گری ہوئی بائیک سڑک پر بکھرا پڑا دہی جسے کتے چاٹ رہے ہیں اور پولیس والے ایک نوجوان کو بے رحمی سے مار رہے ہیں۔ وہ نوجوان بار بار اپنی قمیص کا بٹن کھول کر اپنی سرجری کے نشان دکھا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں دل کا مریض ہوں۔ میری بائی پاس سرجری ہوئی ہے۔ مجھے مت مارو پہلے آپ دیکھ لو۔ وہ اپنی دوا بھی دکھا رہا ہے۔ لیکن پولیس اہلکار اس کی ایک بھی نہیں سن رہے ہیں۔ گالیاں دیتے ہوئے نوجوان پر لگاتار لاٹھیاں برسا رہے ہیں۔
یہ تصویر مدھیہ پردیش کے چھترپور شہر کی ہے، جس کی تصویر ان دنوں خوب وائرل ہوئی ہے۔ اس نوجوان کا نام جیتو چورسیا ہے اور وہ گھر سے دودھ دہی اور دوائی لینے کے لیے نکلا تھا۔ یہ سب لے کر واپس لوٹ رہا تھا کہ پولیس نے اسے چوک بازار چوراہے پر روک لیا، اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولے پولیس کی لاٹھی بائیک پر پڑی، جس سے آگے کی ہیڈ لائٹ ٹوٹ گئی اور بائیک زمین پر گر پڑی۔ اس کے بعد یہ پولیس اہلکار نوجوان کو گھسیٹتے ہوئے سڑک کے ایک کنارے لے گئے۔ اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا، یہ آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔
پولیس کی بربریت کی یہ کہانی کوئی نئی نہیں ہے۔ ’کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیئٹو‘(سی ایچ آر آئی) کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں پہلے لاک ڈاؤن کے دوران 25 مارچ 2020 سے 30 اپریل 2020 تک 15 افراد کی موت ہوئی۔ ان اعداد وشمار میں پولیس حراست میں تین اموات اور تین لوگوں کی خود کشی بھی شامل ہے جو عوام میں پولیس کے ذریعے پٹائی سے ذلیل وخوار ہوئے تھے۔ زیر حراست مرنے والے تین افراد کو پولیس نے لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حراست میں لیا تھا۔
سی ایچ آر آئی کی یہ رپورٹ پولیس کے کام کرنے کی طریقے پر سوالیہ نشان کھڑی کرتی ہے۔ وہیں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کون سا قانون ہے جس کے خلاف ورزی کا حوالہ دے کر پولیس ملک کے عام غریب عوام پر اپنی طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے ان 15 افراد کے موت کی کہانیوں سے ہٹ کر پولیس کی بربریت سے ہوئی اموات کی میڈیا میں رپورٹ کردہ اموات کی خبروں کو یکجا کیا ہے۔ ان اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے درمیان پولیس کی بربریت کی وجہ سے مزید 10 شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ اعداد وشمار ’کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹیو‘ کی رپورٹ سے الگ گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ اس سال لاک ڈاؤن کے درمیان کے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اب تک لاک ڈاؤن میں پولیس کی بربریت کی وجہ سے ملک کے 25شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
ملحوظ رہے کہ یہ تمام وہ معاملات ہیں جو ذرائع ابلاغ کی نظر میں ہیں اور خبروں میں آئے ہیں۔ واضح رہے کہ اموات کے یہ اعداد وشمار حکومت نے جاری نہیں کیے ہیں۔ لہذا خدشہ ہے کہ یہ اعداد وشمار اصل اعداد وشمار کے مقابلے میں کم ہوں گے۔ یقیناً کئی معاملے ایسے ہوں گے جن کی اطلاع کسی بھی صحافی کو نہیں ہے یا پھر ابھی صحافیوں کی ان تک رسائی نہیں ہو پائی ہو گی۔
— 21 مئی 2021: اتر پردیش کے ضلع اناؤ کے بانگرم مئو کوتوالی علاقے میں 20 سالہ سبزی فروش فیصل کی پولیس تشدد کی وجہ سے کی موت کی کہانی منظر عام پر ہے۔ پولیس نے اسے اتنا مارا کہ وہ شدید زخمی ہو گیا۔ مقامی افراد زخمی حالت میں اسے کمیونٹی ہیلتھ سنٹر لے گئے جہاں ڈاکٹر نے اسے مردہ قراردیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ فیصل کو پولیس نے صرف اس لیے بری طرح سے مارا کیونکہ وہ لاک ڈاؤن میں سبزی فروخت کر رہا تھا۔ جبکہ لاک ڈاؤن میں سبزی فروخت کرنے کی اجازت حکومت کی جانب سے دی گئی ہے۔
اس معاملہ کے دو سپاہیوں اور ایک ہوم گارڈ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ حالانکہ پولیس کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی عمل آوری کے تحت ایک نوجوان کو تھانہ میں لایا گیا تھا، جہاں اس کی طبیعت بگڑ گئی اور اسپتال لے جاتے وقت اس کی موت ہو گئی۔ جبکہ اس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز وہ نزدیکی قصبہ بانگر مئو میں سبزی فروخت کر رہا تھا، دو سپاہی اور ایک ہوم گارڈ نے لاک ڈاؤن کے دوران سبزی بیچنے کی پاداش میں اس کی پٹائی کر دی۔ اس کے بعد پولیس اس کو تھانے لے گئی۔ فیصل کی وہاں لے جا کر بھی پٹائی کی گئی۔ اس کے بعد جب اس کی طبیعت بگڑ گئی تو اسے اسپتال لے جایا گیا، لیکن ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔ اس کے بعد پولیس والے فیصل کی لاش کو اسپتال میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔
— 30 اپریل 2021 : جھارکھنڈ کے ضلع ہزاری باغ میں پولیس کی پٹائی کی وجہ سے 50 سالہ چھکن بھؤیاں کی موت ہوگئی۔ میڈیا میں شائع خبر کے مطابق، وہ ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے اپنی بیوی اور بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل سے جا رہے تھے۔ راستے میں چوپارن تھانہ علاقے میں مقیم کرما گاؤں کے قریب پولیس نے ان کی موٹر سائیکل روک کر انہیں اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہو گئے۔ مقامی لوگ انہیں لے جا رہے تھے لیکن راستے میں ہی ان کی موت ہوگئی، اس پٹائی میں ان کی بیوی اور بھائی کو بھی شدید چوٹیں آئی ہیں۔
— 28 اپریل 2021: اتر پردیش کے کاس گنج میں بھی مبینہ طور پر 45 سالہ گوتم پولیس کی پٹائی کی وجہ سے چل بسا۔ گوتم ہریانہ کے پانی پت میں کام کرتے تھے۔ ان کے بیٹے آشیش نے بتایا کہ اس کے والد پانی پت سے قنوج آنے کے لیے چلے تھے۔ وہ مسلسل موبائل پر بات کر رہے تھے۔ لیکن آشیش کا الزام ہے کہ کاس گنج میں پولیس نے انہیں پکڑ کر موبائل چھین لیا۔ کیونکہ ان کے نمبر پر کال کرنے پر پولیس اہلکار نے فون اٹھایا اور بتایا کہ والد حراست میں ہیں۔ لیکن انہیں حراست میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ جب صبح چھ بجے کے قریب یہ خاندان کاس گنج صدر کوتوالی پہنچا تو یہاں پولیس نے بتایا کہ گوتم کو رات میں ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اب یہ فیملی قنوج لوٹنے لگی تو صبح قریب دس بجے کاس گنج پولیس کا کال آیا اور بتایا کہ گوتم کی نعش صدر کوتوالی کے علاقے دولت پور کالونی میں ایک پلاٹ میں ملی ہے۔ آشیش کا کہنا ہے کہ ان کے والد کی موت پولیس کی پٹائی کی وجہ سے ہوئی ہے کیونکہ والد کے جسم پر چوٹوں کے نشانات تھے۔
— 14 اپریل 2021: مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کے عثمان پورہ علاقے میں لاک ڈاؤن کی پامالی کے نام پر فیروز خان کو پولیس نے اتنا مارا کہ اس کی موت ہو گئی۔ مقامی اخباروں میں شائع خبر کے مطابق فیروز کا ہیئر سیلون کھلا ہوا تھا۔ پولیس نے یہ دیکھا تو اسے مارنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے وہ شدید طور پر زخمی ہو گیا۔ فیروز کو زخمی حالت میں گھاٹی دواخانے میں داخل کرایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے جانچ کے بعد اسے مردہ قرار دیا۔
— 22 جون 2020: تمل ناڈو کے توتیکورین ضلع میں لاک ڈاؤن میں دیر تک دکان کھولنے کے الزام میں 58 سال کے جئے راج کو پولیس نے 19 جون کو حراست میں لیا۔ الزام ہے کہ انہیں چھڑانے کے لیے ان کے بیٹے بینکس (38) جب پولیس اسٹیشن پہنچے تو پولیس نے انہیں بھی بری طرح زدوکوب کیا۔ ان دونوں باپ بیٹے کو پوری رات پولیس حراست میں رکھا گیا۔ دو دن بعد دونوں کی موت ہوگئی۔ میڈیا میں شائع خبر کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن نے اس معاملے میں پولیس کو نوٹس بھیجا، تو وہیں اس وقت وزیر اعلیٰ نے سی بی آئی سے اس معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔ لیکن اس کے بعد آگے کیا ہوا، اس کی خبر نہیں ہے۔
— 21 اپریل 2020: اتر پردیش کے سہارن پور علاقے میں ایک پولیس اہلکار کے ذریعہ بے رحمی سے پٹائی کے سبب موت کی کہانی سامنے آئی ہے۔ اس متعلق ایک ویڈیو ان دنوں کافی وائرل ہوا تھا۔
— 31 مارچ 2020: راجستھان میں سیکر ضلع کے ایک نوجوان کی لاک ڈاؤن کے دوران پولیس کی پٹائی سے موت ہونے کا معاملہ سامنے آیا۔ مقامی میڈیا میں شائع خبر کے مطابق، رام سنگھ شیخاوت کوچامن کی ایک ڈیفسن اکیڈمی میں گذشتہ ڈیڑھ سال سے کام کر رہے تھے۔ لاک ڈاؤن کے دوران وہ اپنے گاؤں تریلوک پورہ دوائیاں لینے آئے تھے اور دوا لیکر واپس لوٹ رہے تھے۔ گھر والوں نے الزام لگایا کہ پولیس اہلکاروں نے انہیں مختلف مقامات پر دو بار پیٹا، جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوئے۔ یہ جانکاری خود رام سنگھ نے فون پر اپنے گھر والوں کو دی۔ اس کے بعد دیر رات رام سنگھ کو ایمبولینس کے ذریعہ تریلوک پورہ گھر لایا گیا۔ صبح وہ اسے لے کر اسپتال کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں ہی ان کی موت ہوگئی۔
— 28 مارچ ، 2020: مہاراشٹر کے پونے میں ایک 49 سالہ ایمبولینس ڈرائیور کی پولیس کی پٹائی سے موت ہو گئی۔ مقتول کے بیٹے نے بتایا کہ پولیس اہلکار 3 ہزار روپے رشوت مانگ رہے تھے، نہ دینے پر مارنا شروع کر دیا۔ وہیں پولیس کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران اپنی ایمبولینس سے غیر قانونی طور سے سواریاں ڈھونے کا کام کر رہا تھا۔
— 24 مارچ 2020: اتر پردیش کے ضلع گورکھپور کے رام گڑھتال تھانہ علاقہ میں ایک مندر کے 70 سالہ پوجاری بھگت جی کی دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی۔ ان کی اہلیہ کا الزام ہے کہ یہ موت پولیس کی پٹائی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس صبح گھر کے باہر بچوں کو پیٹ رہی تھی۔ میرے شوہر ان کے بچاؤ کے لیے گئے۔ لیکن پولیس نے ان کو بھی مارنا شروع کردیا۔ اس کے بعد پولیس انہیں اپنی گاڑی میں زبردستی بٹھانے لگی۔ اس دوران وہ بے ہوش ہوکر گر پڑے اور وہیں دم توڑ دیا۔ تاہم پولیس نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
پولیس نے یہ تمام بربریت عالمی وبائی مرض کوویڈ-19 کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے نام پر کی ہے۔ وہیں افسروں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کی جائے گی، ایسے لوگوں سے پولیس اور انتظامیہ سختی سے نمٹے گی۔ گزشتہ سال خود وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹوئیٹ میں ریاستی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ قوانین اور ہدایات پر عمل کرائیں۔ کورونا وائرس کے پیش نظر جن علاقوں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے وہاں لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرایا جائے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
دراصل ملک میں اس وقت وبائی امراض ایکٹ 1897 (The Epidemic Diseases Act 1897) نافذ ہے اور پولیس اور انتظامیہ اسی ایکٹ کے نام پر سڑکوں پر لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے نام پر لاٹھیاں برسا رہی ہیں جس کے نتیجے میں 25 لوگوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔
کیا ہے وبائی امراض ایکٹ 1897 اور کیا کیا ہیں اس کی دفعات؟
یہ ایکٹ صرف چار دفعات پر مشتمل ہے۔ یہ ایکٹ خطرناک وبائی امراض کے پھیلاؤ کی بہتر روک تھام کے لیے لایا گیا اور دفعہ 1 کے مطابق یہ وبائی امراض ایکٹ 1897 کہلاتا ہے۔
اس ایکٹ کی دفعہ 2 یہ کہتی ہے کہ جب ریاستی حکومت جب یہ محسوس کرے کہ ریاست میں کوئی خطرناک وبا پھیل سکتی ہے تب وہ اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مناسب اقدامات کے طور پر اس ایکٹ کو نافذ کر سکتی ہے۔ ریل کے ذریعہ سفر کرنے والے افراد کا معائنہ اور ان افراد کو جن کے بارے میں انسپیکٹنگ آفیسر کو شبہ ہو کہ وہ وبا سے متاثر ہے کسی اسپتال یا عارضی رہائش گاہ یا کسی اور جگہ الگ رکھ سکتی ہے۔
اس ایکٹ کی دفعہ 2 (اے) مرکزی حکومت کو بھی یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ وبائی امراض کے معاملے میں اس ایکٹ کے تحت پورے ملک میں وزارت صحت وخاندانی بہبود کے مشوروں اور ہدایات کا نفاذ ہو گا۔ ساتھ ہی حکومت کو کسی ملک سے آنے یا جانے والے جہاز کا معائنہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور کسی بھی شخص کو ملک میں سفر کرنے یا دیگر ملک سے آنے والے شخص کو حراست میں لینے کا اختیار ہے۔
اس وبائی امراض ایکٹ 1897 کی دفعہ 3 یہ کہتی ہے کہ اس قانون کے تحت بنائے گئے کسی بھی ضابطے یا آرڈر کی نافرمانی کرنے والا ہر شخص تعزیرات ہند یعنی انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 188 کے تحت سزا کا مستحق ہو گا۔
وہیں دفعہ 4 واضح طور پر کہتی ہے کہ وہ فرد جو کسی نیک ارادہ کے تحت اس ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ یہ الگ بات کہ ان دنوں کئی ریاستی حکومتیں اس وبا کے دوران لوگوں کی مدد کرنے والوں پر بھی مقدمہ درج کرا رہی ہیں۔ یہ دفعہ اس ایکٹ کے نفاذ کے لیے کام کرنے والے افسروں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔
حکومت نے گزشتہ سال اس وبائی امراض ایکٹ 1897 میں ترمیم کی ہے۔ اس مقصد سے ایک آرڈیننس لایا گیا ہے۔ وبائی امراض (ایکٹ) آرڈیننس 2020 نام کے اس آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص صحت خدمات فراہم کرنے والے افراد کے خلاف تشدد کے کسی بھی واقعے میں ملوث نہیں ہوگا یا وبا کے دوران کسی بھی املاک کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
اس ترمیم میں تشدد کی سرگرمی کو قابل تعزیر اور نا قابل ضمانت جرم تسلیم کیا گیا ہے۔ تشدد کے ایسے واقعات کو انجام دینے یا بڑھاوا دینے پر تین مہینے سے لے کر پانچ سال تک کی قید کی سزا ہو گی اور ساتھ میں پچاس ہزار روپے سے لے کر دو لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ شدید چوٹ پہنچانے پر چھ مہینے سے لے کر سات سال کی مدت کیلیے جیل کی سزا ہو گی اور ساتھ میں ایک لاکھ روپے سے لے کر پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ املاک کی بربادی یا کسی طرح کے نقصان (یا جو بھی عدالت کے ذریعے طے کیا جائے) کی صورت میں مجرم متاثرہ شخص کو نقصان کی بھر پائی کیلیے بازار کی مناسب قیمت سے دو گنا رقم ادا کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔
بتا دیں کہ گزشتہ سال اس وبائی امراض ایکٹ 1897 کے خلاف مہاراشٹر کے ایچ این مراشی نامی ایک شخص کے ذریعے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ نے 17 نومبر 2020 کے ایک فیصلے میں اس ایکٹ کی آئینی جواز پر فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو پہلے بمبئی ہائی کورٹ جانے کے لیے کہا ساتھ میں یہ بھی کہا کہ سنٹرل ایکٹ کو منسوخ کرنے کا حق ہائی کورٹ کو بھی ہے۔ آپ اس عرضی کو یہاں سے واپس لیں اور ہائی کورٹ میں دائر کریں۔ بنچ نے کہا کہ درخواست گزار کا یہ ماننا پوری طرح سے غلط ہے کہ ہائی کورٹ کو مرکز کے قانون کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے حالانکہ ہائی کورٹ کو ایسا کرنے کا پورا اختیار ہے۔
کیا ہے وبائی امراض ایکٹ کی تاریخ؟
بات 1896 کی ہے۔ اس سال کے آخر میں ملک ’بیوبونک پلیگ‘ وبا کا شکار ہو گیا۔ اسے عام زبان میں گلٹی والا پلیگ کہا گیا۔ بعد میں یہ ’بلیک ڈیتھ‘ کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت بھی یہ وبائی مرض چین کے ذریعے ہی بمبئی پہنچا تھا جہاں چار ہفتوں کے اندر ہی چار سو افراد اس وبا کا شکار ہو گئے تھے۔
اس وقت ہندوستانی گورنر جنرل کی کونسل کے ممبر جے ووڈ برن نے 28 جنوری 1897 کو ’بلیک ڈیتھ‘ کے نام سے مشہور ’بیوبونک پلیگ‘ وبا کے پھیلنے سے روکنے کے لیے ’اپیڈیمک ڈیزیز ایکٹ، 1897‘ پیش کیا تھا۔ اس قانون کو 4 فروری 1897 کو کونسل میں گورنر جنرل کی منظوری ملی۔ آئی سی ایس آفیسر والٹر چارلس رینڈ کو ’پلیگ کمشنر‘ مقرر کیا گیا۔ بتادیں کہ آج بھی ہمارے ملک میں کچھ ترامیم کے ساتھ وہی 124 سال پرانا قانون نافذ ہے۔
اس زمانے میں مہاراشٹر کا شہر پونا اس ’بیوبونک پلیگ‘ کا مرکز بن گیا تھا۔ اس کی روک تھام کے لیے حکومت نے چارلس رینڈ کو پونا بھیجا۔ اسے ’پلیگ کمشنر‘ بنایا گیا اور ’اپیڈیمک ڈیزیز ایکٹ‘ کے تحت خصوصی حقوق دیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ چارلس رینڈ سخت قسم کا آفیسر تھا۔ اس نے پونا کے لوگوں پر کافی سختی برتی تھی خاص طور پر مذہبی رسوم ادا کرنے اور مسجد اور مندر جانے پر روک لگا دی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اس دور میں مذہبی سرگرمیوں کو روکنا ہی اصل مسئلہ بنا۔ اس مسئلے کو لے کر بال گنگادھر تلک نے اپنے اخبار ’کیسری‘ میں کئی مضامین لکھے۔ نشانے پر چارلس رینڈ رہا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’اگر ایک انگریز کا گھر اس کا محل ہے تو برہمن کا گھر اس کا مندر ہے‘‘ گوپال کرشن گوکھلے نے بھی مذہبی بنیادوں پر حکومت پر کئی الزامات عائد کیے تھے لیکن اس وقت کی رپورٹوں کے مطابق جب حکومت نے ان کی تحقیقات کی تو وہ تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوئے تھے۔
22 جون کو ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کا دن تھا۔ عشائیہ تناول کرنے کے بعد جب ’گورنمنٹ ہاؤس’ کے مہمان اپنی اپنی بگھیوں میں واپس جا رہے تھے تبھی رینڈ اور اس کے ساتھی افسر ایئرسٹ کا قتل کر دیا گیا۔ ایئرسٹ کی موقع پر ہی موت ہو گئی جبکہ چارلس رینڈ نے بھی 11 دن بعد 3 جولائی کو دم توڑ دیا۔
اس واقعہ کے بعد پونا میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ قاتل کی شناخت کرنے والے کے لیے بیس ہزار روپے انعام کا اعلان ہوا۔ حکومت کو اندازہ تھا کہ رینڈ اور ایئرسٹ کا قتل تلک کی ایک سازش ہے۔ تلک نے سخت زبان میں دو مضامین لکھے تھے جس میں پولیس کی طرف سے ہراساں کیے جانے اور سرکاری افسر کے ذریعے پونا کی عوام پر ہونے والے ظلم وستم پر کڑی تنقید کی تھی۔
ان مضامین کی بنا پر تلک پر غداری کا الزام لگا۔ گورنر لارڈ سینڈھرسٹ نے تلک کو قید کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ 27 جولائی 1897 کی رات کو تلک کو بمبئی کے گیر گاؤں سے حراست میں لیا گیا۔ تب ان کی ضمانت کے لیے خوب کوششیں کی گئیں۔ چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جسٹس پارسن اور جسٹس ران ڈے کے سامنے ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی گئی۔ انہوں نے بھی یہ کہہ کر ٹال دیا کہ پولیس کا کیس ہے، اس لیے جلدی ہی ختم ہو جائے گا۔ پولیس کارروائی ختم ہونے پر جب مقدمہ شروع نہیں ہوا تو تلک کے وکیل نے ایک اور درخواست دی جو بد قسمتی سے پارسن اور متھمین کے رانڈے کی عدالت میں ہی پہنچی۔ انہوں نے مجسٹریٹ کے فیصلے میں دخل دینا نہیں چاہا لیکن ڈیفنس کو درخواست دوبارہ دینے کی منظوری دے دی۔ اس بار سیٹنگ جج جسٹس طیب جی کے چیمبر میں درخواست پیش ہوئی۔ جسٹس طیب جی نے یہ کہتے ہوئے تلک کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا کہ اگر ضمانت منظور نہیں ہوئی تو تلک ایک ماہ تک جیل میں رہیں گے۔ اگر اس معاملے کے اختتام پر وہ بے قصور ثابت ہوئے تو یہ بڑی نا انصافی ہو گی اس لیے ضمانت منظور کر لی گئی۔
بتا دیں کہ بدر الدین طیب جی بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت کرنے والے پہلے ہندوستانی بیرسٹر اور پھر چیف جسٹس بننے والے پہلے ہندوستانی تھے۔
کیا کہتی ہے آئی پی سی کی دفعہ 188؟
اگر آپ وبائی امراض ایکٹ 1897 کی دفعہ 3 کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو پولیس آپ پر تعزیرات ہند یعنی انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دفعہ 188 کے تحت کارروائی کر سکتی ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ 188 کے تحت ایک ماہ کی مدت کے لیے سادہ قید یا 200 روپے جرمانہ یا پھر دونوں ہو سکتی ہیں۔ اور اگر آپ کی خلاف ورزی کی وجہ سے انسانی جان، صحت یا حفاظت کے لیے خطرہ پیدا کرنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے تو پھر آپ کو کسی ایک مدت کے لیے سادہ قید کی سزا ہو گی، جس کی مدت چھ ماہ تک ہو سکتی ہے یا آپ سے زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپے کا جرمانہ لیا جا سکتا ہے یا ان دونوں سزاؤں کا ایک ساتھ نفاذ ہو سکتا ہیں۔
آئی پی سی کی دفعہ 188 کے تحت ہونے والے جرائم قابل ضمانت ہیں، ساتھ ہی کسی بھی مجسٹریٹ کے سامنے ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ دفعہ 188 کی خلاف ورزی، پولیس اہلکاروں کو حق نہیں دیتی ہے کہ کسی فرد کو جسمانی نقصان پہنچائے یا کسی بھی طرج کی بربریت دکھائے۔ پولیس زیادہ سے زیادہ لاک ڈاؤن آرڈر کی خلاف ورزی کرنے پر اس شخص کو حراست میں لے سکتی ہے۔ اس شخص کے پاس ضمانت پر رہا ہونے کا حق بھی ہے، کیونکہ یہ جرم قابل ضمانت ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ دیگر بہت سے جرائم کے برعکس ان معاملوں میں مجرموں کے خلاف فوجداری عدالت حتمی رپورٹ کی بنیاد پر کارروائی نہیں کر سکتی۔ سی آر پی سی کی دفعہ 195 کے تحت فوجداری عدالت اس جرم کا نوٹس لینے کے لیے مستند سرکاری ملازم کی جانب سے ایک تحریری شکایت دیا جانا ضروری ہوتا ہے۔
لیکن سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں ایسی ویڈیوز موجود ہے جن میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس عام لوگوں کے خلاف تشدد کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ پولیس ان لوگوں پر بھی لاٹھی چارج کر رہی ہے جو روزمرہ کی ضروری چیزیں یا دوا لینے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ یہاں بیماروں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ کئی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ سبزی فروشوں کو مارا پیٹا گیا، ان کے ٹھیلوں کو الٹ دیا گیا۔ ڈاکٹروں اور صحافیوں کو بھی نہیں بخشا گیا، جبکہ وزارت داخلہ کے احکامات کے مطابق ضروری خدمات کو لاک ڈاؤن سے مستثنٰی رکھا گیا ہے۔ اتر پردیش کے شہر اناؤ میں سبزی فروش فیصل کی موت پولیس کی بربریت کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ یاد رہے کہ پولیس کے ذریعہ قانون کی خلاف ورزی کرنا بھی قابل تعزیر ہے۔
بتا دیں کہ پولیس کے ذریعہ کیے جانے والے تشدد پر کیرالا ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے 25 مارچ 2020 کو کہا تھا ’’ان معاملوں کو چھوڑ کر جہاں گرفتاری بہت ضروری ہے، کسی دیگر مجرم کو گرفتار کر کے آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ان کو دی گئی ذاتی آزادی کی گارنٹی کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے‘‘
خیال رہے کہ اس لاک ڈاؤن میں پولیس کو تعزیرات ہند کی دفعہ 188 کے تحت قانون کارروائی کے ساتھ ساتھ وزارت داخلہ نے لاک ڈاؤن سے متعلق ہدایات میں یہ بھی کہا ہے کہ روک تھام کے اقدامات کی خلاف ورزی کرنے پر کسی بھی شخص کے خلاف ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2005‘ کی دفعہ 51 سے 60 کی دفعات کے مطابق کارروائی ہو گی۔ ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2005 کے ان دفعات کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 2 سال قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ پولیس کو سڑکوں پر لاٹھی چلانے کا حق یہ قانون بھی نہیں دیتا ہے۔
ہیومن رائٹ کمیشن سے پولیس کو لاٹھی چلانے سے روکنے کا مطالبہ
بہار کے شہر گیا کے ایک سماجی کارکن نے لاک ڈاؤن میں ضروری کام سے نکلے لوگوں کی پولیس کے ذریعہ پٹائی کیے جانے کے معاملے میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن اور وزیر داخلہ کو ایک خط لکھا ہے۔ اس خط میں کہا گیا کہ پورے بہار میں ہوائی جہاز اور ریل کے ذریعے آنے جانے، اسپتال اور دوا کی دکان کھولنے پر کوئی روک نہیں ہے۔ ساتھ ہی ہر طرح کے تعمیراتی کام بھی جاری ہیں۔ ایسی صورتحال میں ضرورت کے تحت نکلے ہوئے لوگوں کو پیٹنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ اس سے پولیس کے خلاف ناراضگی پیدا ہو رہی ہے۔ اس لیے اس پر ہر حال میں روک لگانا بہت ضروری ہے۔
اس سلسلے میں پٹنہ میں موجود انسانی حقوق کے جہد کار شارق ندیم سے بات کی گئی، انہوں نے بتایا کہ دراصل لوگوں میں بیداری کی کمی ہے، لوگ مار کھا کر بھی سوال نہیں پوچھتے۔ لیکن اب کئی جگہ سے ایسی خبریں آئی ہیں کہ لوگوں نے جوابی کارروائی بھی کی ہے۔ ایسے میں پولیس نے دوسرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ پولیس اب لوگوں سے پیسہ وصول کر رہی ہے۔ دکانداروں سے 20-20 ہزار روپے کی وصولی کی گئی ہے۔ یہ سارا معاملہ ناجائز طریقے سے کمانے کا ہے۔ ملک کی دیگر ریاستوں کا بھی کم وبیش یہی حال ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021