دہلی الیکشن: عوام نے فرقہ واریت کو مسترد کردیا

قربان علی

دہلی اسمبلی الیکشن کے یہ نتائج بڑے اہم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ان انتخابات میں دہلی کے عوام نے فرقہ پرست اور فسطائی قوتوں کو شکست دی ہے۔ جو لوگ قانون اور ملک کے آئین پر یقین رکھتے ہیں، حب الوطنی کے ساتھ اس ملک کو اپنا مانتے ہوئے، قومی پرچم لے کر آئین کو بچانے کے لیے، آئین کے ساتھ اپنی بات رکھ رہے ہیں، یہ دراصل ان کی جیت ہے۔

کاٹھ کی ہانڈی روز روز نہیں چڑھا کرتی۔ کئی بار ہم نے اس امر کا مشاہدہ کیا ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد لگنے لگا تھا کہ گویا اس ملک میں اکثریت نے اکثریتی ایجنڈے کے تحت حکومت کو چناہے۔ تاہم اس کے بعد ہونے والے انتخابات ، اور اس سے پہلے کے بھی بعض اسمبلی انتخابات اصل مسائل جیسے روزگار اور معیشت نیز کسانوں، مزدوروں، غریبوں، اقلیتوں اور آدیواسیوں کے حقوق کی لڑائی کی بنیاد پر لڑے گئے ۔ بی جے پی نے ان میں منہ کی کھائی۔

دہلی میں عام آدمی پارٹی نے اپنے کام کی بنیاد پر انتخاب میں حصہ لیا۔ لوگوں کو بہتر سہولتیں بجلی، پانی، تعلیم اور بہتر صحت خدمات کے ایجنڈے پر چناو لڑا۔ کوئی جذباتی ایشو نہیں اٹھایا۔ بلکہ بے کے پی کے مشتعل کرنے اور نفرت کی سیاست کے ہتھکنڈے آزمانے پربھی مشتعل نہیں ہوئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دہلی کے عوام نے اکثریت کے ساتھ تیسری بار بھی اروند کیجریوال کو دہلی کی حکومت سونپی ہے۔

بی جے پی دہلی میں 22 برس سے حکومت سے باہر ہے ،اور اب ان 5 برسوں کو شمار کریں تو گویا پورے 27 سال بی جے پی دہلی میں حکومت سے باہر رہے گی۔ جبکہ دہلی جن سنگھ کے زمانے سے ان کا گڑھ رہا ہے اور اب بھی بلدیہ میں دیکھیں تو کئی جگہ انھیں کا قبضہ ہے۔ اس لحاظ سے یہ نتائج بہت اہم ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ نتائج قومی سیاست پر بھی اثر انداز ہوں گے، اور ایک نئے سفر کا آغاز ہوگا۔ اسی سال بہار میں اسمبلی الیکشن ہونے والاہے، اس کے بعد مغربی بنگال میں انتخابات ہونے ہیں۔ ملک کی معیشت بدحال ہے، بلکہ آئی سی یو میں ہے، اور اگلے دو تین ماہ تک اس میں بہتری آنے کی امید نہیں ہے۔ یہ بی جے پی کے لیے خوش آئند بات نہیں ہے۔

اس الیکشن سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ وارانہ سیاست ،یالوگوں کو بانٹنے، توڑنے والی سیاست کو اب عوام پسند نہیں کرتے ۔ ملک کا مزاج جس طرح سے سیکولر رہا ہے، ویسا ہی رہے گا۔ یہ بات بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیے چشم کشا ہے۔ انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ اس ملک کا مزاج فرقہ پرستی کا مزاج نہیں ہے۔ یہ ملک سیکولر سیاست کو پسند کرتا ہے۔ بھلے ہی قومی الیکشن میں عوام نے جملے بازی، جھوٹے وعدوں اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر ووٹ کر دیا ہو، لیکن یہ چیزیں کب تک چلیں گی۔ اب ان کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ انتخابات میں مزید کھل جائیں گی۔ ہماری قومی جدوجہد 1857 سے لے کر 1947 تک 90 برس پر محیط عرصہ تھا جس کی اقدار کی بنیاد پر ہمارا آئین تشکیل پایا ۔ وہ قدریں ہمیشہ قائم و دائم رہیں گی۔ ہندوستان مضبوط و مستحکم ہوگا۔

(قربان علی سینیئر صحافی ہیں۔ مذکورہ سطور افروز عالم ساحل کے ساتھ ان کی گفتگو پر مبنی ہیں۔)