بہار: سارن ضلع میں جعلی شراب پینے کے سبب مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 21 ہو گئی
نئی دہلی، دسمبر 15: بہار کے سارن ضلع میں جعلی شراب سے متعلق سانحہ میں بدھ کے روز مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 21 ہو گئی۔
ریاست کے وزیر برائے امتناع سنیل کمار نے کہا کہ زیادہ تر اموات سارن کے مشرک اور اسوا پور علاقوں سے ہوئی ہیں۔
بہار میں اپریل 2016 سے شراب کی فروخت اور استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم ریاست میں جعلی شراب پینے سے شہریوں کے مرنے اور بیمار ہونے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق صرف سارن ضلع میں اس سال ایسے نو واقعات میں تقریباً 50 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بدھ کے روز مرنے والوں میں سے کچھ کے اہل خانہ نے کہا تھا کہ سارن میں مرنے والوں نے مقامی جوائنٹ میں دیسی بنی ہوئی شراب پی تھی اور گھر واپس آنے کے بعد بیمار ہو گئے تھے۔
پی ٹی آئی کے مطابق سارن کے میڈیکل آفیسر انچارج ساگر دُلال سنہا نے کہا ’’ان میں سے زیادہ تر کو چھپرا کے ایک ہسپتال میں مردہ قرار دیا گیا، جو ضلع ہیڈکوارٹر ہے۔ کچھ، جو منگل کی صبح سے بیمار تھے، علاج کے دوران فوت ہو گئے۔‘‘
ضلعی انتظامیہ نے کہا کہ اس نے اہلکاروں کی ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جو دیہات کا دورہ کریں گی اور سوگوار خاندانوں سے ملاقات کریں گی تاکہ ان لوگوں کا پتہ لگایا جا سکے جنھوں نے غیر قانونی شراب فراہم کی ہو۔
سارن میں ہونے والی اموات نے بدھ کو ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں بھی ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے، جو اپوزیشن میں ہے، کہا تھا کہ یہ واقعہ ریاست میں شراب پر پابندی کی ’’مکمل ناکامی‘‘ کو ظاہر کرتا ہے۔
بھگوا پارٹی کے ایم ایل ایز نے اسمبلی کے باہر مظاہرہ بھی کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ بہار میں پولیس اور شراب کے ناجائز تاجروں کے درمیان گٹھ جوڑ ہے۔
سابق نائب وزیر اعلیٰ ترکشور پرساد نے کہا ’’ہم نے ہمیشہ شراب پر پابندی کی حمایت کی ہے، یہاں تک کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو اسے متعارف کرایا گیا تھا۔ لیکن اس کا نفاذ مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔‘‘
تیجسوی یادو نے صحافیوں کو بتایا کہ بی جے پی کو یاد رکھنا چاہیے کہ بہار نے اس کے اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی کئی ایسے سانحات دیکھے ہیں۔
انھوں نے کہا ’’اس (بی جے پی) کے اپنے کئی لیڈروں پر بھی شراب کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اسے منافقانہ شور نہیں مچانا چاہیے بلکہ حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے جو شراب کی کھپت کو روکنے کے لیے دیانت دارانہ کوششیں کر رہی ہے۔‘‘