بھارتی مسلمان: ’انکار اور محرومی‘

مسلم سماج کی حالت زار کے پس پردہ عوامل کا ایک معروضی جائزہ

تبصرہ: شبیع الزماں (پونے)

سابق پولیس آفیسر جناب عبدالرحمان کے قلم سے ایک فکر انگیز کتاب:’’Denial and Diprivation‘‘
آج ملک میں مسلمانوں کی جو المناک زندگی بنادی گئی ہے اس سے ہر درد مند مسلمان کا دل دکھتا اور کڑھتا ہے۔ ہندوستانی مسلمان اپنی تاریخ کے سب سے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ سیاسی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی ان کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی اس حالت زار کی سنگینی کو سمجھنے اور انحطاط کے اسباب کا پتہ لگانے کی مستقل کوششیں مختلف زاویوں سے کی جا رہی ہیں۔ جناب عبدالرحمان آئی پی ایس کی تصنیف Denial and Deprivation بھی ان ہی سنجیدہ کوششوں کا ایک حصہ ہے ۔
کتاب کے مصنف عبدالرحمان صاحب انڈین پولیس سروس کے ممبر رہے ہیں اور پچھلے بیس سالوں میں مختلف مناصب پر اپنے فرائض نبھا چکے ہیں۔ سماج کے کمزور طبقات کے لیے وہ لکھتے اور بولتے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے ہندی میں ان کی کتاب سچر کی سفارشات منظر عام پر آچکی ہے۔
کتاب کا موضوع وہی ہے جو آج کل ہر در مند ہندوستانی مسلمان کا ہے، لیکن انداز بیاں مختلف ہے۔ کتاب رونے دھونے اور گھسے پٹے بیانیوں کی تکرار کے بجائے ملک کے مسلمانوں کی موجودہ حالت کا بہترین انداز میں تحلیل و تجزیہ کرتی ہے۔ کتاب کا انداز معروضی ہے۔ مصںف نے ہوائی فائرنگ اور دماغوں کا شکار کرنے کے بجائے ہر بات کو معقول تجزیوں، مناسب ڈیٹا، مختلف ذرائع اور رپورٹس کے ذریعے پیش کیا ہے جس کے سبب کتاب کا معیار بہت اونچا ہو گیا ہے۔ کتاب اپنے قاری کو ایسا مواد فراہم کرتی ہے جس کی بناء پر ملّی حلقوں کے باہر اصل دھارے کے ہندوستانی فورموں میں بھی قاری اپنی بات اعتماد کے ساتھ رکھ سکتا ہے۔ کتاب مکمل طور سے ایک تحقیقی تصنیف ہے۔
کتاب سچر کمیٹی اور رنگناتھن مشرا کمیٹی کی روشنی میں مسلمانوں کی محرومی اور زبوں حالی کے اسباب بتاتی ہے۔ عام طور سے مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے لیے خود انہیں ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن مصنف نے معقول تجزیوں، سرکاری اعداد و شمار، سروے اور رپورٹس کے ذریعے بتایا ہے کہ اس حالت زار کے لیے صرف مسلمان نہیں بلکہ حکومتیں اور نام نہاد سیکولر پارٹیاں ذمہ دار ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو منصوبہ بند اور باضابطہ طریقے سے اس قعر ذلت میں دھکیلا ہے۔ دونوں کمیشنوں کا قیام کانگریس کی حکومت میں عمل میں آیا تھا اس کے باوجود کانگریس نے دونوں ہی کمیٹیوں کی سفارشات کو روبہ عمل لانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔
ہندوستان میں ملی سیاست کے افق کو بعض جذباتی موضوعات جیسے برقع، طلاق اور نماز تک محدود کرکے رکھ دیا گیا ہے۔لیکن عبدالرحمان آئی پی ایس اس سے آگے بڑھ کر مسلمانوں کی حالت کا تجزیہ ان کی آبادی، معیشت، غربت، بے روزگاری، کھپت کی سطح، بینک لون لینے کی قابلیت، انفراسٹرکچر، سماجی سہولتیں اور گورنمنٹ جاب کے اعتبار سے کرتے ہیں دراں حالیکہ انہوں نے ٹھیٹ ملی امور جیسے اردو، مدرسہ اور وقف پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ کتاب امت کے تحفظ سے آگے بڑھ کر اس کی ترقی پر گفتگو کرتی ہے۔
کتاب بیس ابواب پر مشتمل ہے۔ مسلم آبادی کی بحث، سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کا فی صد، مسلم علاقوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان، بینک اور مسلمان کے علاوہ مسلم بیک ورڈ کلاس کی شیڈول کاسٹ میں شمولیت اور اس پر ہونے والی سیاست کتاب کے اہم ترین مباحث ہیں۔ یہ ابواب کتاب کی اصل جان ہیں جس میں قاری کی معلومات میں حیرت انگیز اضافہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر پسماندہ مسلمانوں کو ایس سی کوٹے کی سہولتوں سے محروم کرنے کی کوششوں پر کتاب میں پرزور بحث کی گئی ہے اور اس کا معقول حل بھی تجویز کیا گیا ہے۔
کتاب نہ صرف مسلمانوں کی حالت کا تجزیہ کرتی ہے بلکہ مسلمانوں پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب بھی دیتی ہے جیسے مسلم آبادی کا تجزیہ کرتے ہوئے جہاں کتاب یہ بتاتی ہے کہ ان کی آبادی کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے وہیں اس نے تجزیوں کے ذریعے بڑھتی مسلم ابادی کے پولارائزیشن فیکٹر کی ہوا نکال دی ہے، جیسے 2001-11 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق ہندو آبادی میں 13.88 کروڑ کا اضافہ ہوا اور اتفاق سے 2001 میں مسلم آبادی 13.8 کروڑ تھی ۔ان نمبرز کا تجزیہ کرنے کے بعد مصنف شان دار تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

یہ ایک جملہ بڑھتی ہوئی مسلم ابادی کے تمام اعتراضات پر بھاری ہے۔
عام طور سے جب بھی کوئی معروف اسکالر مسلمانوں کے مسئلہ پر قلم اٹھاتا ہے تو تجزیہ کم اور مسلمانوں کو نصحیتیں زیادہ کرتا ہے اور یہ نصیحتیں شروع ہی سے یہاں ہوتی رہی ہیں کہ مسلمان اپنی تہذیب، مذہب اور کلچر میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کریں یا انہیں چھوڑ دیں۔ یہ مشورے بعض اوقات بد دیانتی کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں اور اکثر اوقات مسلم سماج کا فہم نہ ہونے کے سبب سے دیے جاتے ہیں۔ جناب عبدالرحمٰن آئی پی ایس نے جو اصلاحات تجویز کی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ وہ اسلام اور مسلم سماج کا اچھا فہم رکھتے ہیں اور ان کے پاس براہ راست معلومات ہیں نہ کہ صرف نام نہاد سیکولر اور لبرل حلقوں کی گفتگو کی بنا پر انہوں نے مسلمانوں کے بارے میں رائے قائم کرلی ہے؟ اس لیے اس کتاب کی اہمیت اس اعتبار سے بڑھ جاتی ہے کہ مصنف جہاں مین اسٹریم سے جڑے رہے ہیں وہیں مسلم سماج سے بھی ان کا تعلق خاطر رہا ہے چنانچہ وہ مسلم سماج کے حقیقی مسائل اور مذہبی حقیقتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔
کتاب کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ خوامخواہ مسلمانوں کو ملامت نہیں کیا گیا ہے جیسا کہ آج کل ایک عمومی کلچر بن گیا ہے بلکہ مسلمانوں کی کوششوں کا تذکرہ بھی جگہ جگہ کیا گیا ہے۔ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف ایشوز اور مسائل کا تجزیہ ہی نہیں کرتی بلکہ اس کے لیے مطلوبہ حل بھی تجویز کرتی ہے۔ کتاب میں مسائل کے حل لیے مستقل روڈ میپ دیا گیا ہے جو الگ الگ تین سطحوں کے لیے ہیں۔ یعنی ریاستی سطح، ملی سطح اور انفرادی حیثیت میں کرنے کے کام۔ ہر مسئلے کے حل سے متعلق تجاویز اس باب کے آخر میں درج ہیں۔ حل میں عمومی باتوں کے بجائے پالیسی کی سطح کی چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ کتاب کی حیثیت ریفرنس بک کی سی ہے جسے لائبریری میں رکھا جاسکتا ہے اور مستقل استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔
کتاب کی اہمیت کا اندازہ فیضان مصطفیٰ مصطفی کے اس تبصرے سے ہوتا ہے جو کتاب کے بیک کوور پر چھپا ہوا ہے۔
کتاب ایک شان دار کارنامہ ہے۔ یہ کتاب مسلمانوں کے سبھی طبقوں اسکالرز، علمائے کرام، صحافیوں، سیاست دانوں، کمیونٹی لیڈروں اور عوام الناس کو زندگی کے تمام شعبوں میں بھارتی مسلمانوں کے موجودہ استرداد اور محرومیوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے ہر طبقے کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔
جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022