سسٹم میں گھٹتی نمائندگی دلتوں پرمظالم میں اضافہ کی اہم وجہ

دلتوں کے خلاف جرائم میں بے تحاشہ اضافہ مگر جیلوں میں بھی دلت ہی زیادہ ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار میں ہوا انکشاف

افروز عالم ساحل

اترپردیش میں انتخابی بگل بج چکا ہے۔ یہاں کے دلت ووٹروں پربی جے پی کی خاص نظر ہے۔ ان کے ووٹ حاصل کرنے بی جے پی لیڈر دلت بستیوں کا دورہ کر رہے ہیں، ان کی ترقی کے لیے بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے جا رہے ہیں، وہیں سرکاری اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں دلتوں کے ساتھ جرائم کے معاملات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور جیلوں میں بھی ان ہی کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس معاملے میں اتر پردیش ہی پہلے مقام پر ہے۔

یہ اہم معلومات کسی این جی او یا خانگی تنظیم نے جاری نہیں کیں بلکہ وزارت داخلہ نے راجیہ سبھا میں یہ معلومات ایک سوال کے جواب میں تحریری شکل میں دی ہیں۔ وزارت داخلہ نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے حوالے سے ۱۷ مارچ ۲۰۲۱ کو راجیہ سبھا میں یہ اعداد وشمار فراہم کیے تھے۔ یہ اعداد وشمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دلتوں کے ساتھ مظالم کے واقعات کم ہونے کے بجائے ہر سال بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ یہ وہی دلت ہیں جنہیں پہلے اچھوت کہا جاتا تھا، یہ ہندوستان کی کل آبادی کا 16.6 فیصد ہیں۔ وہ اب سرکاری اعداد وشمار میں ’شیڈولڈ کاسٹ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2019 میں درج فہرست ذاتوں کے خلاف جرائم کے معاملات میں 7.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ سال 2018 میں 42,793 مقدمے درج ہوئے وہیں سال 2019 میں 45,935 مقدمے درج ہوئے ہیں۔ اس طرح دلتوں کے خلاف ہر روز ظلم وستم کے 129 مقدمات درج ہوتے ہیں۔

پورے ملک میں درج فہرست ذاتوں کے خلاف جرائم کے تحت درج مقدمات کی تعداد

جہاں تک ریاستوں کا معاملہ ہے اس میں اتر پردیش پہلے مقام پر ہے دوسرے مقام پر بہار اور تیسرے مقام پر راجستھان ہے۔ چوتھا اور پانچواں مقام مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کا ہے۔

جیلوں میں بڑھتی دلت آبادی

غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف دلتوں کے ساتھ جرائم کے معاملات میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف جیلوں میں بھی انہی کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان کی جیلوں میں درج شدہ ذات (ایس سی) کے قیدیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ خصوصاً پچھلی حکومت کے مقابلے میں موجود حکومت میں جیلوں میں زیر سماعت مقدموں کے قیدیوں کی تعداد میں قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے۔ واضح ہو کہ ملک کی کل آبادی کا 21.17 فیصد حصہ درج فہرست ذات (ایس سی) ہیں۔

واضح رہے کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ہندوستان کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ تعداد میں قیدی رکھے گئے ہیں۔ سال 2019 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی 1,350 جیلوں میں 4,03,739 قیدیوں کو رکھا جاسکتا ہے لیکن 31 دسمبر 2019 تک کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 4,78,600 ہے۔ ان میں سے 1,44,125 قیدی سزا یافتہ ہیں جبکہ 3,30,487 یعنی 69.05 فیصد زیر دریافت قیدی ہیں۔ صرف شک کی بنیاد پر گرفتار کیے گئے لوگوں کی تعداد 3,223 ہے۔ وہیں 765 ایسےافراد جیلوں میں موجود ہیں جن کے بارے میں جیل انتظامیہ کو خود نہیں معلوم کہ وہ کیوں قید کیے گئے ہیں۔

سسٹم میں گھٹتی نمائندگی ہے اصل وجہ

ہفت روزہ دعوت نے ڈاکٹر منیشا بانگر سے جو گزشتہ ۲۰ سالوں سے ہندوستان میں پسماندہ طبقات کے شہری حقوق کی لڑائی لڑ رہی ہیں ملک میں دلتوں کے خلاف جرائم کے معاملات میں ہونے والے اضافہ کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے بتایا کہ ملک کے دلتوں، آدیواسیوں، دیگر پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے جرائم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سسٹم میں ان کی نمائندگی نہیں ہے۔ اس ملک میں ایس سی ایس ٹی قانون تو موجود ہے لیکن اس قانون کو نافذ کرنے والی جو مشینری ہے اس میں ایس سی ایس ٹیز کہیں نہیں ہیں۔ پولیس اسٹیشن یا پولیس ڈپارٹمنٹ میں ان کی نمائندگی نہیں ہے۔ عدلیہ میں ان کی تعداد بھی غور کرنے کے لائق ہے۔

ڈاکٹر منیشا بانگر مزید کہتی ہیں کہ دلتوں کے خلاف ظلم اور تشدد کرنے والوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی (دلتوں کی) سننے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کی رپورٹ لکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کو انصاف دینے اور دلانے والا کوئی نہیں ہے۔ اس سے ان ظالموں کا حوصلہ مزید بڑھتا ہے۔ اگر سرکاری شعبوں میں دلتوں کی نمائندگی ہوتی تو انہیں اس کا ڈر ہوتا۔ لیکن افسوس کہ نمائندگی بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے اور جب تک نمائندگی نہیں ہو گی تب تک ان کے ساتھ ہونے والے جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

۹۰ فیصد معاملے تو درج ہی نہیں ہوتے

ڈاکٹر منیشا بانگر ہاتھرس کے کیس کے حوالے سے کہتی ہیں کہ ’پہلے تمام ثبوتوں کو ختم کردیا گیا بلکہ اصل کہانی کو ہی بدل دیا گیا اور سب کچھ مقتولہ کے گھر والوں کے اوپر ہی ڈال دیا گیا۔ انصاف پسند لوگوں کو وہاں پہنچنے سے روکا گیا۔ مقتولہ کے بھائی پر ہی الزام لگایا گیا کہ اس نے ہی اس کا قتل کیا ہے۔ گھر والوں کو طرح طرح کی دھمکی دی گئی۔ آپ اس کیس پر غور کریں گے تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اس ملک میں دلتوں کے لیے آج بھی اپنے اوپر ہوئے ظلم کی رپورٹ درج کرانا یا انصاف پانا کتنا مشکل ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ دلتوں پر ظلم کے واقعات اسی وقت منظر عام پر آتے ہیں جب وہ انتہائی غیر معمولی نوعیت کے ہوں مثلاٌ گینگ ریپ یا قتل وغیرہ ورنہ چھوٹے موٹے جرائم یا بھید بھاؤ کا تو کہیں ذکر بھی نہیں ہوتا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ صرف نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے جاری کردہ اعداد وشمار سے ہی اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ ملک میں دلتوں کے خلاف ظلم اور ناانصافی ہو رہی ہے۔ یہ اعداد وشمار تو اصل اعداد وشمار کے شاید دس فیصد بھی نہیں ہوں گے کیونکہ زیادہ تر معاملے تو درج ہی نہیں ہوتے اور نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو تو درج شدہ معاملوں کی بنیاد پر ہی اعداد وشمار پیش کرتا ہے۔

ہندو مذہب میں ہے انسانوں کے درمیان نا برابری

ڈاکٹر منیشا بانگر کہتی ہیں کہ سارے مسائل ہندو مذہب میں ہی ہیں۔ اگر ایک دلت بچہ مندر میں جا کر پانی پی لے تو ان کا ’دھرم‘ خطرے میں آ جاتا ہے چنانچہ وہ اس معصوم بچے کے ساتھ مار پیٹ کر کے اس کو لہولہان کر دیتے ہیں اور پھر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ایسا کر کے انہوں نے اپنے ’دھرم‘ کی ’رکشا‘ کی ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اس مذہب میں ہی انسانوں کے درمیان نا برابری ہے۔ آج کے دور میں بھی اس ملک میں دلت تقریباً ۵۰ قسم کے بائیکاٹ کا سامنا کر رہے ہیں۔ دلت ان کے سامنے پان نہیں چبا سکتے، ان کے سامنے بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے، اپنی شادی میں گھوڑی پر نہیں چڑھ سکتے، ان کے سامنے سائیکل نہیں چلا سکتے، ان کے سامنے چپل نہیں پہن سکتے، مونچھ نہیں رکھ سکتے، لڑکیاں ان کے سامنے فراک نہیں پہن سکتیں، کالج نہیں جا سکتیں، موبائل پر بات نہیں کر سکتیں وغیرہ۔ آخر ان کو دلتوں کی کس بات سے تکلیف ہے اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ اور یہ سب کچھ ان کا ’دھرم‘ سکھاتا ہے۔

آپ کو معلوم ہو کہ اس ملک میں Untouchability (Offences) Act, 1955 بھی موجود ہے جس کا بعد میں نام تبدیل کر کے پروٹیکشن آف سِول رائٹس ایکٹ کر دیا گیا۔ اس کے تحت بھید بھاؤ یا چھوت چھات کے استعمال اور اسے فروغ دینے والے معاملوں میں سزا مقرر ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ کے تحت شاید ہی ہمارے ملک کے پولیس اسٹیشنوں میں معاملے درج ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر منیشا بانگر کہتی ہیں کہ ’دھرم‘ میں تبدیلی یا ریفارم لانے کا کام ملک کے نام نہاد سیکولر اور لبرل لوگوں کا تھا لیکن وہ ’دھرم‘ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ’ہندوازم‘ کو بہتر اور ’ہندوتوا‘ کو غلط بتانے لگے۔ لیکن میری نظر میں ’ہندوازم‘ اور ’ہندوتوا‘ دونوں ایک ہی چیز ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور سچ پوچھے تو اصل مسئلہ ہندوازم‘ میں ہی ہے، ’ہندوتوا‘ تو اسی کا ’پرتشدد روپ‘ ہے۔

یہ اعداد وشمار مزید بڑھیں گے، مایوس ہونے کی ضرورت نہیں

پی یو سی ایل سے وابستہ سماجی کارکن اور آزاد صحافی بھنور میگھ ونشی ملک میں دلتوں کے خلاف جرائم کے معاملات میں اضافہ کو ایک مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ دلتوں میں بیداری آ رہی ہے جس کے نتیجے میں معاملے تھانوں اور عدالتوں تک پہنچ رہے ہیں۔ پہلے اپرکاسٹ کے لوگ ان پر ظلم کرتے تھے اور یہ برداشت کر لیتے تھے لیکن اب ان پر ہونے والا ظلم ریکارڈ میں آنے لگا ہے اور ان کے پاس جتنا دم ہے لڑ رہے ہیں۔ یہ بڑھتے ہوئے اعداد وشمار دلتوں کی جدوجہد کا مظہر ہیں بلکہ مجھے لگتا ہے کہ اس جدوجہد سے ہی ان کا راستہ نکلے گا۔ ان کی جو جدوجہد ہے وہ مزید تیز ہو گی۔ ہم جتنا اپنے حق کا مطالبہ کریں گے وہ اتنا دبانے کی کوشش کریں گے، اس میں یہ سوچ کر چلنا ہو گا کہ یہ ٹکراؤ مزید سختی اختیار کرے گا۔ ان اعداد وشمار میں فی الحال کمی آنے والی نہیں ہے بلکہ یہ مزید بڑھیں گے لیکن ہم ان کے بڑھنے سے مایوس ہیں اور نہ ہی پریشان اور یہ ہماری جدودجہد اور شعور کا نتیجہ ہے۔

 

***

 ایک طرف ملک میں پسماندہ طبقات کو تحفظ فراہم کرنے کی بات ہو رہی ہے تو وہیں دوسری طرف آئے دن ملک میں دلتوں کے ساتھ مارپیٹ کی خبریں آتی ہیں ۔ایس سی، ایس ٹی اور اقلیتوں کے خلاف تشدد تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ تازہ معاملہ مدھیہ پردیش کے نیمچ سے آیا ہے۔ اس واقعہ میں ظلم کی تمام حدیں پار کر دی گئیں۔ یہاں ایک قبائلی نوجوان کو پہلے معمولی جھگڑے میں بری طرح مارا پیٹا گیا اور اس کے بعد اسے پک اپ سے باندھ کر گھسیٹا گیا۔ اس واقعے کے بعد اسے اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں علاج کے دوران اس کی موت ہوگئی۔

اس معاملے میں پولیس نے آٹھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ خبر لکھے جانے تک دو اہم ملزمان سمیت دو دیگر افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دیگر ملزمان کی تلاش جاری ہے۔ پولیس نے پک اپ کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

پولیس کے مطابق، "قبائلی نوجوان کنہیا لال بھیل (35) کچھ لوگوں کے ساتھ اپنے گاؤں جا رہا تھا۔ اسی دوران اس کی موٹر سائیکل گوجر سماج کے ایک شخص سے ٹکرا گئی۔ اس پر علاقے کے دبنگ گوجر برادری کے لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے کنہیا لال کو مارنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد اسے پک اپ گاڑی سے باندھ کر گھسیٹا گیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا گیاہے کہ کس طرح وہ قبائلی نوجوان مسلسل ان لوگوں سے معافی مانگ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگ مسلسل مار پیٹ کر رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ کنہیا لال کو مارنے پیٹنے اور گھسیٹنے کے بعد گوجر برادری کے لوگوں نے ہی پولیس کو فون کیا اور بتایا کہ انہوں نے ایک چور کو پکڑا ہے۔ اس کے بعد پولیس موقع پر پہنچی اور کنہیا لال کو اپنے ساتھ لے گئی۔ اسے علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ، جہاں وہ دم توڑ گیا۔

مدھیہ پردیش میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل دیواس، ستنا اور اندور میں بھی لوگوں نے سڑکوں پر اپنی حیوانیت دکھائی۔ اسی 27 اگست کو دیواس کے بورلی گاؤں میں بسکٹ بیچنے والے 45 سالہ مسلمان ہاکر زاہد خان کو مبینہ طور پر دو نامعلوم افراد نے زد و کوب کیا۔ ان دونوں افراد نے انھیں روکا اور ان سے ان کا آدھار کارڈ مانگا، لیکن جب انہوں نے آدھار کارڈ نہیں دکھایا تو انہیں بے رحمی نے مارا پیٹا گیا۔اس سے قبل مدھیہ پردیش کے ستنا ضلع میں ایک 20 سال کے نوجوان دیپک سنگھ کے ساتھ بھی غیر انسانی سلوک کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس نوجوان کو اغوا کیا اور اس پر شدید تشدد کیا۔ اسے لاتوں اور گھونسوں سے نہ صرف مارا گیا بلکہ اس نوجوان کو ندی میں ڈبانے کی کوشش بھی کی گئی۔ غنڈوں نے متاثرہ شخص کی پٹائی کی ویڈیو بھی بنائی جو کہ شدید وائرل ہو رہی ہے۔ یہی نہیں، اسی ستنا میں اسی طرح کا معاملہ 15 اگست کو بھی سامنے آیا تھا۔ اس میں بھی ایک نوجوان کو اغوا کر کے مارا پیٹا گیا۔ بھر اسے تھوک چاٹنے اور جوتے پر ناک رگڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ نوجوان کا تعلق دلت برادری سے تھا۔

ابھی کچھ دن پہلے مدھیہ پردیش کے تجارتی دارالحکومت اندور میں بھی چوڑی بیچنے والے تسلیم کی پٹائی کا واقعہ پوری دنیا نے دیکھا ہے۔ اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے مارا پیٹا گیا۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جس لڑکے کو مارا پیٹا گیا ، پولیس نے اس کے خلاف 9 دفعات کے تحت پوکسو ایکٹ ، چھیڑ چھاڑ اور 420 کے تحت مقدمہ درج کیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021