بلقیس بانو کیس کے مجرم واضح طور پر نہیں چاہتے کہ یہ بنچ ان کی معافی کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرے: سپریم کورٹ

نئی دہلی، مئی 3: سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف نے منگل کو کہا کہ یہ واضح ہے کہ بلقیس بانو کیس کے مجرم ان کی بنچ سے بچنے کے لیے لگاتار عدالتی سماعتوں میں طریقۂ کار سے متعلق مسائل کو اٹھا رہے ہیں۔

جسٹس جوزف اور جسٹس بی وی ناگارتھنا کی ایک ڈویژن بنچ درخواستوں کے ایک بیچ کی سماعت کر رہی ہے، جس میں بانو کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست بھی شامل تھی، جس میں گجرات حکومت کے ذریعے ان 11 مجرموں کو معافی دینے کے فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے جنھیں 2002 کے فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور اس کے خاندان کے 14 افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

مجرموں کو 15 اگست کو ہندوستان کی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر رہا کیا گیا تھا۔

منگل کی سماعت میں کچھ مجرموں کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے دعویٰ کیا کہ بانو نے عدالت میں یہ کہتے ہوئے جھوٹا حلف نامہ داخل کیا ہے کہ انھوں نے کیس کے نوٹس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انھوں نے بلقیس پر عدالت میں ایک ’’سنگین دھوکہ دہی‘‘ کا الزام لگایا کیوں کہ سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جب محکمہ ڈاک نوٹس پیش کرنے گیا تو مجرمان اسٹیشن سے باہر تھے۔

لیکن جسٹس جوزف نے غصے کا اظہار کیا کیوں کہ وکیل نے کیس میں جوابی حلف نامے داخل کرنے کے لیے التوا کا مطالبہ کیا۔

انھوں نے کہا ’’یہ واضح ہے کہ یہاں کیا کوشش کی جا رہی ہے۔ میں 16 جون کو ریٹائر ہو جاؤں گا۔ چوں کہ یہ چھٹیوں کے دوران ہے، اس لیے میرا آخری کام کا دن جمعہ 19 مئی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ یہ بنچ اس معاملے کی سماعت کرے۔ لیکن یہ میرے لیے مناسب نہیں ہے۔ ہم نے بالکل واضح کر دیا تھا کہ ہم اس معاملے کو نمٹانے کے لیے سنیں گے۔ آپ عدالت کے افسر ہیں۔ اس کردار کو مت بھولیے۔ آپ کیس جیت سکتے ہیں، یا ہار سکتے ہیں۔ لیکن اس عدالت میں اپنا فرض مت بھولیے۔‘‘

جسٹس جوزف نے چھٹی کے دوران کیس سننے کی پیش کش کی۔ لیکن سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے، جو مرکز اور گجرات حکومت کی طرف سے پیش ہوئے، اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

ایڈوکیٹ شوبھا گپتا نے، جو بانو کی طرف سے پیش ہوئیں، جسٹس جوزف پر زور دیا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل اس معاملے کا جلد فیصلہ کریں۔ انھوں نے دلیل دی کہ مجرم جان بوجھ کر انتظامی بنیادوں پر کیس میں تاخیر کر رہے تھے۔

ایڈوکیٹ ورندا گروور نے بھی عدالت سے درخواست کی کہ وہ مجرموں کو ’’اس طرح انصاف میں رکاوٹ پیدا کرنے‘‘ کی اجازت نہ دیں۔

لیکن عدالت نے سماعت جولائی تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا اور مجرموں کے وکلاء سے کہا کہ وہ دو ہفتوں میں اپنے جواب داخل کریں۔ 9 مئی کو درخواستوں پر غور کیا جائے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہاؤس کیپنگ کی رسمی کارروائیاں مکمل ہوں۔

18 اپریل کو پچھلی سماعت کے دوران ڈویژن بنچ نے گجرات حکومت سے ان بنیادوں کی وضاحت کرنے کو کہا تھا جن کی بنیاد پر اس نے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی اجازت دی تھی۔

بنچ نے نوٹ کیا تھا کہ ’’ایک حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی اور کئی لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ آپ متاثرہ کے کیس کا سیکشن 302 [قتل] کے عام مقدمات سے موازنہ نہیں کر سکتے۔ جس طرح آپ سیب کا سنترے سے موازنہ نہیں کر سکتے، اسی طرح قتل عام کا موازنہ ایک مہیب قتل سے نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

عدالت نے گجرات حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا اس نے مجرموں کی جلد رہائی کی درخواستوں پر فیصلہ کرتے وقت اپنا ذہن استعمال کیا؟

ججوں نے کہا تھا کہ ’’آج بلقیس ہے لیکن کل کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ معافی دینے کی اپنی وجوہات نہیں بتاتے ہیں، تو ہم اپنے نتائج اخذ کریں گے۔‘‘