’’شہریوں کو محض حکومت سے اختلاف رائے کی بنا پر جیل میں نہیں ڈالا جاسکتا‘‘، عدالت نے ماحولیاتی کارکن دشا روی کو ضمانت دیتے ہوئے کیا مشاہدہ
نئی دہلی، فروری 24: ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے منگل کے روز کسان احتجاج سے متعلق ’’ٹول کٹ‘‘ کیس کے سلسلے میں 22 سالہ ماحولیاتی کارکن دشا راوی کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ شیئر کی گئی اور ترمیم شدہ ’’ٹول کٹ‘‘ نے کسی قسم کے تشدد کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ جج نے یہ بھی کہا کہ دستاویز میں ترمیم کرنا کسی بھی جرم کے مترادف نہیں ہے۔
دشا روی کو رواں ماہ کے اوائل میں دہلی پولیس نے ایک دستاویز کو شیئر کرنے اور اس میں ترامیم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا، جو نئے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرے کو مزید تقویت دینے کے ارادے سے بنایا گیا تھا۔ اس ٹول کٹ کو سویڈش کارکن گریٹا تھنبرگ نے بھی ٹویٹ کیا تھا۔
جج رانا نے اپنے حکم میں کہا ’’… واٹس ایپ گروپ بنانا یا کسی ٹول کٹ کا ایڈیٹر ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔۔۔۔ شہریوں کو صرف اس وجہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں ڈالا جاسکتا کہ وہ ریاستی پالیسیوں سے اختلاف رائے کا انتخاب کرتے ہیں۔‘‘
لائیو لا ڈاٹ اِن کی خبر کے مطابق عدالت نےاپنے مشاہدے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ چوں کہ ’’ٹول کٹ‘‘ قابل اعتراض نہیں تھا، لہذا راوی کے ذریعہ واٹس ایپ چیٹس کو دستاویز سے جوڑنے والے ثبوتوں کو ختم کرنے کے لیے اسے ڈیلیٹ کرنا ’’بے معنی‘‘ ہوگیا۔
بغاوت کے معاملے پر عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے، جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ روی نے ’’کسی بھی علاحدگی پسند نظریے کو اپنا لیا ہے۔‘‘
عدالت نے یہ بھی کہا کہ حکومت سے اختلاف کو بغاوت نہیں کہا جاسکتا۔
عدالت نے اس بات کی تائید کی کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اختلاف رائے کے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔
جج نے کہا ’’میرے خیال میں اظہار رائے کی آزادی میں عالمی سامعین کی تلاش کا حق بھی شامل ہے۔ مواصلات میں جغرافیائی رکاوٹیں نہیں ہیں۔‘‘
عدالتی حکم میں مزید نشاندہی کی گئی ہے کہ پولیس اس دلیل کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی ہے کہ روی اور اس کے ساتھیوں نے ہندوستانی سفارت خانوں میں کسی بھی طرح کے تشدد کا ارتکاب کیا۔