کاسٹ سینسس اور 2024 کی سیاسی بساط !
نہ حلیف نہ حریف‘ کسی کو بھی سننے تیار نہیں ہے حکومت
افروز عالم ساحل
ملک میں اس بار ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ بہار میں اس مطالبے پر نتیش کمار اور تیجیسوی یادو ساتھ ساتھ نظر آرہے ہیں۔ اوپندر کشواہا اور جتن رام مانجھی بھی اس مطالبے پر ان کے ساتھ ہیں۔ بہار میں حالت یہ ہو گئی ہے کہ اس مطالبے کو منوانے کے لیے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے کارکن سڑکوں پر ہیں۔ بہار کے تقریباً ہر ضلع میں اس مطالبہ کو لے کر مظاہرہ ہو چکا ہے۔ سیاسی گلیاروں میں یہ قیاس آرائیاں بھی تیز ہوگئی ہیں کہ کہیں نیتش کمار پھر سے آر جے ڈی کے ساتھ جانے کی تیاری تو نہیں کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے ’پی ایم میٹیریل ‘ ہونے کا چرچا بھی تیز ہو گیا ہے۔
اتر پردیش میں اکھیلیش یادو گزشتہ سال ہی ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرچکے ہیں، اب مایاوتی اس مطالبے کو دہرا رہی ہیں۔ دیگر ریاستوں میں بھی مطالبات شروع ہو چکے ہیں ۔ مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے بھی کاسٹ سینسیس کی وکالت کی ہے اور اس تعلق سے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط بھی لکھا ہے۔
دوسری طرف بی جے پی نے اس معاملے پر اپنا رخ صاف کردیا ہے کہ وہ اس کی حمایت میں نہیں ہے۔ بہار میں بی جے پی کے دو بڑے لیڈروں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو لوگ ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ سماج کو توڑنا چاہتے ہیں اور کسی طرح سے حکومت پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔ انگریز بھی معاشرے کو توڑنے کی ایسی حرکت نہیں کر سکتے تھے جو اس وقت ملک کی کچھ سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔
بی جے پی کے بہار کے نائب صدر راجیو رنجن نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جن کا ترقی پر یقین نہیں رہتا، وہ سماج کو توڑ کر حکمرانی کرتے ہیں۔ پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی کے تحت 1930 میں انگریزوں نے ذات پات کی مردم شماری کروا کر ملک کو ذاتوں کی بنیاد پر توڑنے کی کوشش کی تھی، آج وہی کوشش ملک کی کچھ سیاسی جماعتیں بھی کر رہی ہیں۔ درحقیقت ان جماعتوں کا وجود ہی ذات پات کے امتیاز پر قائم ہے، وہ اس سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دس سال پہلے جب بی جے پی اپوزیشن میں تھی، اس کے لیڈر خود اس کا مطالبہ کرتے تھے۔ 2018میں جب راج ناتھ سنگھ مرکزی حکومت میں وزیر داخلہ تھے تب انہوں نے 2021کی مردم شماری کی تیاریوں کا جائزہ لیتے ہوئے حکومت کی جانب سے یہ اتفاق کیا تھا کہ نئی مردم شماری میں او بی سی کے اعداد و شمار کوبھی اکٹھا کیا جائے گا۔
ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے سے حکومت کا انکار
لوک سبھا میں بھی مملکتی وزیربرائے امور داخلہ نتیانند رائے نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ حکومت اپنی پالیسی کے مطابق ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں کرائے گی۔ لوک سبھا میں بیس جولائی 2021 کو رکن پارلیمنٹ ٹی آر بالو کے ایک سوال کے تحریری جواب میں انہوں نے حکومت کے اس موقف کا برملا اظہار کیا کہ حکومت کا ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے کا ارادہ قطعی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مردم شماری میں ان ذاتوں اور قبائل کی گنتی کی جاتی ہے جو (درج فہرست ذات) حکم نامہ 1950 اور آئینی (درج فہرست قبائل) حکم نامہ 1950کی روسے جس میں وقتاً فوقتاً ترمیم کی جا تی رہی، خصوصی طور پر درج فہرست ذاتوں (ایس سی) اور درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے طور پر معلنہ ہوں۔
آئین کے مطابق، پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ایس سی اور ایس ٹی کے لیے سیٹیں ان کی آبادی کے تناسب سے محفوظ ہیں۔ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے مرکزی حکومت کے عہدوں پر تقرری اور مرکزی حکومت کے تعلیمی اداروں میں داخلہ کے لیے ریزرویشن کا بھی التزام ہے اور اس کے نفاذ سے متعلق تمام قانونی مسائل کا دفاع متعدد عدالتوں میں حکومت کے ذریعے مضبوطی سے کیا جاتا ہے۔
لوک سبھا میں 27جولائی 2021کو دیے گئے ایک تحریری جواب میں نیتانند رائے نے بتایا کہ مردم شماری میں، آبادی سے متعلق اور افراد کی تعلیم، ایس سی / ایس ٹی، مذہب، زبان، شادی، شرح پیدائش، معذوری، پیشے اور ہجرت جیسے مختلف سماجی و اقتصادی معیارات اکٹھا کیے جاتے ہیں۔ کام / روزگار اور تجارت جیسی ہجرت کی وجوہات کے ساتھ ساتھ ہجرت کی خصوصیات بھی اکٹھا کی جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ ہمارے ملک میں ہر دس سال میں ایک بار مردم شماری ہوتی ہے اور اس میں عام طور پر پرانے طریقے اور پرانے سوالات کو ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی ڈھانچہ ہونے کی وجہ سے نئے اعداد وشمار کا سابقہ مردم شماری سے موازنہ کرنا اور تقابلی مطالعہ ممکن بناتا ہے۔ تاہم، مردم شماری میں سوالات کی تعداد مسلسل تبدیل ہوتی رہی ہے۔
مردم شماری میں ذات کا بھی کالم ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان کی مردم شماری میں ذات کا کوئی کالم نہیں ہوتا ہو۔ ہر مردم شماری فارم میں ذات کا کالم ہوتا ہے، لیکن اسے صرف ان لوگوں کو بھرنا ہوتا ہے جو درج فہرست ذات یا قبائل کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ پسماندہ اور دیگر طبقات جنہیں مختلف لوگ او بی سی ، عام زمرہ یا اونچی ذات کہتے ہیں، شمار نہیں ہوتے۔ لیکن اس بار اسی کو شمار کیے کا جانے مطالبہ کیا جارہا ہے۔
کاسٹ سینسس پر سپریم کورٹ نے جاری کی تھی حکومت کو نوٹس
اس معاملے میں 26فروری 2021کو سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے دیگر پسماندہ طبقات کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانے کے لیے ہدایت کی درخواست کی چھان بین سے اتفاق کیا ہے۔ چیف جسٹس بوبڈے اور جسٹس اے ایس بوپنا اور وی رام سبرامنیم کی بنچ نے مرکز اور قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات کو اس معاملے میں نوٹس جاری کی۔ لیکن حکومت نے اس نوٹس کے جواب میں سپریم کورٹ کو کیا بتایا ہے، اس کی جانکاری فی الحال پبلک ڈومین میں نہیں ہے۔ امید ہے کہ جب اس معاملے کی اگلی سنوائی ہوگی تب ہی عوام کو یہ پتہ چل سکے گا کہ مرکزی حکومت نے عدالت سے کیا کہا ہے۔
سپریم کورٹ میں یہ پی آئی ایل تلنگانہ میں مقیم سماجی کارکن جی ملّیش یادو کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔ جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دیگر پسماندہ طبقات کی بہتری کے لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری ایک ’’اہم ضرورت‘‘ ہے۔ درخواست گزار نے استدلال کیا کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کا تعلیم، روزگار کے شعبوں اور بلدیاتی انتخابات میں تحفظات کو نافذ کرنے میں لازمی کردار ہے۔ اس طرح کے اعداد و شمار کی کمی، پسماندہ طبقات کے لیے ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق فیصلے لینے میں مشکلات پیدا کررہی ہے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے تعلیم، روزگار، معاشی اور سیاسی شعبوں میں متعدد اسکیمیں متعارف کروا رہی ہیں اور اس کے لیے ہر سال ایک بجٹ مختص کیا جارہا ہے۔ تاہم یہ منصوبے مشکلات کا شکار ہیں کیوں کہ ان کو نافذ کرنے کے لیے کافی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکومت ذات پات کی مردم شماری کرانے سے گریز کیوں کررہی ہے؟ دراصل اس میں ایک سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان کی آبادی میں او بی سی کے حصے میں کمی بیشی ہوتی ہے تو پھر ریزرویشن بلاکس کی از سر نو تشکیل کا مطالبہ ابھر کر سامنے آجائے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو لازماً اس کا اثر مرکز یا ریاستوں میں حکمران پارٹی پر پڑے گا۔
بھارت میں کب ہوئی پہلی مردم شماری؟
اب تک تاریخ میں یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ ہندوستان میں پہلی مردم شماری 1872 میں برطانوی وائسرائے لارڈ میو نے کرائی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں 1786 میں ہی ٹیپو سلطان نے مردم شماری کی شروعات کردی تھی۔ اس سلسلے میں 9 جولائی 1786 کو لکھا گیا فرمان تاریخ کی کئی کتابوں میں موجود ہے۔ کرناٹک کے محمد الیاس ندوی اپنی کتاب ’سیرت سلطان ٹیپو شہید‘ کے صفحہ نمبر 531 پر لکھتے ہیں ’ٹیپو سلطان کا اختراعی ذہن ہمیشہ نئی نئی چیزوں کے بارے میں سوچتا رہتا تھا، اس کی اسی طبیعت نے اس کو اپنی مملکت سے متعلق ایک اور نئی چیز کے آغاز پر آمادہ کیا جس کے مطابق اس نے اپنی پوری سلطنت میں مردم شماری کا حکم جاری کردیا۔ یہ نہ صرف پوری سلطنت خداداد بلکہ پوری ہندوستان کی تاریخ میں پہلی باقاعدہ مردم شماری تھی۔ اس سلسلے میں اس نے اپنے وزیر اعظم میر صادق کے نام پر فرمان جاری کیا جو اس طرح تھا ۔۔۔
فرمان بنام میر صادق (دیوان حضوری)
9 جولائی 1786
حکم دیا جاتا ہے پوری مملکت کی مردم شماری مع اجناس و سامان کی جائے اور اس کی رپورٹ سلطان کو دی جائے۔
دستخط
ٹیپو سلطان
اس کے تحت سلطنت کے تمام قاضیوں کو بھی اس کا مکلف کیا گیا تھا کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کی مردم شماری کرائیں جس میں مردوں، عورتوں، بچوں، مکانات و جائیداد اور ان کے مشاغل وغیرہ کی تفصیلات ہوں اور اس کی رپورٹ سے سرکار کو مطلع کیا جائے، ایک نقل وہ اس کی اپنے پاس بھی رکھیں۔
کیوں بند ہوگئی ذات پات پر مبنی مردم شماری؟
ٹیپو سلطان کی اس تاریخ کو چھوڑ دیں تو مانا جاتا ہے کہ ہندوستان میں منظم مردم شماری کا آغاز 1881میں ہوا۔ ذات پات کے اعداد و شمار کو 1931کی مردم شماری تک مسلسل جمع کیا جاتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے 1941کی مردم شماری متاثر ہوئی۔ آزادی کے فوراً بعد 1951میں مردم شماری کی گئی، جس کے لیے اس وقت کی حکومت نے فیصلہ کیا تھا شیڈیولڈ کاسٹ اور شیڈیولڈ ٹرائبز کے علاوہ ملک میں دیگر ذاتوں کے اعداد و شمار کو اکھٹا نہیں کیا جائے گا۔
لیکن 30دسمبر 1980کو منڈل کمیشن کی رپورٹ صدر کو سونپے جانے کے بعد ملک کے سامنے پھر سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا سوال کھڑا ہوا، کیونکہ کمیشن نے اپنی رپورٹ کی تمہید میں لکھا تھا کہ اگلی مردم شماری میں تمام ذاتوں کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں کیونکہ منڈل کمیشن کو رپورٹ تیار کرتے وقت ذات کے اعداد و شمار کی کمی کی وجہ سے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
1990 میں منڈل کمیشن کی سب سے نمایاں سفارش، یعنی مرکزی حکومت کی سرکاری ملازمتوں میں پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کو نافذ کر دیا گیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ نومبر 1990 میں وی پی سنگھ کی حکومت گر گئی۔ اس کے بعد کانگریس کی حمایت سے چندر شیکھر وزیر اعظم بنے۔ ذات پر مبنی مردم شماری اس حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ اس طرح 1991 میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ 2001کی مردم شماری میں ذات کی گنتی کو شامل کرنے کے بارے میں 8جنوری 1998 کو وزارت سماجی بہبود نے ایک کابینی نوٹ (2011/12/1997-BCC) تیار کرکے اس کی تشہیر کی گئی۔ اس کے فوراً بعد متحدہ محاذ کی یہ حکومت گر گئی اور مارچ 1998 میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت قائم ہوئی اور ایل کے اڈوانی وزیر داخلہ بنے۔ وزارت داخلہ نے 26 مئی 1998 کو اس تجویز کو مسترد کردیا۔
2011 میں تو ہندوستان ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے بہت قریب پہنچ گیا تھا اور لوک سبھا میں اس بات پر اتفاق رائے ہوتا نظر آیا تھا کہ اس بار ذات پات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے گی لیکن منموہن سنگھ حکومت میں کچھ وزراء، جس میں پرنب مکھرجی اور پی چدمبرم خاص طور پر شامل تھے، اور کچھ بااثر نوکرشاہوں نے تکنیکی مسائل کھڑے کر کے کہا کہ اس سے پوری مردم شماری کی درستگی متاثر ہوگی،اس طرح 2011 کی مردم شماری میں ذات کی گنتی نہیں ہونے دی گئی۔ تب میڈیا نے بھی ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف ماحول بنایا تھا۔ لیکن 29جون 2011کو ملک میں ایک مختلف قسم کی مردم شماری شروع ہوئی۔ اسے ’سوشیو اکنومک اینڈ کاسٹ سنسس‘ کہا گیا۔ یہ 31 مارچ 2016 کو ختم ہوا۔ لیکن آج تک اس کی رپورٹ جاری نہیں کی گئی ہے۔
مردم شماری میں اپنے لیے الگ کالم کا آدیواسی بھی کر رہے ہیں مطالبہ
ذات پر مبنی مردم شماری کے ساتھ ساتھ ملک میں ایک لڑائی آدیواسیوں کی مذہبی شناخت کی بھی ہے۔ ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں سرنا دھرم کوڈ کی تحریک کی قیادت کر رہے ’راجی پڑہا سرنا دپراتھنا سبھا‘ کے قومی صدر اور آدیواسیوں کے سرنا دھرم گرو، بندھن تگّا کا کہنا ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ سرنا دھرم کوڈ کو کسی بھی صورت میں 2021کی مردم شماری میں شامل کیا جائے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر مرکزی حکومت نے ان کے مطالبے کو پورا نہیں کیا تو یہ ملک اب تک کا سب سے بڑا آندولن دیکھے گا۔ ہم پورے ملک میں مردم شماری کی مخالفت کریں گے۔
خیال رہے کہ بندھن تگّا کی خاص بات چیت اور اس سے متعلق پوری رپورٹ ہفت روزہ دعوت پہلے ہی شائع کر چکی یے۔
جھارکھنڈ اسمبلی اپنے ایک خصوصی اجلاس میں اتفاقِ رائے سے سَرنا دھرم کوڈ کی قرارداد کو منظور کر چکی ہے۔ اس قرارداد کے مطابق ’آدیواسی‘ ہندو دھرم کا حصہ نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے بھی اس بار کی مردم شماری کے دوران انہیں ’’سَرنا‘‘ کے نام سے علیحدہ مذہبی درجہ بندی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آسام کی مشہور مصنف کویتا کرمکار کا کہنا ہے کہ یہاں کے ’آسام ٹی ٹرائبلس اسٹوڈنٹس یونین‘ گزشتہ کئی سالوں سے اپنی شناخت کی لڑائی لڑ رہی ہے۔
ایک مخالفت یہ بھی!
آدیواسیوں کے سرنا دھرم کوڈ کے ساتھ ساتھ ملک میں ’روی داسی‘ کمیونٹی بھی اپنی مذہبی شناخت کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اس کمیونٹی کے جانب سے بھی یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ انہیں ایک علیحدہ مذہب تسلیم کرتے ہوئے اُن کے لیے 2021کی مردم شماری میں ایک الگ کالم اور یونیک کوڈ کا اہتمام کیا جائے تاکہ انہیں اپنا مذہب ہندو یا سکھ نہ لکھنا پڑے۔
ان کے مطابق ’روی داسی‘ ایک الگ مذہب کے ماننے والی کمیونٹی ہے، جو سنت روی داس کو اپنا پیشوا مانتی ہے۔ ان کی مذہبی کتاب بھی الگ ہے جسے ’امرت بانی گرو روی داس جی‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ اگر اس بار ہونے والے مردم شماری کے فارم میں ان کا الگ سے کالم نہیں دیا گیا تو وہ اس مردم شماری کا بائیکاٹ کریں گے۔ روی داسی کمیونٹی کو ہمارے ملک میں شیڈیولڈ کاسٹ میں رکھا گیا ہے۔ مذہبی اعتبار سے انہیں ہندو یا سکھ مذہب کے ماننے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق ملک میں ان کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت ذات پات کی مردم شماری کرانے سے گریز کیوں کررہی ہے؟ دراصل اس میں ایک سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان کی آبادی میں او بی سی کے حصے میں کمی بیشی ہوتی ہے تو پھر ریزرویشن بلاکس کی از سر نو تشکیل کا مطالبہ ابھر کر سامنے آجائے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو لازماً اس کا اثر مرکز یا ریاستوں میںحکمران پارٹی پر پڑے گا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21 اگست 2021