’’قانون کی حکمرانی کی صریح خلاف ورزی‘‘: 87 سابق بیوروکریٹس نے اتر پردیش حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کھلا خط لکھا
نئی دہلی، جولائی 10: جمعہ کے روز 87 سابق بیوروکریٹس کے ایک گروپ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت اترپردیش انتظامیہ کو ’’قانون کی حکمرانی کی صریح خلاف ورزی‘‘ اور حکومت کے بریک ڈاؤن پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایک کھلے خط میں دستخط کنندگان نے اترپردیش میں اختلاف رائے کو ختم کرنے، غیرقانونی قتل و غارت گری، اقلیتی برادریوں کے خلاف مذہبی تبدیلی کے انسداد کے قوانین کا غلط استعمال، نگرانی کو جائز قرار دینے اور کووڈ 19 انتظامیہ میں کوتاہیوں کے لیے مجرمانہ الزامات کے استعمال پر روشنی ڈالی ہے۔
سابق بیوروکریٹس نے کہا ’’ہم بڑھتے ہوئے خطرے کے ساتھ نوٹ کرتے ہیں کہ یوپی میں موجودہ حکومت نے طرز حکمرانی کے ایک نئے نمونہ کا آغاز کیا ہے جو آئین کی اقدار اور قانون کی حکمرانی سے ہر گزرتے دن آگے بڑھتا ہے۔‘‘
دستخط کرنے والوں نے الزام لگایا کہ اترپردیش میں انتظامیہ کی تمام شاخیں منہدم ہوگئیں۔ انھوں نے کہا ’’ہمیں خدشہ ہے کہ اس کی جانچ نہ کی گئی تو ریاست میں پولیٹی اور اداروں کو پہنچنے والے نقصان کا نتیجہ خود جمہوریت کے خاتمے اور تباہی کا باعث بنے گا۔‘‘
سابق سرکاری ملازمین نے اس پر بھی روشنی ڈالی کہ کیسے اترپردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے پچھلے سال شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔
انھوں نے لکھا ’’یہاں تک کہ جب CAA ،NRC اور NPR کے خلاف ملک بھر میں پرامن احتجاج شروع ہوئے، یو پی حکومت علی گڑھ میں پرامن طور پر احتجاج کرنے والے طلبا پر پولیس حملوں سمیت، جبر کے اسلحہ کے ساتھ تقریباً فوری طور پر جواب دینے کھڑی ہوگئی۔ جس میں آنسو گیس کے گولوں سمیت عام طور پر دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہونے والے اسٹین گرینیڈ کا استعمال کرتی ہے، مظاہرین کے خلاف 10،900 ایف آئی آر درج کرتی ہے اور پولیس فائرنگ کے نتیجے میں 22 افراد کی ہلاکت کو نظرانداز کرتی ہے۔‘‘
دستخط کنندگان نے یہ بھی بتایا کہ گذشتہ سال لکھنؤ میں کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ممبروں کی عوامی تصاویر کے ساتھ ان پر عوامی املاک کو نقصان پہنچانے اور تشدد کو بھڑکانے کے الزامات عائد کرنے والے ہورڈنگز لگائے گئے تھے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ ’’پر امن طریقے سے احتجاج کرنے والے طلبا، اقلیتوں، اختلاف رائے دہندگان اور دیگر افراد پر پولیس کے حملوں اور ان پر تشدد کو فوری طور پر روکا جائے اور ’جانب دارانہ‘ قانون کے تحت عوامی املاک کو ہونے والے مبینہ نقصان کی وصولی کو بند کیا جائے۔‘‘
ریاست میں ایکسٹرا جوڈیشیل قتل کے بارے میں بات کرتے ہوئے بیوروکریٹس نے کہا کہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 سے لے کر 2020 تک 124 مبینہ مجرموں کو 6،476 ’’انکاؤنٹرز‘‘ میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔
دستخط کنندگان نے خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’آدتیہ ناتھ کی سربراہی میں انکاؤنٹر مہم نے نئی حدوں کو عبور کیا ہے، کیوں کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان مقابلوں میں مارے جانے والے زیادہ تر افراد یا تو چھوٹے مجرم تھے یا بے گناہ تھے، جن کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ مزید وہ بنیادی طور پر مسلمان، دلت اور دیگر پسماندہ طبقات سے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگست 2020 تک ہلاک ہونے والوں میں نمایاں طور پر مسلمان ہی ہیں‘‘
سابق سرکاری ملازمین نے اس بات کی نشان دہی کی کہ کیسے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون نے پولیس کو ان مسلم مردوں کے خلاف متعصبانہ مقدمات درج کرنے کی اجازت دے دی جنھوں نے ہندو خواتین سے شادی کی تھی یا ان کے ساتھ تعلقات تھے۔
سابق بیوروکریٹس نے کہا ’’اس آرڈیننس کے صرف ایک ماہ کے بعد 16 مقدمات میں 86 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ 54 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں مرکزی ملزم کے دوست اور کنبہ کے افراد بھی شامل ہیں۔ تمام مقدمات کے اہم ملزم مسلمان مرد ہیں۔‘‘
سابق بیوروکریٹس نے اس کے بعد کووڈ 19 بحران پر بد انتظامی کے لیے اتر پردیش حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے دیہی علاقوں میں تباہ حال صحت کی سہولیات، آکسیجن کی قلت کی وجہ سے اموات اور لاشوں کے ندیوں میں پائے جانے اور ساحلوں پر دفنانے کے بارے میں بات کی۔
سابق بیوروکریٹس نے اس بات کی نشان دہی بھی کی کہ کس طرح آدتیہ ناتھ نے ریاست میں آکسیجن کی کمی ہونے کی تردید کی اور کہا کہ عوامی طور پر ایسے دعوے کرنے والوں کو غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا جائے گا۔
اس گروپ نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اترپردیش حکومت ریاست کے صحت کے نظام میں عدم استحکام کو اجاگر کرنے والوں کو ہراساں کرنا بند کرے۔