عیسائی مشنریوں کو اپنے مذہب کو فروغ دینے کا قانونی حق حاصل ہے، تمل ناڈو حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا
نئی دہلی، مئی 1: تمل ناڈو حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مشنریوں کو عیسائیت کو فروغ دینے کا قانونی حق حاصل ہے جب تک کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال نہ کریں۔
ریاستی حکومت کی طرف سے داخل کردہ ایک حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ’’آئین ہند کی دفعہ 25 ہر شہری کو اپنے مذہب کی تبلیغ کے حق کی ضمانت دیتی ہے۔ لہذا، عیسائیت پھیلانے والے مشنریوں کی کارروائیوں کو قانون کی خلاف ورزی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔‘‘
حکمراں ڈی ایم کے نے یہ حلف نامہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اشونی اپادھیائے کی طرف سے دائر کی گئی ایک عرضی کے جواب میں داخل کیا جس میں زبردستی تبدیلی مذہب کے مبینہ معاملات کی مرکزی تفتیشی بیورو سے تحقیقات کرانے کی مانگ کی گئی تھی۔ اپادھیائے نے لاء کمیشن آف انڈیا کے لیے مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قانون کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت بھی مانگی۔
اپنے حلف نامے میں تمل ناڈو حکومت نے کہا کہ تبدیلیٔ مذہب مخالف قوانین کا اقلیتوں کے خلاف غلط استعمال کا خطرہ ہے اور انھوں نے مزید کہا کہ افراد کو آزادانہ طور پر اپنا مذہب منتخب کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اس نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ گذشتہ چند سالوں میں ریاست میں زبردستی تبدیلیٔ مذہب کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ہے۔
ریاستی حکومت نے کہا ’’ملک کے شہریوں کو اپنے مذہب کا انتخاب کرنے کی آزادی دی جانی چاہیے اور حکومت کے لیے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ ان کے ذاتی عقیدے اور رازداری پر بات کرے۔‘‘
حلف نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئین کسی بھی شخص کو یہ بنیادی حق نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کو اپنے مذہب میں داخل کرے ’’لیکن آئین ہر شخص کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا حق ضرور دیتا ہے۔ اسی طرح آئین کسی بھی شخص کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے سے بھی نہیں روکتا۔‘‘
جنوری میں سپریم کورٹ نے اپادھیائے کو ’’زبردستی تبدیلیٔ مذہب‘‘ پر سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ کے مختلف بنچوں کے سامنے متعدد عرضیاں دائر کرنے کے خلاف خبردار کیا تھا۔
عدالت نے ان سے کہا تھا کہ ’’آپ درخواستیں واپس لینا اور نئی درخواستیں دائر کرنا جاری نہیں رکھ سکتے۔‘‘