مہاتما گاندھی کو ایک مسلم شخص کی اولاد کہنے والے ہندوتوا لیڈر سمبھاجی بھیڈے کے خلاف مقدمہ درج
نئی دہلی، جولائی 31: مہاراشٹرا پولیس نے ہندوتوا لیڈر سمبھاجی بھیڈے کے خلاف مہاتما گاندھی کے نسب پر سوالیہ نشان لگانے پر مقدمہ درج کیا ہے۔
بھیڈے نے 27 جولائی کو امراوتی ضلع کے بدنیرا قصبے میں ایک تقریب میں دعویٰ کیا تھا کہ گاندھی کی پرورش ایک مسلم مالک مکان کے گھر میں ہوئی تھی، اور یہ کہ مسلم مالک مکان ہی گاندھی کا حقیقی باپ تھا۔ 90 سالہ بوڑھے نے دعویٰ کیا تھا کہ ایسی دستاویزات موجود ہیں جو اس کے دعوے کی تائید کرتی ہیں۔
امراوتی کے پولس کمشنر نوین چندر ریڈی نے کہا کہ بھیڈے پر تعزیرات ہند کی ان دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جو مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے اور عوامی فساد کو بڑھاوا دینے والے بیانات دینے سے متعلق ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس مذکورہ تقریب کی آڈیو ریکارڈنگز موجود ہیں اور ہم تقریر کے مواد کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ ’’تفتیش جاری ہے، تمام کارروائی قانون کے مطابق کی جائے گی۔‘‘
اتوار کو کانگریس اور شرد پوار کی سربراہی میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے دھڑے نے مہاراشٹر کے کئی حصوں میں بھیڈے کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوہان نے بھیڈے کے ان دعوؤں کو کو ’’بے شرم اور توہین آمیز‘‘ قرار دیا۔
نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے اپوزیشن پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو سیاسی رنگ نہ دیں اور کہا کہ بھیڈے کا بھارتیہ جنتا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لیکن فڑنویس نے یہ بھی کہا کہ جب راہل گاندھی ویر ساورکر کے خلاف بولتے ہیں، تب بھی کانگریس کے لوگوں کو سڑکوں پر اترنا چاہیے، ’’لیکن وہ اس وقت خاموش رہتے ہیں۔‘‘
تاہم فڑنویس نے کہا کہ گاندھی کی توہین کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے کہا ’’میں سمبھاجی بھیڈے کے بیان کی مذمت کرتا ہوں۔ مہاتما گاندھی قوم کے باپ ہیں۔ انھیں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ کے رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کے خلاف ایسا بیان نامناسب ہے، لوگ اسے برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
2018 میں بھیڈے پر پونے کے قریب بھیما کوریگاؤں گاؤں میں دلت اور مراٹھا گروپوں کے درمیان ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ تاہم اس کیس میں چارج شیٹ میں بھیڈے کا نام شامل نہیں کیا گیا۔
اس کے بجائے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے کیس کا فوکس ان الزامات پر رہا ہے کہ 16 سماجی کارکن ذات پات کے تشدد کو ہوا دینے، مرکزی حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور وزیر اعظم کو قتل کرنے کی ایک بڑی ماؤنواز سازش کا حصہ تھے۔