اگست 2019 میں ریاست کی خصوصی حیثیت منسوخ ہونے کے بعد سے مرکز اور سیاسی جماعتوں کے مابین اپنی نوعیت کا یہ پہلا اجلاس تھا۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے اجلاس میں مودی سے کہا کہ جموں وکشمیر کے لوگ، جس انداز سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا ہے، اس پر ناراض اور غمزدہ ہیں۔

عبداللہ نے بھی مودی کو یہ کہا کہ یہ اقدام ناقابل قبول تھا۔ انھوں نے مزید کہا ’’لیکن ہم قانون کو ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ ہم اس کا مقابلہ عدالت میں کریں گے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’ہم نے وزیر اعظم کو یہ بھی بتایا کہ ریاست اور مرکز کے مابین اعتماد کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس کی بحالی کرنا مرکز کا فرض ہے۔‘‘

دریں اثنا اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنماؤں میں سے ایک غلام نبی آزاد نے کہا کہ سب نے جموں و کشمیر کے لیے مکمل ریاست کا مطالبہ کیا ہے اور حکومت نے اس کی تکمیل کے لیے اپنے عزم کی تصدیق کی ہے۔

مرکز نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور اسے دو مرکزی علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا تھا۔ اس کے بعد خطے میں کرفیو اور انٹرنیٹ ناکہ بندی نافذ کردی گئی۔

مفتی اور نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ سمیت وادی کشمیر کی تقریباً ساری سیاسی قیادت کو نظربند کردیا گیا تھا۔ فاروق عبد اللہ کو 13 مارچ 2020 کو نظربندی سے رہا کیا گیا تھا۔ عمر عبد اللہ کی نظربندی کو بھی اس کے ایک ہفتہ بعد ہی منسوخ کردیا گیا تھا۔ پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون کو جولائی میں رہا کیا گیا تھا، جب کہ مفتی کی نظربندی 13 اکتوبر کو ختم ہوئی تھی۔