دانش گاہیں یا نسل پرستی کی آماج گاہیں!

درشن سولنکی نے روہت ویمولا کا راستہ کیوں چنا ؟

نوراللہ جاوید، کولکاتا

دلت ، قبائلی اور اقلیتی طلبا کے ساتھ امتیازی سلوک روکنے میں حکومت اورادارے ناکام
ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے تعلیمی اداروں میں خصوصی سیل قائم کرنے اور سخت قانون سازی کی ضرورت
یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے فکر و شعور کو پروان چڑھانے اور اعلیٰ انسانی اخلاق و اقدار کے فروغ کے مراکز ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں اعلیٰ تعلیمی ادارے سماجی عدم مساوات، بھید بھاو اور انسانیت کی تذلیل کرنے والی ذہنیت کو ختم کرنے کی بجائے الٹا اس کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ آزادی کے 70 سال بعد بھی نوآبادیاتی سوچ، نسل پرستی اور صدیوں قدیم گھناونی و غیر انسانی روایات اب بھی زندہ ہیں۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جب بھی کوئی طالب علم سماجی بھید بھاو، نسل پرستی اور اقتصادی تفریق کا شکار ہوکر خودکشی پر مجبور ہوتا ہے تو ردعمل میں مختلف حلقوں سے آوازیں بلند ہوتی ہیں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ نتیجتاً تعلیمی اداروں میں خودکشی کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری یونیورسٹیاں، تعلیمی ادارے اور ان سے منسلک افراد اسی سماج کا حصہ ہیں جہاں ذات پات کی تفریق، نسل پرستی اور انسانیت کی تذلیل کی جڑیں صدیوں سے پیوست ہیں۔ آئینی اور دیگر قانونی اقدامات کے باوجود ذات پات کا تعصب ہماری زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دانش گاہیں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے دقیانوسی خیالات کا خاتمہ کرنے اور معاشرہ میں سائنٹیفک سوچ کو فروغ دینے میں ناکام کیوں ہیں جبکہ ان کا کام سماج و معاشرہ کو صحیح راہ دکھانا ہوتا ہے؟ جب تعلیمی ادارے ہی نسل پرستی، بھید بھاو اور ذات پات کی بنیاد پر کام کریں گے تو پھر سماج کو روشنی کہاں سے ملے گی اور صحیح راستہ کون دکھلائے گا؟ آئی آئی ٹی ممبئی میں ایک 18سالہ دلت طالب علم درشن سولنکی کی حالیہ خودکشی کے واقعہ کے بعد اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کا بدصورت چہرہ دوبارہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ درشن سولنکی کی خودکشی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ (کاش کہ یہ آخری ہوتا) سوال یہ ہے کہ دلت اور قبائلیوں کو ہراساں کیے جانے کے خلاف سخت قوانین ہونے کے باوجود دلت طلبا کو ہراساں کیے جانے کے واقعات میں کمی کیوں نہیں آرہی ہے اور تعلیمی اداروں کے سربراہ اور اعلیٰ عہدیدار مسلسل ناکام کیوں ہو رہے ہیں؟
مئی 2020میں 47سالہ افریقی نژاد امریکی جارج فلائیڈکو چار نسل پرست پولس اہلکاروں نے بے رحمانہ انداز میں قتل کردیا ۔اس کے اگلے ہی دن امریکہ کی سول سوسائٹی سڑکوں پر اترآئی، پوری دنیا میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے ہوئے ۔ہندوستانی نیوز چینلس کے پرائم ٹائم شوز پر بھی نسل پرستی کے موضوع پر گرما گرم مباحث ہوئے ۔جارج فلائیڈ کے قتل کے خلاف سول سوسائٹی کی اس بیداری نے امریکی نظام کو تبدیل کرنے اور پولیس کے بے تحاشا اختیارات میں کمی اور نسل پرستانہ ذہنیت کے حاملین کی پولیس محکمہ سے تطہیر کے لیے امریکی انتظامیہ نے اقدامات کیے۔ اسی طرح 2012میں دلی کی سنسان سڑک پر سرد موسم میں چلتی بس میں نربھیا کی وحشیانہ اجتماعی عصمت ریزی وقتل کے واقعے کے رد عمل میں دلی کی سول سوسائٹی نے سڑکوں پر زبردست مظاہرہ کیا۔اس کے نتیجے میں حکومت ہند عصمت دری کے خلاف روک تھام کے لیے قانون سازی پر مجبور ہوئی۔یہ الگ سوال ہے کہ یہ قانون کتنا موثر ثابت ہوا اور بھارت میں خواتین کے ساتھ وحشیانہ عصمت دری کے واقعات میں کمی کیوں نہیں آئی؟ مگرمعاشرہ نے اجتماعی حساسیت کا مظاہرہ کیا تو حکومت اقدامات کرنے پر مجبور ہوئی ۔لیکن گزشتہ 70سالوں سے بھارت کی یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلسل، پے درپے اجتماعی زیادتی، نسل پرستی اور طعنہ زنی سے تنگ آکر دلت اور پسماندہ طبقات کے طلبا کی خودکشیوں پر اس طرح کی حساسیت ندارد ہے ۔گزشتہ سات سالوں میں ملک بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 122 طلبا خودکشی کر چکے ہیں۔ مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے دسمبر 2021 میں پارلیمنٹ میں ان اعداد و شمار کو شیئر کیا۔ خودکشی کرنے والے زیادہ تر طلباء دلت، قبائلی، پسماندہ یا مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ زیادہ تر خودکشیاں آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے طلباء نے کی ہیں۔ 122 طلباء میں سے تین کا تعلق قبائلی برادری سے تھا، 24 دلت، 41 او بی سی اور تین کا تعلق مذہبی اقلیت سے ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سےمعلوم ہوتا ہے کہ خودکشی سے مرنے والے طلباء میں سے 34 کاتعلق آئی آئی ٹی اور پانچ کا تعلق آئی آئی ایم سے تھا۔ ان سات سالوں کے دوران مختلف نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کیمپس میں 30 طلبانے خودکشی کی اور مختلف مرکزی یونیورسٹیوں میں 37 طلبا نے خودکشی کی۔
اس مرتبہ بھارت کی سربراہی میں منعقد ہونے والے G20 اجلاس کا تھیم ہے ’’ساری دنیا ایک خاندان‘‘ لیکن کیا اس خاندان میں دلت، قبائلی، پسماندہ طبقات اور اقلیتیں شامل نہیں ہیں؟ کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں اور کیا یہ اعداد و شمار ملک کے لیے شرمناک نہیں ہیں؟
ہم ایک طرف خود کو دنیا میں سب سے قدیم تہذیب و تمدن کے حامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دوسری طرف نسل پرستی اور ذات پات کی تفریق کے خلاف کھڑے ہونے میں ہماری سول سوسائٹی پوری طرح ناکام ثابت ہوچکی ہے۔ دلت، پسماندہ طبقات اور اقلیتی گروپ سے تعلق رکھنے والے طلبا، اساتذہ اور دیگر افراد کے اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے کے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر امریکہ کی طرح اس کے خلاف ہمارے معاشرے میں آواز بلند نہیں ہوتی ہے بلکہ اس طرح کے واقعات کو سیاسی نوعیت دے کر متنازع بنادیا جاتا ہے نتیجے ہمارے تعلیمی ادارے نسل پرستی کی آماجگاہیں بنی ہوئی ہیں۔ ملک کی سول سوسائٹی کی حساسیت، بیداری، ہنگامہ آرائی، ظلم و تشدد کے خلاف صف آرائی منتخب معاملات میں ہوتی ہے۔ظلم و تشدد کا شکار ہونے والے کا تعلق اگر اعلیٰ طبقات سے ہوتا ہے تو احتجاج کی آوازیں ہرطرف سے بلند ہونے لگتی ہیں مگر جب دلت، مسلمان اور آدیواسیوں کے خلاف وحشیانہ قتل، لنچنگ، عصمت دری اور تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو سول سوسائٹی نہ صرف خاموشی اختیار کرلیتی ہے اور میڈیا اس کی طرف توجہ نہیں دیتا بلکہ بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس طرح کے معاملات میں علامتی لب و لہجہ اختیار کر کے گویا اپنی ذمہ داری پوری کرلیتی ہیں۔
گزشتہ مہینے 15 فروری کو انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی بمبئی کے ایک نوجوان طالب علم درشن سولنکی کی خودکشی کا واقعہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ گجرات کے رہنے والے درشن سولنکی کی مبینہ خودکشی پر سیاسی اسٹیبلشمنٹ، سول سوسائٹی اور مین اسٹریم میڈیا میں خاموشی چھائی رہی۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قومی میڈیا نے دلتوں کے مسائل، مشکلات اور ان کے صدمات سے واضح طور پر دوری اختیار کر لی ہے۔ سول سوسائٹی، یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خودکشی کے واقعات کو کسی طالب علم کی افسردگی اور غربت اور مشکلات سے تنگ آکر اٹھایا گیا قدم قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ درشن سولنکی کی خودکشی کی جانچ کے لیے قائم 12 رکنی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ بھی اس رویے کی تائید کرتی ہے۔کمیٹی کی جانچ رپورٹ میں ذات پات کی تفریق اور نسل پرستی کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درشن سولنکی تعلیمی بوجھ اٹھانے میں ناکام تھا اس لیے اس نے خودکشی کی۔ 12 رکنی جانچ کمیٹی نے درشن سولنکی کے والد کے اس بیان کو اہمیت نہیں دی جس میں سولنکی نے اپنے والد سے کہا تھا کہ اس کی ذات کا علم ہو جانے کے بعد اس کے ہم درسوں کا رویہ توہین آمیز ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ بد سلوکی کی جا رہی ہے۔ اس پورے عمل میں سب سے زیادہ شک و شبہ پیدا کرنے والی بات یہ ہے کہ سولنکی کے والد سے پوچھے بغیر ہی پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔ پوسٹ مارٹم سے ایک رات قبل ممبئی میں موجود اس کے رشتہ داروں کو لاش نہیں دکھائی گئی۔ کیا یہ صورت حال یہ شبہ پیدا نہیں کرتی کہ سولنکی کی خودکشی محض امتحانات میں ناکامی کا نتیجہ نہیں ہو سکتی؟
کیا خودکشی کے واقعات کو محض امتحانات میں ناکامی قرار دے کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبا کی خودکشی کے واقعات اور اس کے بعد پولیس جانچ اور کارروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات جو تمام معاملات میں مشترک نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ خودکشی کے واقعے کو طالب علم کی ناکامی، امتحانات میں کم نمبرات کا حصول اور تعلیمی قابلیت سے جوڑ کر اس کی سنگینی کو کم کیا جاتا ہے۔2016 میں روہت ویمولا کے خودکشی کے واقعے کو ذاتی افسردگی سے جوڑنے کی بھر پور کوشش کی گئی بلکہ روہت ویمولا کی برادری اور اس کے دلت ہونے پر بھی سوال کھڑا کیا گیا مگر سوال یہ ہے کہ آخر میڈیکل اور آئی آئی ٹی میں ناکام ہونے والوں کا تعلق دلت اور پسماندہ طبقات سے ہی کیوں ہوتا ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے یا پھر یہ بھی نسل پرستی کے سسٹم کا حصہ ہے؟
مشہور ماہر عمرانیات ایمیل درکھیم نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’Le Suicide‘‘ میں بتایا ہے کہ خودکشی صرف انفرادی سوچ کی وجہ سے نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی سماجی وجوہات بھی ہوتی ہیں۔ درکھیم کے مطابق ’’خودکشی معاشرے اور گروہوں کی جانب سے افراد پر ڈالے جانے والے غیر صحت بخش دباؤ کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ جب معاشرہ یا گروہ کسی فرد پر حاوی ہونے لگتا ہے تو متاثرہ شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ زندگی سے آزادی ہی اس کے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ ناامیدی اور افسردگی سماجی حالات کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ سماجی رویے انسان پر غیر صحت مندانہ دباؤ ڈالتے ہیں اور اسے خودکشی پر مجبور کر دیتے ہیں‘‘ درکھیم کے اس خیال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ درشن سولنکی کی خودکشی کی جانچ کرنے والی کمیٹی کے اس موقف میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی کہ سولنکی کی خودکشی کی وجہ اس کی تعلیمی ناکامی ہے۔ سولنکی نے ممبئی آئی آئی ٹی میں محض تین ماہ قبل ہی داخلہ لیا تھا تو پھر مسلسل ناکامی کی بات کہاں سے درست ہو سکتی ہے۔ سولنکی کی ماں بتاتی ہیں کہ میرا بیٹا جب ایک ماہ قبل گھر آیا تھا تب وہ پریشان تھا کیونکہ لگاتار اسے ہراساں کیا جارہا تھا۔ ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ جب جانچ کرنے والی کمیٹیاں حقائق اور بنیادی وجوہات کو نظر انداز کریں گی تو اصل قاتلوں کے گریبانوں تک قانون کے ہاتھ کیسے پہنچیں گے؟ دراصل اکثر آئی آئی ٹی، جے این یو یا دلی یونیورسٹی جیسے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں دلت اور قبائلی طلبا کی نام نہاد ناقص تعلیمی قابلیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایسے طلبا میں اعتماد کا فقدان ہو جاتا ہے۔ روہت ویمولا کے معاملے میں بھی یہی کیا گیا۔ پہلے اس کو ملنے والی اسکالرشپ بند کر دی گئی اور اس کے بعد ادارہ جاتی طور پر پریشان کیا جانے لگا۔ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) دلی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، ایس سی اور ایس ٹی طلباء امتیازی سلوک کی وجہ سے باقاعدگی سے اپنے امتحانات میں ناکام ہو رہے ہیں۔ بی جے پی لیڈر کرت پریم جی بھائی سولنکی کی زیرقیادت ایس سی ایس ٹی ویلفیئر کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ دلت اور قبائلی برادریوں کے طلبا کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کیمپس کا اندرونی ماحول
نسلی بھید بھاو اور ذات پات کی تفریق کے زہر سے ہم سب بخوبی واقف ہیں جو سماجی وجود میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔چنانچہ اونچی ذات کے طلبا اس احساس کے ساتھ ان تعلیمی اداروں میں آتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم پر صرف ان کا حق ہے۔ ریزرو کوٹے سے آنے والے طلبا کو غاصب اور حق تلفی کرنے والے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میرٹ کی کمی کے باوجود ریزرو کوٹے سے آنے والے طلبا اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پہنچ جاتے ہیں جبکہ انہیں اس مقام تک پہنچنے میں کئی گنا زیادہ محنت کرنی پڑی ہے۔ چنانچہ وہ اپنی اس بھڑاس کو ریزویشن کے زمرے سے آنے والے طلبا کی تذلیل، توہین اور انہیں ہراساں کر کے نکالتے ہیں کیونکہ ان کی پرورش اور تربیت ذات پات کے ورثے پر فخر، نچلی ذاتوں بالخصوص دلتوں کے تئیں توہین آمیز ذہنیت کے ماحول میں ہوتی ہے۔ مگر اس ذہنیت اور سوچ پر شروع سے لے کر آخر تک کہیں کوئی چوٹ نہیں لگتی۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں اسکولوں، خاندانوں اور محلوں میں کسی نے بھی انہیں ذات اور طبقاتی مراعات کے بارے میں نہیں بتایا ہوتا ہے کہ وہ کن حالات میں تعلیمی مراحل طے کیے ہوتے ہیں۔ ریزرویشن کوٹے سے آنے والے طلبا کو نہ وسائل میسر ہوتے ہیں نہ مواقع حاصل ہوتے ہیں، وہ بڑی مشکلات عبور کر کے اس منزل تک پہنچتے ہیں۔ اس کے برعکس اونچی ذاتی کے طلبا میں احساس برتری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ریزرویشن کوٹہ بالخصوص دلت و قبائلی طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا کا تعلیمی پس منظر کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ فراوانی سے انگریزی نہیں بول سکتے ہیں، بعض لڑکوں میں افہام وتفہیم کی صلاحیت کم ہوتی ہے جب کہ جنرل کوٹے سے آنے والے بیشتر طلبا کا تعلیمی پس منظر کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ مہنگے اور معیاری انگلش میڈیم اسکولوں کے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ان کی سوچ و فکر کا زاویہ کافی وسیع ہوتا ہے ۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ایسے طلبا کی ذہنی پختگی اور انگریزی دانی میں مہارت پیدا کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کرتے مگر اس طرف توجہ نہیں دی جاتی۔دوسری ادارہ جاتی ناکامی یہ ہے کہ اس طرح کی متضاد سماجی دنیا اور اقدار سے بے بہرہ طلباء جب کیمپس میں ملتے ہیں تو ان کے درمیان ایک دوسرے کے تئیں احساس برتری و کہتری کے جذبات کو ختم کرنے اور اعلیٰ اخلاقی قدروں سے روشناس کرنے کے لیے کوئی موثر و بروقت کوشش نہیں کی جاتی۔ چنانچہ تعلیمی اداروں کے کیمپس کا ماحول تناو کا شکار ہوتا ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ریزرویشن کوٹے سے حاصل ہونے والے طلبا کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر ایک میں دباو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی چنانچہ کچھ طلبا حالات سے تنگ آکر خودکشی جیسے سنگین اقدام پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اپنی نجات کے لیے اسی کو واحد ذریعہ سمجھتے ہیں اور کچھ درمیان میں ہی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں اسی لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ڈراپ آوٹ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
وزارت تعلیم کی رپورٹ کے مطابق 12ویں جماعت میں داخلہ لینے والے دلتوں کا تناسب قومی اوسط سے زیادہ تھا پھر بھی دلت طلباء اعلیٰ تعلیم میں قومی اوسط سے پیچھے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کا قومی اوسط 24.3 فیصد ہے جبکہ دلتوں کا قومی اوسط 19.1 فیصد ہے۔ نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) کے 71ویں دور کے مطالعے کے مطابق 7 سال اور اس سے زیادہ عمر کے بچوں کے لیے قومی خواندگی کی شرح 75.8 فیصد ہے جبکہ اسی عمر کی حد میں دلت بچوں کے لیے خواندگی کی شرح 86.7 فیصد ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ کیمپس کا ماحول نسل پرستانہ ہونے کی ایک بڑی وجہ فیکلٹی ممبران میں دلت، قبائلی اور اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی نمائندگی کم ہونا بھی ہے۔ لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں مرکزی وزارت تعلیم نے بتایا کہ 45 مرکزی یونیورسٹیوں میں درج فہرست ذات یا قبائل سے تعلق رکھنے والا صرف ایک وائس چانسلر ہے۔ اس کے علاوہ اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ کے لیے 8,668 امیدواروں میں 5,247 کا تعلق عام زمرہ سے، 1240 کا تعلق ایس سی سے اور 490 کا تعلق ایس ٹی سے تھا جبکہ 1,567 کا تعلق او بی سی سے تھا۔
مرکزی تعلیمی اداروں میں 7.5 فیصد سیٹیں ایس ٹی، 15 فیصد ایس سی، 27 فیصد او بی سی اور 10 فیصد ای ڈبلیو ایس (معذورین) کے لیے مختص ہیں۔ اس فارمولے کی بنیاد پر 45 مرکزی یونیورسٹیوں میں 15,00 پروفیسروں میں سے کم از کم 75 درج فہرست قبائل سے ہونے چاہئیں لیکن صرف 15 ہی ہیں۔ درج فہرست ذاتوں سے کم از کم 151 پروفیسر ہونے چاہئیں لیکن صرف 69 ہیں۔ بسا اوقات ان اعلی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو بھی نسل پرستانہ فقروں اور تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک۔دلت اور قبائلی طلبا میں ڈراپ آوٹ کی شرح وزارت تعلیم کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق آئی آئی ٹی سے ڈراپ آوٹ ہونے والے 2.461 طلبا میں سے 1,171 طلبا کا تعلق ایس سی، ایس ٹی اور دیگر پسماندہ طبقات سے ہے۔اسی طرح آئی آئی ایم سے ڈراپ ہونے والے کل 99 طلبا میں سے 14 ایس سی، 21 ایس ٹی اور 27 کا او بی سی سے تعلق ہے۔اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے ایک تجزیہ میں کہا گیا ہے ملک کے سات آئی آئی ٹی اداروں میں انڈر گریجویٹ کورس سے ڈراپ آؤٹ ہونے والوں میں سے تقریباً 63 فیصد کا تعلق ریزرو زمرے سے ہے جن میں تقریباً 40 فیصد ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹیز سے ہیں۔NIT اتراکھنڈ، ورنگل اور کالی کٹ میں ڈراپ آؤٹ کا فیصد سب سے زیادہے۔ ملک بھر کی طلباء تنظیمیں اور ماہرین تعلیم ملک کے نامور اداروں سے طلباء کے انڈر گریجویٹ کورسز چھوڑنے والوں کی تعداد کا تجزیہ کرنے کے بعد جو رپورٹ مرتب کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ درمیان میں تعلیم چھوڑنے والوں میں سے 90 فیصد طلبا نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے درمیان تعلیم چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ کیمپس کا نسل پرستانہ ماحول ہے جبکہ دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ ریزرو سیٹیں خالی رہ جاتی ہیں۔ راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں وزارت تعلیم کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کم از کم 683 ایس سی سیٹیں، 831 ایس ٹی سیٹیں اور 591 او بی سی سیٹیں نہیں بھری گئیں۔ 2016 سے 2020 تک سنٹرل فنڈڈ ٹیکنیکل انسٹیٹیوشنز (CFTIs) اسی مدت کے دوران کل 619 ایس سی، 365 ایس ٹی اور 847 او بی سی طلبا نے درمیان میں تعلیم چھوڑی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر درمیان میں تعلیم چھوڑنے کی وجوہات کیا ہیں اور اس کے تدارک کا راستہ کیا ہے تاکہ ڈراپ آوٹ کرنے والوں کی تعداد میں کمی لائی جا سکے؟ ماہرین تعلیم اور دلت طلبا میں کام کرنے والے ارون کمارتے بتاتے ہیں کہ ڈارپ آوٹ کی شرح کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔مختلف اداروں میں درمیان میں تعلیم چھوڑنے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں مگر تعلیم چھوڑنے والوں میں اکثریت کا تعلق مخصوص طبقات سے ہونا یہ اشارہ کرتا ہے کچھ ایسی وجوہات ہیں جو دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات کو درمیان میں تعلیم چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک، مالی مسائل، اشرافیہ اور انگریزی زبان تعلیم چھوڑنے کی بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اداروں کو پسماندہ طلباء کی مدد کے لیے سازگار اور جامع ہونا چاہیے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے ایک ایکشن پلان ہونا چاہیے۔اس کے ساتھ ہی ریزرویشن ایکٹ کو صحیح طریقے سے نافذ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ایس سی طلباء کی 15 فیصد، ایس ٹی کی 7.5 اور او بی سی طلبا کی 27 فیصد ریزرو سیٹیں کیوں خالی رہ جاتی ہے اس کا بڑے پیمانے پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی گروپس کے طلباء کی فلاح و بہبود کے لیے خصوصی سیل قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنے مسائل اور مشکلات کو آسانی سے حل کرسکیں۔
راجیہ سبھا کے سابق رکن اور ممبئی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر بھالچندر منگیکر بتاتے ہیں کہ فیکلٹی کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان طلباء کے پاس اعلیٰ ذاتوں کی طرح تعلیم حاصل کرنے کے وسائل نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اعلیٰ ذات کے طلباء کی طرح معیاری تعلیمی اداروں اور کوچنگ سنٹروں سے ٹریننگ لے کر نہیں آتے۔ انگریزی زبان بھی چھوڑنے والوں کے مسائل میں سے ایک ہے۔ دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے بہت سے نچلی ذات کے طلباء انگریزی میں اچھے نہیں ہوتے۔ وہ انگریزی میں لیکچر کو نہیں سمجھ پاتے۔ انہیں اضافی کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ انگریزی زبان کی عادت ڈالیں۔ لیکن ایک بڑی وجہ عام زمرے کے طلباء کی طرف سے امتیازی سلوک اور سخت بیگانگی ہے۔ کوٹے کے تحت داخلہ ملنے کا حوالہ دے کر انہیں اکثر ہراساں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ طلبا نفسیاتی دباو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ارون کمار بتاتے ہیں کہ ہر طالب علم کو مناسب نفسیاتی اور تعلیمی مشاورتی پروگرام دیے جائیں۔ فیکلٹی کو گریڈز اور نمبرز کا جائزہ لینے اور دینے کے دوران ان کے سماجی و اقتصادی پس منظر کو مدنظر رکھنا چاہیے لیکن یہاں تقرریوں میں کمپنیاں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور جسمانی طور پر معذور افراد پر صرف اونچی ذات والوں کو ترجیح دیتی ہیں۔
درشن سولنکی کی خودکشی کے بعد دو ہفتے قبل نیشنل اکیڈمی آف لیگل اسٹڈیز اینڈ ریسرچ (NALSAR) کے کانوکیشن سے خطاب کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے طلبا کے خودکشی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمارے ادارے کہاں غلط ہو رہے ہیں کہ طلباء اپنی جان لینے پر مجبور ہیں‘‘ آئی آئی ٹی بمبئی میں دلت طالب علم درشن سولنکی کے خودکشی کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں جن میں پسماندہ طبقات کے افراد شامل ہیں۔ ججوں کو کمرہ عدالت کے باہر کی دنیا کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سماجی تبدیلی کے لیے سماج سے مکالمہ کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں میں نے آئی آئی ٹی بمبئی میں ایک دلت طالب علم کی خودکشی کے بارے میں پڑھا اس نے مجھے گزشتہ سال اڈیشہ کی نیشنل لا یونیورسٹی میں ایک آدیواسی طالب علم کی خودکشی کے واقعہ کی یاد دلا دی۔ میرا دل ان طلباء کے اہل خانہ کے ساتھ ہے لیکن میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ادارے کہاں غلط ہو رہے ہیں کہ طلباء اپنی قیمتی جان دینے پر مجبور ہو رہے ہیں؟‘‘
چیف جسٹس آف انڈیا خودکشی کے واقعات کے لیے طلبا کو ذمہ دار ٹھیرانے کے بجائے تعلیمی اداروں کے نظام اور سسٹم پر سوالات کھڑے کر رہے ہیں اور بین السطور میں تعلیمی اداروں کو اپنے نظام اور سسٹم کا جائزہ لینے کی نصیحت کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا کی یہ آواز کہاں تک سنی جائے گی اور کیا اس سے پسماندہ گروپوں کے طلباء کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر پڑے گا؟ ذات پات کی تفریق ہماری روزمرہ کی زندگی میں اور ہر جگہ موجود ہے۔ آج بھی بہت سارے پڑھے لکھے افراد پسماندہ برادریوں کے طلباء کے خلاف برہمی کے جذبات رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میرٹ کی کمی کے باوجود اس گروپ کو مواقع مل جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ریزرویشن مخالف پوسٹیں بھری ہوئی ہیں مگر ان میں سے شاید ہی کوئی تعلیم کے پرائیوٹائزیشن کے خلاف اپنی تشویش کا اظہارکرتا ہے۔تعلیم کے پرائیوٹائزیشن نے میرٹ کی جگہ دولت نے لے لی ہے۔ جن کے والدین کے پاس بھاری بھرکم فیس ادا کرنے کی دولت ہے ان کے لیے ترقی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں چاہے میرٹ ہو یا نہ ہو۔ ریزرویشن پر تنقید کرنے کے بجائے ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کو مکمل طور پر ختم کرنے پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ دلت طلبا کی خودکشیاں اعلی تعلیمی اداروں، انتظامیہ اور فیکلٹی کی ناکامی ہے اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ ان کی سماجی، علمی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ دلت طلبا کو گھر میں رہنے کا احساس دلائیں، ان کا استقبال کریں اور انہیں یقین دلائیں کہ ادارہ ان کا بھی اتنا ہی ہے جتنا اعلیٰ ذات کے طلباء کا ہے۔
راجیہ سبھا کے سابق رکن اور ممبئی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر بھالچندر منگیکر بتاتے ہیں کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مستقبل میں درشن سولنکی نہ ہو، ان اداروں کو یکسر بدلنا ہوگا۔ اونچی ذات کے طلباء اور فیکلٹی کو دلتوں اور دوسروں کے ساتھ ہونے والی تاریخی سماجی ناانصافیوں اور جبر سے آگاہ کرنے کے لیے لازمی حساسیت کے پروگرام اور ورکشاپس منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک معاشرہ میں ذات پات کی بنیاد پر درجہ بندی باقی ہے، ان اداروں میں دلت طلباء کے ساتھ امتیازی سلوک ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس طرح اس وقت ہمیں متحرک، زیادہ آواز والی، زیادہ دکھائی دینے والی اور زیادہ شراکت دار سماجی تحریک کی ضرورت ہے جو حکومت کی اعانت سے چلنے ولے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر دلت طلباء اور دیگر کے جائز دعوے کا مسلسل مطالبہ کرتی رہے۔
1942 میں بی آر امبیڈکر نے کینیڈا میں انسٹیٹیوٹ آف پیسیفک ریلیشنز کے انڈین سیکشن کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ذات پات پرستی سامراج سے زیادہ خطرناک ہے اور جب تک ذات پرستی کو ختم نہیں کیا جاتا بھارت میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ جدوجہد آزادی میں اگر کوئی سچی آزادی چاہتا ہے تو وہ دلت طبقے کے لوگ ہیں‘‘
***

 

***

 اونچی ذات کے طلبا اس احساس کے ساتھ ان تعلیمی اداروں میں آتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم پر صرف ان کا حق ہے۔ریزرو کوٹے سے آنے والے طلبا کو غاصب اور حق تلفی کرنے والے کے طور پر دیکھتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میرٹ کی کمی کے باوجود ریزرو کوٹے سے آنے والے طلبا اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پہنچ جاتے ہیں۔جب کہ انہیں اس مقام تک پہنچنے میں کئی گنا زیادہ محنت کرنی پڑی ہے۔چنانچہ وہ اپنی اس بھڑاس کو ریزویشن کے زمرے سے آنے والے طلبا کی تذلیل، توہین اور انہیں ہراساں کر کے نکالتے ہیں کیونکہ ان کی پرورش و تربیت ذات پات کے ورثے پر فخر، نچلی ذاتوں بالخصوص دلتوں کے تئیں توہین آمیز ذہنیت کے ماحول میں ہوتی ہے مگر اس ذہنیت اور سوچ پر شروع سے لے کر آخر تک کہیں کوئی چوٹ نہیں لگتی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023