بی جے پی کارکنان نے پی ایم مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کی اسکریننگ کے خلاف TISS کے باہر احتجاج کیا
نئی دہلی، جنوری 28: بھارتیہ جنتا پارٹی کی ممبئی یونٹ کے اراکین نے ہفتہ کو شہر کے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے باہر بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کی مجوزہ اسکریننگ کے خلاف احتجاج کیا۔
زعفرانی پارٹی کے یووا مورچہ کے صدر تاجندر سنگھ ٹوانہ نے الزام لگایا کہ ’’ہندوستان مخالف فلم‘‘ کو مذموم عزائم کے ساتھ دکھایا جا رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ٹوانہ نے کہا ’’انسٹی ٹیوٹ کے حکام ہمارے خدشات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ ہم احتجاج جاری رکھیں گے۔‘‘
جمعہ کے روز ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے طلبا کے گروپ پروگریسو اسٹوڈنٹس فورم نے اعلان کیا تھا کہ وہ کیمپس میں ’انڈیا: دی مودی کویشچن‘ نامی دستاویزی فلم دکھائے گا۔
تاہم یونیورسٹی نے کہا ہے کہ اس نے ایسی کسی بھی اسکریننگ کی اجازت نہیں دی ہے ’’جس سے تعلیمی ماحول خراب ہو اور کیمپس میں امن اور ہم آہنگی کو خطرہ ہو۔‘‘
ہفتے کے روز یونیورسٹی نے طلبا کو دوبارہ ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے کہا کہ امن اور ہم آہنگی میں خلل ڈالنے والی کسی بھی سرگرمی سے متعلقہ ادارہ جاتی قوانین کے ذریعے نمٹا جائے گا۔ اس نے کیمپس میں صحافیوں اور باہر کے لوگوں کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
تاہم پروگریسو اسٹوڈنٹس فورم نے کہا کہ وہ دستاویزی فلم کی نمائش نہیں روکے گا۔
فورم نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا ’’ ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ TISS [ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز] کے طلبا بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھیں گے۔‘‘
پروگریسو اسٹوڈنٹس فورم نے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز اور دیگر یونیورسٹیوں میں طلبا برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ بی جے پی حکومت کی طرف سے ’’پابندی اور آزادی اظہار پر حملے کے خلاف آواز اٹھائیں۔‘‘
یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی میں بی بی سی کی دستاویزی فلم کی اسکریننگ میں خلل پڑا۔
اگرچہ دستاویزی فلم پر ہندوستان میں پابندی ہے لیکن اس کے پائریٹڈ لنکس کو آن لائن پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے۔
20 جنوری کو حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز 2021 کے تحت دستیاب ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یوٹیوب اور ٹوئٹر کو دستاویزی فلم کے کلپس کو شیئر کیے جانے سے روکنے کے لیے ہدایات جاری کی تھیں۔ وزارت خارجہ نے اس دستاویزی فلم کو ’’ایک خاص بدنام بیانیہ کو آگے بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ایک پروپیگنڈے کا حصہ‘‘ قرار دیا تھا۔