سی اے اے: مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنے والا آزاد بھارت کا پہلا قانون
جھوٹ، آدھے سچ اور غلط ڈرافٹنگ کے ذریعہ مثبت بیانیہ مرتب کرنے کی ناکام کوشش
نور اللہ جاوید، کولکاتا
وفاقیت ، مساوات اور سماجی انصاف کے آئینی اقدار مجروح
مظلوموں کے نام پر سیاست۔آسام کے بنگالی ہندوؤں میں مایوسی
شہریت ترمیمی ایکٹ(سی اے اے) قانون ایک ایسے وقت میں متعارف کرایا گیا ہے جب مودی حکومت کو بھارت کی تاریخ کا سب سے بڑا مالی گھوٹالہ ’’انتخابی بانڈ‘‘ اسکیم کا پردہ فاش ہونے کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا ہے۔مودی حکومت کا جرم صرف یہ نہیں ہے کہ اس نے سیاسی چندے میں شفافیت کا خیال رکھے بغیر کارپوریٹ گھرانوں کو سیاسی جماعتوں کو لاکھوں ڈالر کا عطیہ دینے کی اجازت دی یا پھر بی جے پی کو سب سے زیادہ کارپورٹ گھرانوں کے چندے ملے بلکہ مودی حکومت کا جرم اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے، وہ یہ کہ اس نے مرکزی ایجنسیوں، انکم ٹیکس اور ای ڈی کا بے دریغ استعمال کیا اور کارپوریٹ گھرانوں کو حکم راں جماعت کو چندہ دینے پر مجبور کیا۔ نیوز ویب سائٹ اسکرول کی ایک رپورٹ کے مطابق 25 ایسے کارپوریٹ گھرانے ہیں جنہوں نے کروڑہا روپے کے چندے انکم ٹیکس یا پھر ای ڈی کے چھاپوں کے بعد الیکٹرول بانڈ کی شکل میں دیے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک فراڈ ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کو چندے دینے میں کوئی توازن نہیں ہے۔ اس رقم کا کہاں استعمال کیا گیا؟ روپے کی طاقت کے بل پر ٹی وی نیوز چینلوں کو رام کیا گیا، سیاسی جماعتیں توڑی گئیں اور ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت ہوئی۔ گویا الیکٹرول بانڈز کے ذریعہ کے جمہوریت کو گروی رکھ دیا گیا‘ ۔مودی حکومت کو اس بات کا علم تھا کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں سخت ہوتی جا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا (SBI) کے پاس الیکٹرول بانڈ خریدنے والے کارپوریٹ گھرانوں کی تفصیلات ظاہر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ چناں چہ عوام کی توجہ مبذول کروانے اور پولرائزیشن کے لیے چار سال کی خاموشی کے بعد شہریت ترمیمی ایکٹ کو اس ہفتے یعنی 11؍ مارچ کو نافذ کر دیا گیا۔دسمبر 2019 میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے ڈرامائی انداز میں شہریت دینے والا قانون پاس ہونے کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے، دھرنے، ہنگامہ آرائی، دلی میں فرقہ وارانہ فسادات اور ملک بھر سے درجنوں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور 100 سے زائد اموات ہوئیں جن میں مہلوکین کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس طویل عرصے میں خاموشی چھائی رہی، عذر پیش کیا گیا کہ کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔ تاہم رام مندر کی تعمیر میں کورونا وائرس رخنہ نہیں ڈال سکا مگر قانونی اور ضوابط سازی میں کورونا حائل ہوگیا۔ جس جماعت کا بنیادی مقصد انتخابات جیتنا ہوتا ہے تو اس کا ہر ایک قدم ملک کے مفادات کے بجائے انتخابی فوائد اور نقصان کے تناظر میں ہوتا ہے۔
انتخابات سے عین قبل اس ایکٹ کے نفاذ کا مقصد عوام کی توجہ بھٹکانا، مذہب کے نام پر پولرائز کرنا اور انتخابی موسم میں عوامی ایشوز پر بحث و مباحثہ کے ماحول سے بچنا ہے۔ اس کے علاوہ اور ملک کی دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کو یہ واضح پیغام بھی دینا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ عالمی رائے عامہ اور دنیا بھر کی تشویش اور ملک کی سول سائٹی کی مخالفت کے باوجود ایک ایسا قانون نافذ کیا گیا جو عدم مساوات کا علم بردار ہے۔ اس قانون میں صرف مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی گئی ہے بلکہ علاقائیت کی بنیاد پر بھی تفریق کی گئی ہے۔ اس لیے اس قانون کے ذریعہ بنگال اور آسام کی محض چند سیٹیں جیتنا مقصد نہیں پے بلکہ اس کے پیچھے ایک پوری شیطانی سوچ ہے۔ چناں چہ 11؍ مارچ 2024 بھارت کی تاریخ کے تاریک ترین باب کے طور پر ہمیشہ کے لیے درج کر دیا گیا۔ مساوات اور سبھی کو یکساں مواقع بھارت کے آئین کی بنیادی روح ہے لیکن اب وہ ایسے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جہاں مذہب اور علاقائی تفریق کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے گی۔ چناں چہ شہریت ترمیمی ایکٹ جس کے بارے میں حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ مظلوم طبقات کو شہریت دینے والا قانون ہے، اس قانون سے شہریت نہیں چھینی جائے گی، این آر سی کے نفاذ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ سوال شہریت دینے اور چھیننے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ یہ دراصل مذہبی، علاقائی اور سماجی بنیاد پر بھید بھاو کا باقاعدہ آغاز ہے ۔
چار سال قبل اس ایکٹ کے خلاف جن سوالوں کے ساتھ ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے ان کا جواب فراہم کیے بغیر اس کو نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس لیے مزید سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ سوال صرف آئین مخالف اقدامات کا نہیں ہے بلکہ اس کے پس منظر میں کارفرما مذموم مقاصد کا بھی ہے۔ اس قانون میں عدم مساوات کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے بلکہ آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جو مساوات کی تلقین کرتا ہے، مظلومیت کے دائرہ کار کو مذہب اور علاقائیت تک محدود کرنے کا گھناونے جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
میانمار میں صرف روہنگیائی مسلمانوں پر ہی افتاد نہیں توڑے گئے ہیں بلکہ فوجی بغاوت کے بعد بڑی تعداد میں قبائلی بھی وہاں سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں اور ملک کے شمال مشرقی ریاستوں میں آباد ہونے کے لیے بے چین ہیں۔ سری لنکا میں آج بھی تمل باشندوں کو مذہب اور زبان کی بنیاد تعصب اور نفرت کا سامنا ہے۔ناگالینڈ، میزورم اور منی پور میں بڑی تعداد میں میانمار کے قبائلی بھی آباد ہوئے، چناں چہ منی پور میں این آر سی کے نفاذ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور بی جے پی اس مطالبے کی حمایت کرتی ہے۔بچین میں ظلم کے شکار صرف ایغور مسلمان ہہ نہیں بلکہ تبتی بدھسٹوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ مگر یہ ایکٹ ان ممالک کے مظلوم افراد کی داد رسی کرنے سے قاصر ہے۔
اس ایکٹ کے ذریعہ ملک کے وفاقی ڈھانچے پر بھی حملہ کیا گیا ہے۔ویسے تو گزشتہ دس سالوں سے ریاست اور مرکز کے درمیان تعلقات، تعامل اور تعاون کے جذبے کا فقدان رہا ہے۔ غیر بی جے پی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے لیے اس عرصے میں کام کرنا کوئی آسان نہیں رہا ہے۔ ہمہ وقت حکومت کی حفاظت کی فکر، حکومت گرائے جانے کا خدشہ مرکزی حکومت کے ذریعہ فنڈ کے اجرا میں تاخیر اور گورنر کے ذریعہ کام کاج میں رخنہ ڈالنے کی کوششوں کی وجہ سے غیر بی جے پی ریاستیں اتھل پتھل کا شکار رہی ہیں۔ اب اس ایکٹ کے ذریعہ شہریت دینے کے اس پورے عمل میں ریاست کے کردار کو ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ جب کہ شہریت ملنے کے بعد راشن، پانی، ملازمت اور دیگر تمام ذمہ داریاں ریاست کے ذمے ہوں گی۔ اس سے قبل شہریت کی درخواست ضلع کلکٹر کے ذریعہ دی جاتی تھی، اب ایپ کے ذریعہ دی جائے گی اور مرکزی کمیٹی جائزہ لے گی۔ ایسا کوئی پیمانہ یا پھر کوئی طریقہ کار نہیں ہے جس کے ذریعہ یہ جانچا جاسکے گا کہ شہریت کی درخواست دینے والا شخص کس کردار کا حامل ہے یا کہیں وہ کسی غیر ملکی ایجنسی کا ایجنٹ تو نہیں ہے؟ جو دستاویز پیش کیے جا رہے ہیں وہ جعلی نہیں ہیں۔ ان دستاویز کو جانچنے اور پرکھنے کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا گیا ہے۔
شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے بعد جو قواعد اور اصول سامنے آئے ہیں اور وزارت داخلہ نے جو وضاحتیں دی ہیں اس نے سوالات کا جوابات فراہم کرنے کے بجائے مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس ایکٹ کے ذریعہ جن مظلوم طبقات کی داد رسی کی بات کی جا رہی ہے ان کے لیے شہریت حاصل کرنے کی راہ آسان ہوگی؟ لاکھوں کروڑ روپے آسام میں این آر سی کے عمل کی تکمیل کے لیے خرچ کیے گئے۔ 1.9 ملین شہری این آر سی میں جگہ پانے میں ناکام رہے جن میں اکثریت بنگلہ دیشی ہندوؤں کی ہے۔ بلکہ آسام کے اکثریتی مسلم علاقے میں این آر سی میں جگہ نہیں پانے والوں کی شرح سب سے کم تھی۔ آسام این آر سی کا یہ سارا عمل غیر انسانی اور غیر اخلاقی تھا تاہم یہ بھی ایک سچائی ہے کہ آسام این آر سی نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کی ہوا نکال دی۔ آسام کے بنگالی نژاد ہندو 2014 کے بعد مسلسل بی جے پی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کیا این آر سی میں جگہ نہیں پانے والے لاکھوں بنگالی ہندوؤں کو بھارت کی شہریت مل جائے گی؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ لاکھوں ہندو بنگالیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ کئی نسلوں سے بھارتی شہری ہیں۔ انتظامیہ کی لاپروائی اور تعصب کی وجہ سے این آر سی میں ان کے نام شامل نہیں کیے گئے ہیں۔ اب یہ ہندو بنگالی جنہوں نے پہلے اس ملک کا شہری ہونے کا ثبوت پیش کیا تھا کہ وہ31؍ مارچ 1971 سے قبل آسام میں آئے ہیں۔اب یہ بنگلہ دیشی ہونے کا ثبوت پیش کریں گے۔ظاہر ہے کہ یہ تضادات کی بدترین مثال ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے مسلمانوں کو وزارت داخلہ کی وضاحتوں اور صفائیوں پر یقین کرلینا چاہیے کہ اس ایکٹ کی وجہ سے انہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی؟ ان کی شہریت نہیں چھینی جائے گی؟ اگرچہ اس وقت این آر سی کی بات نہیں کہی گئی ہے مگر وزارت داخلہ کی وضاحتوں میں این آر سی کو کبھی بھی نافذ نہیں کرنے کی کوئی یقین دہانی بھی نہیں ہے۔ این آر سی نافذ ہونے کی صورت میں این آر سی سے باہر رہ جانے والوں کی ملک بدری نہیں کی جائے گی؟ یہ ایکٹ قانون اور آئین کے مطابق ہے یا نہیں؟200 سے زائد درخواستیں سپریم کورٹ میں ہیں۔ سوال تو عدلیہ کے نظام پر بھی کھڑا کیا جانا چاہیے کہ اتنے اہم معاملے کی سماعت میں چار سالوں کی تاخیر کیوںکی گئی؟ اہم معاملات کی سماعت کو ترجیح دینے میں سپریم کورٹ ناکام کیوں ہے۔شہریت ترمیمی ایکٹ ہو یا پھر الیکٹورل بانڈ کا معاملہ غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے ملک کے ایک بڑے طبقے کو اذیت سے گزرنا پڑا ہے۔الیکٹورل بانڈ پر عدالت کا جو فیصلہ اس وقت آیا ہے اگر یہ ایک دو سال قبل آگیا ہوتا تو شاید انتخابی اصلاحات کی راہ ہموار ہوگئی ہوتی۔سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ کا عمل بھی رک جاتا اور آج جمہوریت کی کشتی ہچکولے نہیں کھاتی۔
آزاد بھارت کا مذہبی و نسل تفریق پر مبنی پہلا قانون؟
سابق ایڈیشنل سالیسٹر جنرل اندرا جے سنگھ اس ایکٹ کا قانونی جائزہ لیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس کے نفاذ سے آئینی سیکولرازم کو کمزور کرنے کے بی جے پی کے عزائم واضح ہو گئے ہیں۔حال ہی میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ 400 سیٹیں ملنے کی صورت میں ہم آسانی سے آئین میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔اگرچہ بی جے پی لیڈر کے اس بیان کو پارٹی قیادت نے مسترد کر دیا ہے لیکن یہ صرف ایک بی جے پی لیڈر کی نہیں بلکہ بی جے پی قیادت کے امنگوں کی آواز ہے۔ آئین کسی بھی مذہب سے قطع نظر پیدائش، نسب اور ہجرت کے ذریعے شہریت دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکلز 5، 6، 7، 8، 9 اور 10 سیکولر فطرت کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ آئین کی بنیادی خصوصیت ہے۔ پارلیمنٹ نے شہریت دینے اور ختم کرنے کے لیے 1955 میں شہریک ایکٹ پاس کیا تھا۔ 1955 کا ایکٹ بھی مذہب کو شہریت دینے کا معیار نہیں بناتا ہے۔ مگر اب اس ایکٹ میں ترمیم کے ذریعہ مذہب کی بنیاد پر شہریت کو نیچرلائزیشن کیا جا رہا ہے۔حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ ایکٹ ظلم و ستم کے شکار افراد کو فاسٹ ٹریک شہریت دینے پر مبنی ہے۔مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قانون یا قواعد میں ظلم و ستم کا کوئی ذکر نہیں ہے، اور نہ ہی شہریت لینے والوں سے ظلم و ستم کا کوئی ثبوت مانگا گیا ہے۔اندرا جے سنگھ کہتی ہیں کہ آسام کے معاملے میں تو یہ قانون مزید تضادات کا شکار ہے۔ مثال کے طور پر شہریت ایکٹ 1955 کی دفعہ 6A، ان لوگوں کو شہریت دیتا ہے جو 24؍ مارچ 1971 سے پہلے آسام میں آباد ہو چکے ہیں۔یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ حال ہی میں اس سال جنوری میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں دفعہ 6A کا دفاع کیا جبکہ کچھ مقامی گروپوں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ مرکزی حکومت کا خیال تھا کہ اگر 1971 کی کٹ آف تاریخ کو برقرار رکھا جاتا ہے تو 2014 کی تاریخ بھی برقرار رہے گی۔ لیکن 1971 کے کٹ آف میں مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں رکھا گیا تھا جب کہ 2014 کے کٹ آف کی تاریخ میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کی گئی ہے۔اندرا جے سنگھ کہتی ہیں کہ ستم زدہ افراد کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی خوش آئند ہے، لیکن اس کا حل یہ ہے کہ انہیں پناہ گزین کا درجہ دیا جائے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ ہندوستان کو پناہ گزینوں کی حیثیت سے متعلق جنیوا کنونشن 1961 پر دستخط کرنا ہو گا تاکہ وہ مظلوموں کے تئیں اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرے اور اپنی ہی اقلیتوں پر ظلم بند کرے، ورنہ شہریت ترمیمی ایکٹ کو ہندو قوم کے قیام کے منصوبے کے طور پر دیکھا جائے گا۔
آئین کے بنیادی حقوق کے باب میں آرٹیکل 14 اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ’’ریاست کسی بھی شخص کو قانون کے سامنے مساوات یا ہندوستان کی سرزمین کے اندر قوانین کے مساوی تحفظ سے انکار نہیں کرے گی۔یہ حق صرف ہندوستانی شہری پر منحصر نہیں ہے بلکہ ان غیر ملکیوں کو بھی حاصل ہیں جو بھارت کے حدود میں مقیم ہیں۔ اس طرح افراد کے ساتھ ان کے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک مساوات کے حق کے منافی ہے۔ آرٹیکل 15 ریاست کو مذہب، نسل، ذات کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے سے منع کرتا ہے۔ شہریت بنیادی حق ہے اس کو مذہبی شناخت سے جوڑنا یقیناً قابل اعتراض ہے۔ لوگوں کو حراستی مراکز میں رکھنا آئین کے آرٹیکل 21 کی بھی خلاف ورزی ہے جو زندگی اور آزادی کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔
شہریت ترمیمی ایکٹ کس قدر خطر ناک ہے اس کی سنگینی کا اندازہ کنگز کالج لندن میں اونتھا چیئر اور سیاست کی پروفیسر نیرجا گوپال جیال کا ’’دی انڈیا فورم‘‘ میں 2020 میں Faith-based Citizenship کے عنوان سے شائع مضمون کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ این آر سی جائز شہریوں کو غیر قانونی تارکین وطن میں اور غیر قانونی تارکین وطن کو بے وطن لوگوں میں تبدیل کرنے کا نام ہے ہے۔ دونوں کا مقدر حراستی کیمپ ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ منتخب طور پر غیر قانونی تارکین کو قانونی حیثیت دیتا ہے اور اقلیتوں کو قانون کے مکروہ استعمال سے دوسرے درجے کا شہری قرار دینے کی کوشش۔ ہندوستان ایک خطرناک دہانے کے کنارے پر کھڑا ہے جہاں نہ صرف اس کی آئینی اقدار بلکہ اس کی اخلاقی کمپاس کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔ پروفیسر نیرجا گوپال جیال اپنے مضمون کے ابتدا میں لکھتی ہیں کہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کو نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے بلکہ ان دونوں کو باری باری حکومت کی اقلیتوں کے تئیں پالیسیوں کے وسیع تناظر میں بھی پڑھنے کی ضرورت ہے چاہے وہ تین طلاق کو جرم قرار دے کر مسلم خواتین کی ’’جبری ترقی‘‘ ہو یا جموں و کشمیر کی لگاتار بندش کا معاملہ ہو یا گزشتہ چند سالوں میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات بالخصوص ہجومی تشدد ہو جس میں قانونی استثنیٰ کے غیر اعلانیہ وعدے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ نیرجا گوپال جیال آئین ساز اسمبلی میں شہریت کے سوال پر ہونے والے بحث کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’’تقسیم کے بعد آئین میں شہریت کا باب بہت ہی اہم تھا۔ ملک کی تقسیم کے وقت بڑی تعداد میں مسلمان پاکستان چلے گئے مگر حالات معمول پر آنے کے بعد وہ واپس لوٹ آئے۔ سوال ان کی شہریت کا تھا۔آئین ساز اسمبلی میں اس پر زور دار بحث ہوئی۔ اسمبلی کے کئی ارکان نے ان واپس آنے والے مہاجرین کی وفاداری اور نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ظاہر ہے کہ یہ صورت حال تقسیم کی فرقہ وارانہ ماحول کی عکاس تھی۔آر ٹیکل 7 کو آئین میں شامل کیا گیا۔مارچ 1947 کے پہلے دن بھارت کی سرزمین سے اس علاقے میں ہجرت کی ہو جو اب پاکستان میں شامل ہے، اسے ہندوستان کا شہری نہیں سمجھا جائے گا۔بشرطیکہ اس آرٹیکل میں اس شخص پر نافد نہیں ہوگا جو اس علاقے میں ہجرت کرنے کے بعد جو اب پاکستان میں شامل ہے، دوبارہ آبادکاری کے اجازت نامے کے تحت یا مستقل طور پر واپسی کے اجازت نامے کے ساتھ بھارت کے علاقے میں واپس آیا ہے اور ایسے ہر شخص کو آرٹیکل 6 کی شق (b) کے مقاصد کے لیے سمجھا جائے گا کہ وہ جولائی 1948 کے انیسویں دن کے بعد ہندوستان کی سر زمین پر منتقل ہوا ہے۔آئین ساز اسمبلی کے کئی ممبروں نے اس شق پر ناگواری کا اظہار کیا تھا۔چناں چہ بھارت لوٹنے والے ہندوؤں کو رفیوجی اور مسلمانوں کو مہاجر قرار دیا گیا۔آئین ساز اسمبلی نے باریک بینی کے ساتھ مذہبی شناخت کو شہریت کے سوال سے مسترد کردیا اور روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریت کے جمہوری تصور کو اختیار کیا۔چناں چہ اس پوری بحث نے شہریت ایکٹ 1955کی راہ ہموار کی اور اس میں مذہب و نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں تھی۔
شہریت ترمیمی ایکٹ کی اگر ایک سطر میں وضاحت کرنی ہو تو اس سے بہتر کوئی لائن نہیں ہوسکتی ہے کہ یہ ایکٹ ’’نصف سچ، مکمل جھوٹ اور غلط ڈارفٹنگ ‘‘ پر مشتمل ہے۔ کیوں کہ ایکٹ کے نام پر جھوٹ بھی بولا گیا ہے اور آدھے سچ کو ہی سامنے رکھ کر قانون کی غلط ڈارفٹنگ کی گئی ہے۔دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایکٹ پاکستانی ، بنگلہ دیش اورافغانستان میں مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کے شکار ہونے والوں کو شہریت دینے کا فاسٹ ٹریک نظام ہے۔مگر کیا ان ممالک میں 2014کے بعد مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہوا ہے؟کیا ان ممالک سے 2014کے بعد مذہبی اقلیتیں نہیں آئی ہیں؟ اور 2014کے بعد آنے والوں کا کیا ہوگا؟اس ملک میں کئی ایسے خاندان ہیں جن کے گھر کے آدھے افراد 2014کے بعد آئے ہیں، کیا ان گھرانوں کے نصف افراد کو بھارت کی شہریت ملے گی اور آدھے افراد پناہ گزیں قرار دیے جائیں گے؟ حیرت اس پر بھی ہے کہ شہریت کے لیے درخواست گزار سے ظلم و ستم کے شکار ہونے کا کوئی ثبوت تک نہیں مانگا گیا ہے۔ شیڈول IA میں اندراج 5 میں کہا گیا ہے کہ افغانستان ، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والے افراد کواپنی قومیت ثابت کرنے کے لیے سرکاری انتظامیہ یا سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی قسم کی شناختی دستاویزپیش کرنا کافی ہے۔شیڈول آئی بی کے تحت درخواست گزار سے 2014سے قبل بھارت میں داخل ہونے کے ثبوت کے لیے کل 20دستاویز میں سے ایک دستاویز پیش کرنا ہوگا۔ان دستاویز میں ملک میں آمد پر ویزا اور امیگریشن اسٹامپ کی ایک کاپی شامل ہے۔ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ یا رہائشی اجازت نامہ جو بھارت میں غیر ملکیوں کے علاقائی رجسٹریشن آفیسر (FRRO) یا غیر ملکی رجسٹریشن آفیسر (FRO) کے ذریعہ جاری کیا جاتا ہے یا پھر مردم شماری کےدفتر سے جاری کردہ پرچی یا حکومت ہند کا جاری کردہ لائسنس یا سرٹیفکیٹ یا اجازت نامہ (بشمول ڈرائیونگ لائسنس، آدھار کارڈ وغیرہ)۔درخواست دہندہ کا راشن کارڈ، سرکاری مہر کے ساتھ درخواست گزار کو حکومت یا عدالت کی طرف سے جاری کردہ کوئی خط، درخواست دہندہ کا پیدائشی سرٹیفکیٹ، شادی کا سرٹیفکیٹ، وغیرہ میں سے کوئی بھی پیش کردینا کافی ہوگا۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) نافذ ہونے کی صورت میں اپنی شہریت ثابت کے لیے یہ دستاویز کافی ہوں گے۔یہ سوال اس لیے ہے کہ آسام میں این آرسی کے دوران ان دستاویزکو شہریت کے لیے قابل قبول نہیں سمجھا گیا تھا۔
بنگلہ دیش سے بھارت آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد سے متعلق کوئی حتمی رپورٹ حکومت کے پاس دستیاب نہیں ہے کیوں کہ ثقافتی اور لسانی روابط ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیشی ہندو پناہ گزینوں کا ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا یہ غیر رسمی عمل خاص طور پر مغربی بنگال میں آسان رہا ہے۔ چونکہ یہ عمل غیر قانونی ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ کوئی نمبر دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم، بنگلہ دیش میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 1964 اور 2013 کے درمیان تقریباً 11 ملین ہندوؤں نے بھارت میں پناہ لی ہے۔یہ افراد آسام اور مغربی بنگال میں آباد ہیں۔بنگال میں پناہ گزینوں کی اکثریت غیر رسمی ذرائع سے ہندوستانی شہری بن چکی ہے۔سوال یہ ہے کہ غیر رسمی طریقے سے بھارت کی شہریت حاصل کرنے والےکیا شہری ترمیمی ایکٹ کےنفاذ کے بعد شہریت کے لیے باضابطہ درخواست دیں گے۔
متواہندو برادری ہے جو تقسیم کے دوران اور بعد میں 1971 کی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے بعد مذہبی ظلم و ستم اور فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے ہندوستان منتقل ہوئی۔نوآبادیاتی بنگال میں، ناماسودراس جن کا تعلق بنیادی طور پر برہمنیت مخالف متوا فرقے سے تھا، مشرقی بنگال(بنگلہ دیش) کا واحد سب سے بڑا ہندو ذات گروپ تھا تقسیم کے بعد ناماسودراس اکثریتی اضلاع مشرقی پاکستان کا حصہ ہوگیا۔Namasudras نے شروع میں مشرقی پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا لیکن بعد میں فرقہ واریت میں اضافے کی وجہ سے بھارت کی طرف ہجرت کا آغاز کیا ۔ پنجاب کے برعکس جہاں تقسیم کے دوران بڑے پیمانے پرنقل آبادی ہوئی اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری بھی ہوئی ۔بنگال میں ہندوؤں کی ہجرت لہروں میں ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے۔بنگال کے کئی اضلاع جن میں شمالی 24پرگنہ، ندیا، ہگلی اور مالدہ میں بڑی تعداد میں آباد ہے۔دعویٰ کیا جارہا ہے کہ متواسماج کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ چناں چہ سی اے اے کے نفاذ کے بعد متوا سماج میں بڑے پیمانے پر جشن بھی منایا گیا۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ متواسماج کی اکثریت نے غیر رسمی طور پر ہندوستانی شہریت حاصل کرلی ہے۔ممتا بنرجی کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ متواسماج کا ہر فرد پہلے سے ہی ہندوستانی شہری ہے انہیں شہریت حاصل کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟
آسام میں آباد ہندو بنگالیوں کوسب سے زیادہ شہریت ترمیمی ایکٹ سے امیدیں وابستہ تھیں۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر دستاویزی مہاجرین کے لیے یہ ثابت کرنا کافی مشکل ہوگا کہ ان کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔آسام میں این آر سی سے خارج ہونے والوں کے پاس قواعد کے شیڈول 1A میں بیان کردہ دستاویزات نہیں ہیں۔گوہاٹی میں مقیم ایڈووکیٹ دپیش اگروالا آسام میں متنازع شہریت کے حامل افراد کے کیس لڑنے کے لیے مشہور ہیں ۔اگروالا کہتے ہیں کہ این آر سی سے خارج ہونے والوں کے لیے ریلیف فراہم کرنے کے لیے ایک پناہ گزین قانون کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش میں مذہبی ظلم و ستم سے فرار ہونے کا دعویٰ نہیں کر رہے ہیں۔ان کا دعویٰ یہ ہے کہ چونکہ NRC کی مشق دستاویزی اور نوکر شاہی پر مبنی تھی اس لیے غلط طریقے ان کی شہریت کو مشکوک بنایا گیاہے۔کمل چکرورتی ایک انسانی حقوق اور آسام کی بنگالی اکثریتی بارک وادی سے شہری رجسٹر کے مخالف کارکن ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ 1971 (بنگلہ دیش کی آزادی) کے بعد آئے، ان کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔چکرورتی شہریت ترمیمی ایکٹ کے تضاد کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون لوگوں کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں۔ لوگ پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں اور اعلان کر چکے ہیں کہ وہ این آر سی یا فارن ٹربیونلز(FTS)میں بھارتی شہری ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر وہ اب یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں تو کیا ان پر فوجداری مقدمات نہیں ہوں گے؟ بارپیٹا میں مقیم ایڈووکیٹ اور سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس، ہیومن رائٹس موومنٹ کے ممبر ابھیجیت چودھری بھی کہتے ہیں کہ آسام میں اپنے شہریت کے حقوق کے لیے لڑنے والے لوگوں کے پاس شہریت ترمیمی ایکٹ کے لیے مطلوبہ دستاویزات نہیں ہیں۔ابھیجیت چودھری این آر سی کے عمل کے دوران کم از کم پندرہ سے بیس ہزار دستاویز اور آسام کے نچلے اضلاع سے ایف ٹی کیسز کی جانچ کی ہے۔لیکن بیس ہزارافراد میں سے صرف دو کے پاس ایسے دستاویزات تھے جن کا ذکر شیڈول IA میں ہے۔
ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک دھوکہ اور فریب کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔بلکہ آسام کے ہندو بنگالی دوہرے نفرت کا شکار ہورہے ہیں۔ ایک طرف آسام میں ہندو بنگالیوں کی شہریت دیے جانے کے خلاف ایک بار پھر تحریک شروع ہوگئی ہے۔خدشہ ہے کہ 80کی دہائی والے حالات پیدا ہوجائیں ۔دوسری طرف این آر سی کے بعد ایک بار پھر دستاویز جمع کرنے لیے دفتروں کی خاک چھاننے کے لیے خود کو تیار کرنا پڑے گا۔
مسلمانوں کو یقین دلانے کی کوشش مگر سچائی کیا ہے؟
شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مسلمانوں کی ناراضگی واضح ہے۔شاہین باغ سے شروع ہونے والے احتجاج کی آواز صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں رائے عامہ ہموار ہوئی اور مودی نے سب کے وکاس کی جو شبیہ بنائی تھی اس کوشدید نقصان پہنچے گا۔چناں چہ ایکٹ کے نفاذ کے بعد ایک بار پھر وزارت داخلہ نے مسلمانوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اس قانون کے نفاذ سے مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔وزارت داخلہ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کا موجودہ 18 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہیں بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو ملک کے دیگر باشندوں کو حاصل ہیں۔ اس قانون کے بعد کسی بھی ہندوستانی شہری سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز پیش کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مسلمانوں کو اس قانون سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے؟ دراصل شہریت ترمیمی ایکٹ اور امیت شاہ کے ماضی کے بیانات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حقیقت کچھ اور نظرآتی ہے۔وزیر داخلہ امیت شاہ ماضی میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ دراندازوں کو نکال کردم لیں گے۔اپریل 2019 میں انہوں نے کہاکہ پہلے ہم شہریت ترمیمی بل (CAB) لائیں گے ہر مہاجر کو شہریت ملے گی اور اس کے بعد ہم شہریوں کا قومی رجسٹر لائیں گے۔ اس لیے مہاجرین کے لیے پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن دراندازوں کے پاس پریشان ہونے کی وجہ ضرور ہے۔آگے وہ کہتے ہیں کہ این آر سی صرف بنگال کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ہوگا کیوں کہ ہر جگہ درانداز ہیں۔ 10 دسمبر 2019 کو شاہ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ این آر سی یقینی طور پر آ رہا ہے اور جب اسے نافذ کیا جائے گا تو ایک بھی درانداز خود کو بچا نہیں سکے گا۔مگر سوال یہ ہے کہ امیت شاہ درانداز کس کو بول رہے ہیں ۔یہ واضح نہیں ہے۔
آسام میں این آر سی کے تباہ کن نتائج ہم نے دیکھے ہیں ۔ تقریباً 1.9ملین افراد کو بطور شہری خارج کر دیا گیا ۔کئی نسلوں سے بھارت میں رہنے والے شہری بھی مطلوبہ دستاویزات پیش کرنے سے قاصر تھے۔ان میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کامقصد ہندوؤں کو یقین دلانا تھا جو این آر سی کے عمل کو مطمئن کرنے میں ناکام رہتے ہیں کہ انہیں نکالے جانے یا حق رائے دہی سےمحروم ہونے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سی اے اے مناسب کاغذات کے بغیر ان لوگوں کے لیے شہریت کے راستے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن جو مسلمان اس عمل کو مطمئن کرنے میں ناکام رہتے ہیں ان کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہیں درانداز کے طور پر نشان زد ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔تاہم اگرحکومت این آر سی نافذ نہیں کرنے کاباضابطہ اعلان کرتی ہے اس کے باوجود یہ ایکٹ مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کرے گا ۔اس کو اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دوبھارتی خواتین جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان ہے، نے دو غیر دستاویزی بنگلہ دیشی مردوں جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان سے شادی کی ہے۔غیر ترمیم شدہ شہریت ایکٹ کے تحت دونوں خواتین کے بچوں کوغیر قانونی تارکین وطن تصور کیا جائے گا۔تاہم اس ایکٹ کے بعد شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ بعد ہندو بھارتی خاتون جس نے غیر دستاویزی بنگلہ دیشی مرد سے شادی کی ہے اس خاتون کے بچے کو بھارت کی شہرت مل جائے گی۔مگر بھارتی مسلم خاتون جس نے غیر دستاویزی بنگلہ دیشی مرد سے شادی کی تھی اس خاتون کے بچوں کو کبھی بھی بھارت کی شہریت نہیں ملے گی ۔اس خاتون کے پاس ملک چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا اگر اس کے خاندان کو ملک بدر کردیا جاتا ہے اور وہ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔
وزار ت داخلہ نے باضابطہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترمیمی شہری ایکٹ غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری سے متعلق نہیں ہے اور اس لیے مسلمانوں اور طلباء سمیت لوگوں کے ایک حصے کی یہ تشویش کہ سی اے اے مسلم اقلیتوں کے خلاف ہے بلاجواز ہے۔تاہم وزارت داخلہ کے اس دعوے پر دی وائر کے ایڈیٹر سدھارت وردراجن نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دعویٰ چالاکی اور فریب پر مبنی جھوٹ ہے۔ غیر ملکیوں کا ایکٹ (سیکشن 3) اور پاسپورٹ (انٹری ان انڈیا) ایکٹ (سیکشن 5) پہلے ہی حکومت کو ان افراد کو ملک بدر کرنے کا اختیار دیتا ہے جنہیں وہ غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم سمجھتا ہے۔جہاں تک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر قانونی شہریوں کے ملک بدری کے لیے معاہدہ نہیں ہونے کا سوال ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر قانونی سمجھے جانے والے افراد جیلوں یا حراستی مراکز میں رکھے جائیں گے اور اس کے لیے ملک کے کئی حصوں میں حراستی مراکز قائم جارہے ہیں ۔اس کے علاوہ خوف یہ ہے کہ بھارتی شہریوں کی ایک بڑی تعداد جو زیادہ تر مسلمان ہو گی، حق رائے دہی سے محروم ہوجائے گی۔
وزات داخلہ نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ پر ایک بڑی وضاحت یہ پیش کی ہے کہ ان تین مسلم ممالک میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام داغ دار ہوا ہے۔ تاہم اسلام ایک پرامن مذہب ہونے کے ناطے، مذہبی بنیادوں پر کبھی بھی نفرت،تشددکسی قسم کے ظلم و ستم کو برداشت نہیں کرتا ہے۔شہریت ترمیمی ایکٹ اسلام کو ظلم و ستم کے نام پر داغ دار ہونے سے بچاتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ مغلوں کے نام پر دن رات مسلمانوں کو گالی دینے والے دائیں بازوں کے نظریات کے حاملین کو اسلام کی فکر کب سے ستانے لگی ہے۔ کیا لوگ ظلم و ستم کے شکار صرف مسلم ممالک میں ہی ہوتے ہیں؟ میانمار، چین اور سری لنکا میں بھی مذہبی اقلیتیں پریشان ہیں ۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان تینوں ممالک میں اسلام سرکاری مذہب ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سری لنکا کا بھی ایک ریاستی مذہب بدھ مت ہے۔ میانمار میں امریکی کمیٹی برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے مطابق اگرچہ وہاں کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے، آئین کہتا ہے کہ حکومت بدھ مت کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کرتی ہے جیسا کہ میانمارکے شہریوں کی بڑی اکثریت کا دعویٰ ہے۔ چناں چہ اسلام کی بدنامی کو بچانے کا دعوی ڈھونگ کےعلاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت جس نے تین ہزار سال سے زیادہ عرصے سے دنیا کے تمام حصوں سے آنے والے پناہ گزینوں اورشہریوں کو ڈومیسائل دیے اور ان کا خیرمقدم کیا ہے لیکن اب اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہب کو شہریت (اور ڈومیسائل کے حق) کے حصول کا معیار بنانے کی وجہ سے اس کی کشادہ قلبی ، فیاضی اور مہمان نوازی اور اقدامات وثقافت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے ۔پوری دنیا میں یہ تصورعام ہوتا جارہے کہ بھارت اپنے روایتی اور شاندار ماضی سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے۔اگرچہ وزارت داخلہ یہ دعوی کرتی ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے مسلمانوں پرشہریت ایکٹ کے سیکشن 6 کے تحت ہندوستانی شہریت حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔مگرحقیقت یہ ہے کہ 2003 کے بعد سے ہی شہریت کا قانون کسی بھی غیر قانونی تارکین وطن کو ہندوستان کی شہریت حاصل کرنے سے روکتا ہے۔اب شہریت ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم غیر قانونی تارکین وطن اور بھارت میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے بھارت کی شہریت حاصل کرنے کا دروازہ کھول دیاگیا ہے۔ لیکن غیر قانونی مسلم تارکین وطن اور ان کے بچے جو مسلمان ہوں گے انہیں شہریت حاصل کرنے سے روکا جائے گا۔
دراصل شہریت ترمیمی ایکٹ ہندتو طاقتوں کا مسلمانوں اور مسلم ممالک کے تئیں بدگمانی ، نفرت اور دشمنی پیدا کرنے کا شیطانی کھیل ہے۔بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ ایکٹ اسلاموفوبیا کے واقعات میں اضافے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟ اس کا جواب واضح اور سیدھا ہے کہ ہمیں قانونی راستہ اختیار کرنے کے ساتھ ایک بار پھر پر امن احتجاج اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے کوششیں شروع کرنی ہوں گی۔ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ آنے والی حکومتیں اس ایکٹ میں ترمیم کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔اس کے لیے مسلمانوں اور انصاف و سیکولر پسند سول سوسائٹی کو روایتی طریقے سے ہٹ کر ایک نئی راہ تلاش کرنی ہوگی۔
***
***
شہریت ترمیمی ایکٹ کس قدر خطر ناک ہے اس کی سنگینی کا اندازہ کنگز کالج لندن میں اونتھا چیئر اور سیاست کی پروفیسر نیرجا گوپال جیال کا ’’دی انڈیا فورم‘‘ میں 2020 میں Faith-based Citizenship کے عنوان سے شائع مضمون کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ این آر سی جائز شہریوں کو غیر قانونی تارکین وطن میں اور غیر قانونی تارکین وطن کو بے وطن لوگوں میں تبدیل کرنے کا نام ہے ہے۔ دونوں کا مقدر حراستی کیمپ ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ منتخب طور پر غیر قانونی تارکین کو قانونی حیثیت دیتا ہے اور اقلیتوں کو قانون کے مکروہ استعمال سے دوسرے درجے کا شہری قرار دینے کی کوشش۔ ہندوستان ایک خطرناک دہانے کے کنارے پر کھڑا ہے جہاں نہ صرف اس کی آئینی اقدار بلکہ اس کی اخلاقی کمپاس کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔ پروفیسر نیرجا گوپال جیال اپنے مضمون کے ابتدا میں لکھتی ہیں کہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کو نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے بلکہ ان دونوں کو باری باری حکومت کی اقلیتوں کے تئیں پالیسیوں کے وسیع تناظر میں بھی پڑھنے کی ضرورت ہے چاہے وہ تین طلاق کو جرم قرار دے کر مسلم خواتین کی ’’جبری ترقی‘‘ ہو یا جموں و کشمیر کی لگاتار بندش کا معاملہ ہو یا گزشتہ چند سالوں میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات بالخصوص ہجومی تشدد ہو جس میں قانونی استثنیٰ کے غیر اعلانیہ وعدے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024