کونسل آن امیریکن اسلامک ریلیشنز کے حق میں بڑا فیصلہ؛

نفرت انگیز خاتون لورا لومر کو عدالت کی سخت پھٹکار

(دعوت دلی بیورو)

ذلت آمیز خفت کا سامنا۔سی اے آئی آر کو ایک لاکھ 25 ہزار ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم
دائیں بازو کی شدت پسند کارکن لورا لومر کو ایک بار پھر ذلت آمیز خفت کا سامنا کرنا پڑا، محترمہ لومر کو امریکی – اسلامی تعلقات کونسل (سی اے آئی آر) کو ایک لاکھ 25 ہزار ڈالر بطور جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا کیوں کہ وفاقی جج نے ان کے خلاف فیصلے کو کالعدم کرنے سے انکار کر دیا۔ واضح رہے کہ فاضل جج نے محترمہ لومر کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے وکلاء کے ذریعہ واضح ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہنے کے بعد سابقہ فیصلے کو برقرار رکھا۔
ڈیلی بیسٹ کے زیکری پیٹرزون نے 30 ستمبر کو محترمہ لومر کے خلاف دائر مقدمے کے تعلق سے رپورٹ کیا ہے کہ دائیں بازو کی شدت پسند کارکن لورا لومر کو عدالت سے ایک بار پھر کرارا دھچکا لگا ہے، ان کے مقدمے کی سماعت کرنے والے وفاقی جج نے ان کے خلاف فیصلے کو کالعدم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس فیصلے کا واضح مطلب یہ ہے کہ انہیں امریکی – اسلامی تعلقات کونسل (سی اے آئی آر) کو بطور جرمانہ ایک لاکھ 25 ہزار ڈالر ادا کرنا ہوگا۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے محترمہ لومر نے ہی سی اے آئی آر کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ اس تنظیم نے ٹوئٹر کے ساتھ ساز باز کرکے ان کے اکاؤنٹ کو غیر فعال کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے سی اے آئی آر کے خلاف محاذ کھول دیا تھا جس میں انہیں سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کا نتیجہ ذلت آمیز ہزیمت پر ختم ہوا۔
وفاقی عدالت نے مقدمہ یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ وہ اپنے دعوؤں کی حمایت کرنے کے لیے ’’واضح حقائق فراہم کرنے‘‘ میں ناکام رہی ہیں، فیصلے میں مزید کہا گیا کہ لومر نے فریق مخالف (سی اے آئی آر) کو قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ ہراساں کرنے کی کوشش کی اور اپنا دفاع کرنے میں پوری طرح ناکام رہیں جس کی پاداش میں انہیں سی اے آئی آر کو مکمل قانونی اخراجات کی ادائیگی کرنی ہوگی، اور اس کی ایک وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ ان کی منشا عدالت کی نظر میں ’سوالوں کے گھیرے‘ میں ہے۔
دفاعی وکیل کے مطابق، محترمہ لومر کا مقدمہ ایک لطیفہ یا مزاح سے زیادہ کچھ نہیں ہے، جس میں انٹرنیٹ کا مزاق اڑانے والے یا انٹرنیٹ پر مزاح کرنے والے دو صارفین نے ان کے ساتھ فون اور ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے بات چیت کی تھی، اور انہیں یہ باور کرایا تھا کہ وہ ٹویٹر کے ’وِزل بلوور‘ ہیں جنہیں اندرونی طور پر یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ سی اے آئی آر نے سوشل میڈیا کی سب سے بڑی کمپنی ٹویٹر کو متاثر کرکے یا ٹویٹر کے اعلی حکام کے ساتھ سازباز کرکے ان کے اکاؤنٹ کو بلاک کروایا ہے۔
محترمہ لومر، جو خود کو سفید فام قوم پرستی کے حامی کے طور پر باور کراتی ہیں، اس سے قبل 2017 میں بھی ایک بڑا تنازع کھڑا کر دیا تھا۔ اس تنازع کی وجہ سے مسافر گاڑیوں کی خدمات فراہم کرنے والی بین الاقوامی کمپنی اوبر اور لفٹ پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ انہوں نے ان کمپنیوں کے خلاف انتہائی نفرت انگیز مہم چھیڑ دی تھی۔ انہوں نے لکھا تھا ’’ میں کبھی بھی دوسرے اسلامی تارکین وطن ڈرائیور کی حمایت نہیں کروں گی کیوں کہ اوبر اور لفٹ جیسی کمپنیاں ان مسلم تارکین وطن کی مدد کر رہی ہیں اور اسے ایک طرح سے اسلامی شکل دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ایک سال بعد، انہیں امریکی ایوان بالا کی خاتون نمائندہ و ممتاز سماجی کارکن الہان عمر کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانے کے لیے ٹویٹر سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا تھا- اس کے بعد انہوں نے ٹوئٹر کے نیویارک سٹی آفس کے سامنے بطور احتجاج خود کو ہتھکڑیاں لگاکر مظاہرہ کیا تھا اور اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لیے کئی طرح کی تدبیریں کی تھیں۔
اس واقعے کے بعد بھی وہ تنازعات پیدا کرنے میں پیچھے نہیں رہیں۔ انہوں نے کانگریس میں نمائندگی حاصل کرنے کے لیے بھی دو ناکام کوششیں کیں – پہلی ریپبلکن لوئس فرینکل کانگریشنل ڈسٹرکٹ کے انتخاب میں جس میں ٹرمپ کی مار-اے-لاگو رہائش گاہ شامل ہے، کو چیلنج کرتے ہوئے اور دوسری کوشش ڈینیل ویبسٹر کے نمائندے کے خلاف الزام تراشی کرکے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے کی تھی ۔وہ یہ دعویٰ کرکے ان پر حملہ آور ہوئیں کہ وہ لائف الرٹ مانیٹر کا استعمال کرتے ہیں جو امریکی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے لیکن ان دونوں ہی کوششوں کے نتیجے میں انہیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔
جب انہیں اپنے دوسرے انتخابی دوڑ میں شکست اور ہزیمت اٹھانی پڑی، تو انہوں نے ووٹروں پر ہی مبینہ طور پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کردیا اوروہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئیں کہ ووٹروں نے انہیں مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے روتے بلکتے ہوئے کہا ’’میں یہ تسلیم نہیں کر سکتی، کیونکہ میں ایک فاتح ہوں! حقیقت یہ ہے کہ ہماری ریپبلکن پارٹی اپنی جڑوں سے اکھڑ چکی ہے اور اس کی بنیادیں کمزور پڑ گئی ہیں!‘‘
متنازع شخصیت لورا لومر کون ہیں؟
قارئین دعوت کو یہ بتاتے چلیں کہ لورا الزبتھ لومر ایک امریکی شہری ہیں اور ان کا شمار مہذب معاشرے میں دائیں بازو کی انتہا پسند اور مسلم مخالف سیاسی کارکن کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اسلام مخالف پروپیگنڈہ اور مسلم تنظیموں کے خلاف زہرافشانی ان کا شیوہ رہا ہے۔ اپنے اس طرز عمل کی وجہ سے وہ ایک خاص طبقے میں مقبول ہیں لیکن عام طبقہ ان کے مفاد پرستانہ عزائم سے باخبر ہے اور ان کی سستی شہرت کی خواہش سے بخوبی واقف بھی ہے۔ امریکی – اسلامی تعلقات کونسل (سی اے آئی آر) کے خلاف بھی انہوں نے محاذ آرائی کی کوشش کی لیکن اس بین الاقوامی تنظیم نے ان کی نفرت انگیز مہم کو نہ صرف کامیابی سے کچل دیا بلکہ ’پلانٹیڈ کیسز‘ کی ان کی عادت کا انہیں کرارا جواب بھی دیا اور ان کے خلاف قانونی چارہ کرکے ان پر خطیر رقم کا جرمانہ عائد کرواتے ہوئے ان کا دماغ ٹھکانے پر بھی لگا دیا۔ وہ دائیں بازو کے کئی میڈیا اداروں سے بھی وابستہ ہیں جس میں وہ ایک خاص طبقے کے خلاف رپورٹنگ اور پروپیگنڈہ پھیلانے کے لیے کام کرتی ہیں۔ محترمہ لومر پروجکٹ ویریٹاز، دا ریبل میڈیا، انفو وارس جیسے دائیں بازو کے اداروں کے لیے کام کرتی ہیں اور یہ تمام ادارے انتہا پسندی پھیلانے اور دائیں بازو کے نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے جانے جاتے ہیں۔
سی اے آئی آر کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
دی کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) ایک غیر منافع بخش اور شہریوں کے حقوق اور انہیں درپیش مسائل کے حل کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہے۔ سی اے آئی آر امریکہ میں مسلمانوں اور جمہوریت کے دفاع کے کاز کے لیے کام کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ہے، جس کے ملک بھر میں دفاتر ہیں۔ اس کا قومی ہیڈکوارٹر واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہل پر واقع ہے۔
سی اے آئی آر امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کی مثبت تصویر پیش کرنے کے لیے انتہائی جانفشانی کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ میڈیا سے گرم جوشانہ تعلقات، مثبت افکار کی ترویج و اشاعت، تعلیم اور قانونی امداد کے ذریعے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتی ہے کہ مسلمانوں کی پورے ملک میں حساس طریقے سے نمائندگی کی جائے۔ سی اے آئی آر امریکی مسلمانوں کو بااختیار بنانے اور سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں ان کی شرکت کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے جس کے باعث اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
سی اے آئی آر کا سب سے بڑا کارنامہ شہریوں کو ان کا جائز حق دلانا، مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی نفرت انگیز مہم کا قلع قمع کرنا اور ملک کے دیگر شہریوں کی جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنا اور ان کی وکالت کرنا ہے جنہیں مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے یا جنہوں نے ہتک عزت یا نفرت انگیزی کا سامنا کیا ہے۔ یہ تنظیم امریکی مسلمانوں کے آئینی حقوق کے تحفظ اور دفاع کے لیے کام کرتی ہے اور تمام امریکیوں کے حقوق کی حمایت کرتی ہے۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022