بلڈوزر کی دہشت: کانپور انتظامیہ نے 50 سال پرانے مدرسہ اسلامیہ کو منہدم کردیا
لکھنؤ، مئی 9: اتر پردیش حکومت بلڈوزر کا استعمال کر کے رہائشیوں، کاروباری اداروں اور ایک مخصوص کمیونٹی کے تعلیمی مراکز کو نشانہ بنا رہی ہے۔
سب کچھ انسداد تجاوزات مہم کے نام پر کیا جا رہا ہے، تاہم قانون کی حکمرانی کی کھلم کھلا دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
تازہ ترین معاملہ کانپور ضلع کے گھٹم پور میں واقع مدرسہ اسلامیہ سے متعلق ہے۔ پچھلے 50 سالوں سے یہ مدرسہ علاقے میں کام کر رہا ہے۔ بدھ کو گھٹم پور میونسپل کونسل اور گھٹم پور انتظامیہ نے بغیر کوئی نوٹس دیے مدرسہ اسلامیہ کو منہدم کر دیا۔
نگر پالیکا پریشد اور انتظامیہ نے کوئی بات سنے بغیر بلڈوزر کا استعمال شروع کردیا۔ بڑی مشکل سے بچوں کو جانے دیا گیا۔ جب بلڈوزر اتارے گئے تو طلبا کلاس رومز میں پڑھنے میں مصروف تھے۔
مدرسہ انتظامیہ نے عہدیداروں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انتظامیہ نے کاغذات پر نظر ڈالنے کی زحمت بھی نہیں کی۔
مدرسے کے پرنسپل نے گھٹم پور کے ایس ڈی ایم آیوش چودھری سے بات کی اور انھیں موقع پر آنے اور ان کے کاغذات چیک کرنے کو کہا۔ ایس ڈی ایم نے انھیں یقین دلایا کہ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی لیکن اس کے باوجود ایس ڈی ایم نہیں آئے۔
مدرسہ اسلامیہ کی بنیاد تقریباً 50 سال قبل گھٹم پور کے کجیانہ شیو پوری کے رہنے والے اسحاق نے رکھی تھی۔ اسحاق اس کے بانی پرنسپل اور مینیجر تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے داماد نے یہ مدرسہ چلایا۔
دو سال پہلے کسی نے اس وقت کے ایس ڈی ایم ورون پانڈے سے شکایت کی کہ مدرسہ سرکاری زمین پر بنایا گیا ہے۔ انھوں نے حقائق کی تصدیق کیے بغیر مدرسے کے خلاف کارروائی کی اور انھوں نے مدرسہ کی زمین گھٹم پور کی میونسپلٹی کونسل کو الاٹ کی۔
نئے ایس ڈی ایم آیوش چودھری نے مدرسہ کو منہدم کرنے کا حکم دیا۔
گھٹم پور انتظامیہ یا گھٹم پور میونسپل کونسل کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ قواعد کے تحت نوٹس دینا ضروری ہے۔
مدرسہ اسلامیہ کے پرنسپل اور منیجر انتظار نے کہا ’’مدرسہ ہماری زمین پر بنایا گیا ہے اور ہمارے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے کاغذات ہیں۔ ہمارا مدرسہ تسلیم شدہ ہے۔ ہماری زمین نہیں تھی تو حکومت نے تسلیم کیسے کیا؟ کیا یہ بھی تحقیقات سے مشروط ہو سکتا ہے؟ لیکن اس پر کوئی سنوائی نہیں ہوگی۔ میں نے موبائل پر ایس ڈی ایم صاحب سے بات کی۔ انھوں نے یک طرفہ کارروائی کی اور مدرسے کو بلڈوز کر دیا۔ یہ سراسر ناانصافی ہے۔‘‘
حکومت کے اس اقدام کے خلاف مسلم کمیونٹی میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔ مدرسہ انتظامیہ نے کانپور کے قاضی شہر حافظ عبدالقدوس سے ملاقات کی اور انھیں واقعہ سے آگاہ کیا۔ انھوں نے انھیں زمین سے متعلق کاغذات بھی دکھائے۔
قاضی شہر نے کانپور کے ضلع مجسٹریٹ سے ملاقات کی اور انھیں پورے معاملے سے آگاہ کیا۔ انھوں نے اے ڈی ایم سٹی سے بھی ملاقات کی اور انھیں بھی اس معاملے سے آگاہ کیا۔ اے ڈی ایم سٹی نے قاضی شہر سے وعدہ کیا ہے کہ انصاف کیا جائے گا، لیکن ابھی تک کسی اہلکار نے مدرسہ انتظامیہ سے رابطہ نہیں کیا ہے۔