مرکز کی طرف سے تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کالیجیم نے جسٹس ایس مرلی دھر کو مدراس ہائی کورٹ منتقل کرنے کی تجویز کو دہرایا
نئی دہلی، اپریل 20: سپریم کورٹ کے کالجیم نے جمعرات کو مرکز کی طرف سے تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس مرلی دھر کو مدراس ہائی کورٹ منتقل کرنے کی اپنی تجویز کو دہرایا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرقیادت کالجیم نے ایک قرارداد میں کہا کہ اس نے ستمبر میں جسٹس مرلی دھر کے تبادلے کی تجویز پیش کی تھی۔
کالجیم نے کہا کہ ’’سفارش اس وقت سے حکومت ہند کے پاس بغیر کسی جواب کے زیر التواء ہے۔ ڈاکٹر جسٹس مرلی دھر اب 7 اگست 2023 کو عہدہ چھوڑ رہے ہیں، جس میں 4 ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔‘‘
جسٹس سنجے کشن کول، کے ایم جوزف، ایم آر شاہ اور اجے رستوگی پر مشتمل کالجیم نے جسٹس ایس وی گنگاپور والا کو مدراس ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی بھی سفارش کی۔
اکتوبر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے جسٹس مرلی دھر کے بطور چیف جسٹس مدراس ہائی کورٹ کے تبادلے کو روک دیا تھا، حالاں کہ اس نے سپریم کورٹ کالجیم کی سفارش کے مطابق تین دیگر چیف جسٹسوں کی تقرری کو منظوری دے دی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ فروری 2020 میں مرلی دھر کا دہلی ہائی کورٹ سے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں تبادلہ کر دیا گیا تھا۔
اس تبادلے کی اطلاع اس کے فوراً بعد دی گئی تھی جب جسٹس مرلی دھر نے دہلی پولیس کو مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما، کپل مشرا اور ابھے ورما، تمام بی جے پی لیڈر، کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے لیے پہلی اطلاعاتی رپورٹ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔
کیس میں درخواست گزاروں نے الزام لگایا تھا کہ ان تقریروں نے 2020 میں دہلی میں فسادات کو ہوا دی تھی جس میں 53 افراد کی جانیں گئیں۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
دہلی بار ایسوسی ایشن نے جسٹس مرلی دھر کے تبادلے پر ’’صدمہ، غم و غصہ اور مایوسی‘‘ کا اظہار کیا تھا۔ ایسوسی ایشن کے کئی ارکان نے احتجاجاً کام سے پرہیز بھی کیا تھا۔
مارچ میں کالجیم نے ججوں کی تقرری کے لیے اس کے ذریعہ تجویز کردہ امیدواروں کے ناموں کو روکنے کے لیے مرکز پر تنقید کی تھی۔
گذشتہ چند مہینوں میں کالجیم ججوں کی سفارش کرنے کے اپنے جواز، حکومت کے پاس زیر التوا ناموں اور عدالتی تقرریوں پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ان پٹ کے بارے میں مزید معلومات عوام میں جاری کر رہا ہے۔
روایتی طور پر کالجیم کے اجلاسوں کے دوران ہونے والی بات چیت کو کسی بھی شکل میں ریکارڈ یا جاری نہیں کیا جاتا تھا اور صرف تجویز کردہ امیدواروں کے نام عوامی ڈومین میں جاری کیے جاتے تھے۔