گاندھیائی اصولوں کا لحاظ رکھے بغیر گاندھی جینتی کیسی؟

بھتیہروا آشرم اورگاندھی جی کے قائم کردہ اسکو ل کی حالت

افروز عالم ساحل

گزشتہ چار سال قبل چمپارن ستیہ گرہ کا صد سالہ جشن ملک بھر میں منایا گیا۔ کروڑوں روپے خرچ کیے گئے، لیکن جو آشرم اس ستیہ گرہ کا ایک اہم مرکز تھا وہ اب بھی ملک اور دنیا سے منقطع ہے۔ بہار کے مغربی چمپارن میں مقیم بھتیہروا آشرم بابائے قوم گاندھی جی کا تاریخی آشرم ہے۔

ایک سو چار سال پہلے گاندھی جی اور ان کے ساتھی اس آشرم اور آس پاس کے تمام علاقوں میں ٹرین کے ذریعے سفر کرتے تھے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ٹرین پٹریوں سمیت غائب ہو چکی ہے۔

بھتیہروا گاؤں شاید سو سال پہلے اتنا بدحال نہیں تھا جتنا آج ہے۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گاندھی جی نے یہاں کی حالت زار دیکھ کر کام شروع کیا تھا۔ ان کا سب سے زیادہ زور تعلیم، صحت اور صفائی پر تھا لیکن آج ان تینوں معاملوں میں یہ علاقہ سب سے پسماندہ ہے۔ اس علاقے میں بنیادی سہولتیں بھی موجود نہیں ہیں۔

آپ کو بتا دیں کہ بھتیہروا آشرم ہالٹ 24 اپریل 2015 کو یہ کہہ کر بند کردیا گیا تھا کہ اس چھوٹی لائن کو بڑی لائن میں تبدیل کیا جائے گا لیکن آج تک یہ وعدہ وفا نہیں ہو سکا۔

بند پڑا بھتیہروا ہالٹ پر بچوں کے ساتھ

گاؤں کے لوگ نتیش کمار پر اپنا غصہ اتارتے نہیں تھکتے۔ گاؤں کے ایک معمر شخص رتنیش لال کا کہنا ہے کہ لالو پرساد یادو نے پہلی بار اس طرف توجہ دی تھی جب وہ وزیر ریلوے بنے تھے۔ 2 اکتوبر 2004 کو یہاں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھتیہروا آشرم ریلوے ہالٹ کو ایک ماڈل اسٹیشن بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر وہ ریلوے کے وزیر باقی رہتے تو شاید یہ ہالٹ اب تک بہار کا ماڈل اسٹیشن بن چکا ہوتا۔

واضح ہو کہ نتیش کمار کی گزشتہ حکومت کے ذریعہ اسے آدرش پنچایت قرار دیا گیا تھا۔ میڈیا بھی اپنی رپورٹوں میں اسے آدرش پنچایت بتاتی رہی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور آدرش گرام پنچایت کا جو خواب گاندھی جی نے چمپارن ستیہ گرہ کے دوران دیکھا تھا وہ آج بھی اپنی تعبیر ڈھونڈ رہا ہے۔

مہاتما گاندھی کے پڑ پوتے تشار گاندھی کہتے ہیں، اس آشرم کے بارے میں مَیں نے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو خطوط لکھ کر اپنی فکر کا اظہار کیا تھا۔ ایک آشرم کو تو سنبھال کر رکھنے کا انتظام تو ہونا ہی چاہیے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ جب چمپارن ستیہ گرہ کا صدشالہ جشن منایا گیا تو میں بھی ایک پروگرام میں شریک ہوا تھا تب میں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں ضلع چمپارن ستیہ گرہ کی سرزمین ہے۔ اس لیے اس ضلع کا نام ’چمپارن ستیہ گرہ بھومی‘ رکھ دیا جائے۔ تب وزیر اعلیٰ نیتیش کمار نے کہا تھا کہ یہ تو ابھی کر دیں گے اور چیف سکریٹری کو بلا کر کچھ ہدایت بھی کی لیکن پانچ سال ہوگئے کچھ بھی نہیں ہوا۔ چمپارن کی اہمیت یہ شاید سمجھتے بھی نہیں ہیں۔

تشار گاندھی مزید کہتے ہیں، ہم نے اس بطخ میاں کو بھی بھلا دیا جس نے باپو کی جان بچائی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ جب چمپارن ستیہ گرہ کا صد سالہ جشن منایا گیا تب بھی بطخ میاں کا ذکر کہیں نہیں ہوا۔ جبکہ ان کے بارے میں خوب تشہیر ہونی چاہیے تھی ملک کو ان کے بارے میں جانکاری دی جانی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی۔

گاندھی اسمارک و سنگراہالیہ کے انچارج ڈاکٹر شیو کمار مشرا کا کہنا ہے کہ جب یہاں سیاحوں کی نقل وحرکت کی کوئی سہولت نہیں ہے تو پھر سیاح کیسے آئیں گے؟ کم از کم حکومت کو ایک سرکاری بس تو چلانی چاہیے تھی۔ لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے باوجود ہر سال دو تین سو سیاح دیگر ریاستوں اور ممالک سے آتے ہیں۔

گاندھی جی 1917 میں اس آشرم سے لوگوں کا دیسی علاج کرتے تھے لیکن آج اس گاؤں کے لوگوں کو علاج کے لیے نرکٹیا گنج یا گوناہا جانا پڑتا ہے۔

گاندھی جی نے اسی آشرم سے اپنا سوچھتا ابھیان چلایا تھا، لیکن آج سو سال گزرنے کے بعد بھی وزیر اعظم نریندر مودی کا ’سوچھتا ابھیان‘ یہاں تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ آشرم کے آس پاس کے لوگ اب بھی کھلے میں حاجت رفع کے لیے جاتے ہیں۔

گاندھی جی نے یہاں اپنی نگرانی میں 20 نومبر 1917 کو ایک اسکول قائم کیا تھا۔ یہ گاندھی جی کے ذریعہ چمپارن میں کھولا گیا دوسرا اسکول تھا۔ اس سے قبل 13 نومبر، 1917 کو انہوں نے بڑہروا لکھن سین میں پہلا مفت اسکول قائم کیا تھا اور پھر جنوری 1918 کو تیسرا اسکول مدھوبن میں قائم کیا تھا۔

اس بھتیہروا والے اسکول کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کستوربا گاندھی خود رہ کر بچوں کی تعلیم کی نگرانی کرتی تھیں جبکہ گاندھی جی خود مہینوں رہ کر صفائی اور صحت پر کام کرتے تھے۔ یہاں پڑھانے کے لیے گاندھی جی نے خاص طور پر بمبئی صوبے کے وکیل سداشیو لکشمن سومن، بال کرشن یوگیشور پروہت اور ڈاکٹر دیو کومامور کیا تھا۔

کوویڈ لاک ڈاؤن سے پہلے جب ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے اس اسکول کا دورہ کیا تھا تو پایا کہ اسکول کی پرانی عمارت کافی بوسیدہ ہو چکی ہے، اگرچہ پاس کی پرانی عمارت کے کچھ کمروں میں نیا رنگ و روغن دکھائی دیا۔ کلاس رومس خالی ہیں، نہ بنچ ہیں نہ ہی کرسیاں اور ٹیبل ہیں۔زمین پر پلاسٹک کے تھیلے و بورے بچھے ہیں، جنہیں بچے خود گھروں سے لے کر آتے ہیں۔ یہ حال ہے اس اسکول کا جس کو گاندھی جی نے قائم کیا تھا۔ یہاں پڑھانے والے اساتذہ اور پڑھنے والے بچوں سے بات کی تو یہ تصویر صاف ہونے میں دیر نہیں لگی کہ جو حالت اس اسکول کی ہے وہی اس ملک میں گاندھی جی کے نظریات کی ہے۔

گاندھی جی نے اس اسکول کو یاد کرتے ہوئے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے ’لوگوں نے بھتیہروا میں اسکول کا جو چھپر بنایا تھا وہ بانس اور گھاس کا تھا، کسی نے رات کو جلا دیا۔ شک تو آس پاس کے انگریزوں کے آدمیوں پر ہوا تھا۔ پھر سے بانس اور گھاس کا مکان بنانا مناسب معلوم نہیں ہوا۔ یہ اسکول سومن اور کستوربا کے ذمہ تھا۔ مسٹر سومن نے اینٹوں کا پکا مکان بنانے کا فیصلہ کیا اور ان کے اس کام میں دوسروں نے بھی ساتھ دیا، دیکھتے دیکھتے اینٹوں کا مکان بن کر تیار ہو گیا اب پھر سے مکان کے جل جانے کا ڈر نہ رہا۔ اس طرح اسکول، صفائی اور علاج کے کاموں سے لوگوں میں رضاکاروں کے تئیں اعتماد اور احترام میں اضافہ ہوا اور ان پر اچھا اثر پڑا۔‘

یہ اسکول پہلے آشرم میں ہی چلتا رہا بعد میں اسے قریب میں ہی منتقل کردیا گیا۔ لیکن پہلی بار جس کھپریل کی عمارت میں گاندھی کا یہ اسکول شروع ہوا تھا، اسے آج بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔ اسی کھپریل میں اسکول گھنٹی اور کستوربا کی آٹے کی چکی بھی محفوظ ہے۔

1964 میں یہ اسکول اس آشرم سے قریب ایک نئے کیمپس میں چلا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1959 میں ملک کے وزیر تعلیم ذاکر حسین اس آشرم میں آئے تھے۔ جب انہوں نے اس اسکول کی حالت دیکھی تو بہت رنجیدہ ہوئے۔ انہوں نے حکومت کو ایک تجویز بھیجی کہ اسکول پر توجہ دی جائے اور اسے بہتر طریقہ سے چلایا جائے۔ تب اس اسکول کو بہار حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا۔

1937 میں گاندھی جی نے روزگار کی تعلیم کے فروغ پر زور دیا۔ اس مشن میں ڈاکٹر ذاکر حسین ان کے ساتھ تھے۔ ذاکر حسین کی قیادت میں، بنیادی تعلیم کانصاب بنا۔ 7 اپریل 1939 کو گاندھی جی کے شکشا منتر کی بنیاد پر چمپارن کے ورنداون علاقے میں 35 بنیادی اسکول کھولے گئے، اب ان میں آدھے بھی نہیں بچے ہیں۔

مہاتما گاندھی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے،’’میں کچھ وقت کے لیے چمپارن نہیں جا سکا اور جو اسکولس وہاں چل رہے تھے، وہ ایک ایک کر کے بند ہو گئے۔ میرے ساتھیوں اور میں نے بہت سے ہوائی قلعے تعمیر کیے تھے، لیکن کچھ عرصے بعد وہ سب ختم ہو گئے۔‘‘

گاندھی جی نے اپنی سوانح عمری میں ایک اور جگہ لکھا ہے، ’میں تو چاہتا تھا کہ چمپارن میں شروع کیے گئے کام کو جاری رکھ کر لوگوں میں کچھ سالوں تک کام کروں، مزید اسکول کھولوں اور زیادہ گاؤں میں داخل ہو جاؤں۔ علاقہ تیار تھا۔ لیکن خدا نے اکثر میری خواہشات پوری نہیں ہونے دی۔ میں نے سوچا کچھ تھا اور دیو مجھے گھسیٹ کر لے گیا ایک دوسرے کام میں۔ ‘

گاندھی جی کے نظریات آج گوڈسے کے نظریات کے مقابلے میں کہاں ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 1952 میں گورکھپور کے پکی باغ میں جس سرسوتی ششو مندر اسکول کو پانچ روپے ماہانہ کرایہ سے شروع کیا گیا تھا آج اس اسکول کی ہزاروں شاخیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، جبکہ گاندھی کے نظریاتی اسکولوں کی تعداد ایک بھی نہیں بڑھ سکی ہے بلکہ کم ہی ہوئے ہیں۔

جامعہ اور ہندو مسلم اتحاد

جب جامعہ کے ایک طالب علم نے گاندھی جی سے پوچھا ’’طلبا ہندو مسلم اتحاد کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘

20 اپریل 1946 کو گاندھی جی بالیکا آشرم گئے۔ پیارے لال کے مطابق، ’’گاندھی جی بالیکا آشرم سے سیدھے اپنی رہائش گاہ واپس جانے والے تھے۔ لیکن جامعہ ملیہ کے کچھ طلباء اور اساتذہ نے وہاں آکر ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق کبھی جامعہ آئیں۔ گاندھی جی نے کہا ’کبھی کا مطلب ابھی ہونا چاہیے۔ اتنی دور آکر آپ کے جامعہ میں گئے بغیر میں واپس نہیں جا سکتا۔“ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گاندھی جی کا طلبا نے جو استقبال کیا اس سے متاثر ہوکر انہوں نے کہا’’ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے آ کر میں نے جہاں کے پریوار کا رکن ہونے کا اپنا دعویٰ صحیح ثابت کیا ہے۔

اس کے بعد گاندھی جی نے لوگوں سے سوال پوچھنے کے لیے کہا۔

ایک طالب علم نے پوچھا ’’طلبا ہندو مسلم اتحاد کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘

گاندھی کا جواب تھا’’راستہ آسان ہے۔ اگر سب کے سب ہندو بھی ناقابلِ فہم ہوجائیں اور آپ کو بھلا برا کہیں تب بھی آپ انہیں اپنا بھائی سمجھنا بند نہ کریں اور یہی مشورہ ہندوؤں کے لیے بھی ہے۔ کیا یہ ناممکن ہے؟ نہیں، یہ مکمل طور پر ممکن ہے اور جو کام ایک فرد کرسکتا ہے وہ ایک گروہ بھی کر سکتا ہے۔

آج سارا ماحول آلودہ ہے۔ اخبارات ہر طرح کی الٹی سیدھی افواہیں پھیلا رہے ہیں اور لوگ بغیر سوچے سمجھے ان پر یقین کر رہے ہیں۔ اس سے لوگوں میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے اور ہندو اور مسلمان دونوں ہی انسانیت کو بھول کر آپس میں جنگلی جانوروں کی طرح سلوک کرنے لگتے ہیں۔ دوسرا فریق کیا کر رہا ہے، کیا نہیں، اس کا خیال کیے بغیر ہر انسان مہذب سلوک کرے، اسی میں اس کی خوبصورتی ہے۔ مہذب سلوک کے بدلے مہذب سلوک کرنا تو سودے بازی ہوئی۔ ایسا تو چور ڈاکو بھی کرتے ہیں۔ اس میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ انسانیت کا سلوک نفع و نقصان کا حساب لگا کر نہیں کیا جاتا۔ اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان کو اپنی طرف سے مہذب سلوک کرنا چاہیے۔

اگر تمام ہندو میری بات مان لیں یا سارے مسلمان ہی میرے مشورے پر چلنے لگیں تو ہندوستان میں ایسا امن قائم ہوجائے گا جسے کوئی چھڑی یا لاٹھی نہیں توڑ سکے گی۔ جب دوسرا فریق انتقام کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھائے گا یا کوئی اشتعال انگیز کام نہیں کرےگا تب شرارتی لوگ بے کار کے جھگڑے سے جلد ہی بور ہو جائیں گے۔ ایک انجان قوت اس کے اٹھائے ہوئے بازو کو پکڑ لے گی اور اس کا بازو اس کی تکلیف کو قبول کرنے سے انکار کردے گا۔ آپ سورج پر دھول پھینک کر دیکھیں اس سے سورج کی چمک میں کمی نہیں آئے گی۔ ضرورت صرف روح میں عقیدت اور صبر وبرداشت کو بسانے کی ہے۔ خدا مہربان ہے اور ناانصافی کو ایک حد سے تجاوز ہونے دیتا ہے۔

اس ادارے کی تعمیر میں میرا بھی ہاتھ رہا ہے۔ اس لیے آپ سے اپنے من کی بات کہہ کر مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔ ہندوؤں سے بھی میں یہی بات کہتا رہا ہوں۔ آپ ہندوستان اور دنیا کے لیے مثال قائم کریں، یہ میری خواہش ہے۔‘