جموں وکشمیر کے لوگوں کا سانس لینا بھی مشکل کر دیا گیا ہے: پی اے جی ڈی

نئی دہلی، اکتوبر 15: پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو تمام طرح کی آزادیوں یہاں تک کہ سانس لینے کی آزادی سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔
الائنس کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے ہفتے کے روز ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ پر منعقدہ پی اے جی ڈی کی میٹنگ کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ جموں وکشمیر کے لوگوں اور یہاں کی تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک ہو کر ان کے بقول مرکزی حکومت کے موجودہ حملوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا وقت آگیا ہے۔
اس موقع پر پی اے جی ڈی کے سرپرست ڈاکٹر فاروق عبداللہ، پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی، عوامی نیشنل کانفرنس کے سینئر نائب صدر مظفر شاہ و دیگر سیاسی لیڈران موجود تھے۔
تاریگامی نے کہا: ’ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں پی اے جی ڈی کی میٹنگ ہوئی جس میں جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ہماری نظر میں جب سے ہمارے آئینی حقوق پر حملہ کیا گیا تب سے لے کر آج تک افسوس ناک صورتحال کا  ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے لوگوں کے لئے سانسیں لینا بھی مشکل بن رہا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا: ’جو بھی ہمارے آئینی حقوق، ہماری آزادی جیسے آزادی اظہار، آزادی پریس بلکہ زندہ رہنے کی آزادی کو بھی دبایا گیا‘۔
مسٹر تاریگامی نے کہا کہ جموں وکشمیر کے لوگوں اور سیاسی جماعتوں کے لئے وقت آگیا ہے کہ وہ ایک ہو کر ان کے بقول دلی کے ان حملوں کے خلاف آواز بلند کریں۔
انہوں نے کہا: ’ہر پولیس اسٹیشن کے باہر والدین کو اپنے بچوں سے ملنے کے انتظار میں بیٹھے دیکھا جا رہا ہے اور اب باہر کے جیلوں میں کشمیریوں کو رکھنے کے لئے جگہ نہیں رہی ہے‘۔
مرکزی وزرا کے اکثر جموں وکشمیر کے دورے پر آنے کو کشمیر کے لوگوں کو پس دیوار کرنے سے تعبیر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’یہ وزرا یہاں دباؤ کو مزید سخت کرنے کو یقینی بنانے کے لئے آتے ہیں تاکہ جو بھی آواز اٹھائے اس کو جیل میں ڈال دیا جائے‘۔
موصوف نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ اگر جموں وکشمیر کو گجرات ماڈل کا جامہ پہنایا جا رہا ہے تو پھر یہاں شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کو کھلے عام بیچنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے؟
جموں انتظامیہ کے حکمنامے، جس میں تحصلیدار کو کسی بھی شخص کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کا اختیار دیا گیا تھا، کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’کسی شہری کو ووٹ ڈالنے کا حق دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے تو اس ضمن میں حکومت کس طرح حکمنامہ جاری کرسکتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا: ’پھر اگلے روز میڈیا سے کہا جاتا ہے کہ اس حکمنامے کو منسوخ کیا گیا ہے، کیا یہ جمہوریت کی تضحیک نہیں ہے‘۔
اس موقع پر نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا: ’میں حکومت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو اس نے پچاس ہزار نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا وہ کہاں گیا‘۔
انہوں نے کہا کہ یہاں صورتحال انتہائی سنگین ہے کیونکہ بے ورز گار نوجوانوں کا گراف کافی بڑھ رہا ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ میں نے جموں خطے میں دچھن اور مارواہ کا دورہ کیا اور وہاں میں نے یہ پایا کہ سب ضلع ہسپتال میں ڈاکٹر ہی نہیں ہے۔