پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
آج ملک کی جو معاشی صورتحال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ملک کا ہر شہری مہنگائی اور بے روزگاری کی مار جھیل رہا ہے۔ ہر کس و ناکس معاشی بوجھ سے دبتا جارہا ہے ۔ لاکھوں لوگوں کی ملازمت چلی گئی جس سے عوام کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوئی۔ عام برتنے کی چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں ۔ ویسے ہمارے ملک کی اکثریت غریب لوگوں پر مشتمل ہے۔ مگر یہاں ارب پتیوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ بھی ہورہا ہے۔ اس لیے سماج میں عدم مساوات اور نابرابری کا دور دورہ ہے۔ یہاں کے لوگ کچھ کمانے اور اپنے گھر کے لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کسی بھی طرح کے روزگار میں اپنے آپ کو شامل کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے بچوں کو پڑھائی چھڑوا کر نوکری کی قانونی عمر 15سال ہونے سے قبل ہی کچھ نہ کچھ کمانے کے لیے بھیج دیتے ہیں کیونکہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے حاشیہ پر پڑے ہوئے لوگوں کا اپنے بچوں کو کام میں لگائے بغیر گھر چلانا مشکل ہوتا ہے۔ عالمی لیبر تنظیم (آئی ایل او) کا ماننا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں کام کے قابل افراد کا اوسطا 66فیصد حصہ یا تو کام میں لگا ہوا ہے یا تلاش روزگار میں ہے۔ وہیں زیادہ آمدنی والے ممالک میں یہ اوسط 60فیصد ہے۔ غربا کو ہمیشہ کام سے لگے رہنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک کا حال ہی نرالا ہے اور بہت زیادہ سنگین بھی ہے کیونکہ ملک کی کل کام کے قابل آبادی کا 46فیصد ہی کام میں لگے رہنے کی آزرو رکھتا ہے۔ یہ اعداد و شمار آئی ایل او کے ہیں ۔ اس کے علاوہ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے اعداد وشمار اور بھی خوفناک ہیں۔ فروری 2020میں کورونا قہر سے قبل 44فیصد افراد کام کرنا پسند کرتے تھے۔ اکتوبر 2020میں یہ اعداد و شمار مزید کم ہوکر 10فیصد رہ گئے جبکہ چین میں کام والی 69فیصد خواتین لیبر فورس کا حصہ ہیں۔ کچھ مودی بھکت ماہرین اقتصادیات، خواتین کی روزگار میں کم نمائندگی کو دراصل ملک میں خوشحالی میں اضافہ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں کیونکہ روایتی طور پر لوگ خواتین کے باہر جاکر کام کرنے کو پسند نہیں کرتے ہیں مگر ساتھ میں پیسے کی تنگی ہوتو کوئی متبادل بھی نہیں بچتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ لوگوں کے پاس پیسہ آنے سے غربا میں اپنی تہذیب کی خاطر زیادہ ہی حساسیت پیدا ہوجاتی ہے اور جیسے جیسے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ان کی خواتین میں دقیانوسیت بھی بڑھنے لگتی ہے۔ واضح رہے کہ خواتین نوکری کی تلاش اس لیے بھی ترک کردیتی ہیں کہ روزگار کی حالت ملک میں ویسے بھی بدتر ہے اور وہ مایوس ہوکر اس راستے کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیتی ہیں۔ روزگار سے خواتین کی دوری سے ان کے گھریلو اخراجات میں پریشانیاں بڑھتی ہیں اور روز مرہ کے اخراجات میں کٹوتی کرنی ہوتی ہے۔ نچلی وسطی آمدنی والے کنبے میں کوئی عورت اگر گھر سے باہر جاکر کام کرتی ہے تو گھریلو کاموں کے لیے ایک یا دو جزوقتی مددگار رکھ لیتی ہے اگر وہ خاتون نوکری نہیں کرتی ہوتو سب سے زیادہ مار گھریلو نوکروں کی روزی پر پڑتی ہے۔ اس طرح کے روزگار خواتین مزید بے روزگاری کا باعث بنتے ہیں جیسا کہ درباری میڈیا باور کرانے میں لگا ہوا ہے کہ بہت کم خواتین نوکری پیشہ بننا چاہتی ہیں تب تو باقی لوگوں کے لیے روزگار کا حصول بہت ہی سہل رہ جاتا ہے جبکہ حقیقت اس سے بالکل ہی مختلف ہے۔ سی ایم آئی ای کے اکتوبر کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ خواتین کی بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ یعنی 30فیصد ہے جبکہ مردوں کی بے روزگاری 8.86فیصد ہے گویا تین گنا زیادہ ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض 10فیصد خواتین روزگار کی تلاش میں رہتی ہیں اور ان میں محض 7 کو ہی تنخواہ کے ساتھ ملازمت مل پاتی ہے۔
دوسری طرف ماقبل کورونا قہر 2019کے آئی ایل او کے اعداد و شمار کے مطابق بھارتی کام کی عمر کے مردوں کا 73فیصد لیبر پارٹیسیشپن تھا۔ یہ نچلی متوسط آمدنی والے ممالک کے 74 فیصد والے اوسط سے کچھ ہی کم ہے۔ سی ایم آئی ای کے مرد لیبر پارٹیسیشپن کے ڈاٹا کے مطابق 2019کے وسط تک 72تا 73فیصد رہا جو کہ اکتوبر 2022میں کم ہوکر 66فیصد پر آگیا۔ ماقبل کورونا قہر فروری 2020سے اکتوبر 2022کے درمیان کام کے قابل مرد محنت کشوں کی آبادی میں 4کروڑ کا اضافہ ہوا تھا لیکن محنت کشوں کی شراکت پہلے جیسی ہی رہی۔ یعنی اضافی 3.3کروڑ مرد ملازمت کی تلاش میں تھے چونکہ اس دوران محض 13لاکھ مردوں کو ملازمت ملی۔ نتیجتاً 32کروڑ مرد بیروزگار رہے۔
بھارت کی 60فیصد سے زیادہ آبادی گاوں میں رہتی ہے۔ اس طرح سے ملک کی ترقی گاوں کی ترقی پر منحصر ہے۔ روزگار کے معاملے میں دیہی آبادی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ مال سال 2021-22کے لیے دیہی بھارت میں محنت کشوں کی مزدوری کو لے کر آربی آئی کا ڈاٹا بتاتا ہے کہ بڑی ریاستوں کے مقابلے میں چھوٹی ریاستیں محنت کشوں کو زیادہ مزدوری دے رہی ہیں۔ کیرالا، تمل ناڈو، ہریانہ ہماچل پردیش جیسی چھوٹی ریاستیں مزدوروں کو زیادہ مزدوری دیتی ہیں۔ ایسی حالت میں دیہی علاقے اور مزدوروں کی معاشی صحت کی بہتری کے لیے مزدوری میں اصلاح ضروری ہے۔ ویسے غیر زرعی شعبہ میں کام کرنے والے مرد محنت کشوں کو زرعی مزدوروں کی طرح اجرت دینے کے معاملے میں مدھیہ پردیش، گجرات، بہار، مہاراشٹر وغیرہ ریاستیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ تعمیر کے شعبہ میں بھی کیرالا مزدوروں کو 837.8روپے یومیہ مزدوروں کو اجرت دیتا ہے جبکہ زرعی مزدوروں کو بھی ملک میں سب سے زیادہ 726.8روپے یومیہ ادا کرتا ہے۔ یہاں بھی مدھیہ پردیش، گجرات، بہار اور اڈیشہ کا برا حال ہے اس طرح کیرالا میں محنت کش قومی اوسط سے دوگنا کماتے ہیں۔ دیہی روزگار آج بھی ماقبل کرونا کی سطح سے کم ہے۔ حقیقتاً دیہی مزدوری (Real Rural Wage)امسال ستمبر تک مسلسل دسویں مہینے منفی رہی۔ دیہی آمدنی میں آنے والی اس کمی کی خاص وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دیہی معیشت میں سستی ہے جس کی وجہ سے محنت کشوں کی طلب رک گئی ہے۔ کوٹک انسٹی ٹیوشنل ایکوٹیٹیز کے ایک مطالعہ کے مطابق دیہی روزگار کی تعداد ماقبل کورونا کی حالت سے ابھی بھی 83لاکھ کم ہے۔ اسی طرح شعبہ خدمت میں 79لاکھ نوکریوں کی فراہمی ابھی بھی باقی ہے۔
ویسے ہمارا ملک زراعت پر منحصر ہے۔ ملک میں کل روزگار کا تقریباً تین چوتھائی حصہ زراعت، تعمیر اور کاروبار کے شعبہ سے ہے۔ ان تینوں شعبوں میں اجرت بہت کم ہے۔ مگر زراعت اور تعمیر میں محنت کمر توڑ رہتی ہے۔ اس کے لیے خوراک اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین خوراک کے مطابق ان دیہی علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کو 2400کیلوریز سے تھوڑا ہی زیادہ مقدار مل پاتا ہے جبکہ ایسے سخت کام کرنے والوں کے لیے چارہزار تا ساڑھے چار ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوردنی اور زرعی تنظیم (FAQ) کا ندازہ ہے کہ ہمارے 16فیصد شہری تغدیہ کی کمی کا شکار ہیں یعنی ان محنت کشوں کو جتنی کیلوریز کی ضرورت ہے اس کے مقابلے ان مزدوروں کو نصف کے قریب ملتا ہے وہ کسی طرح مفت راشن یا اپنے پڑوسیوں کی مدد پر جیتے ہیں۔ ان غربا کے پاس ایسا روزگار نہیں ہوتا جس سے حسب ضرورت بذریعہ خوراک کلوریز حاصل کرسکیں۔ ان کو امداد و راحت پر گزر بسر کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل بھی نہیں رہتا ۔ حکومت کو مزدوروں کو کسمپرسی کی حالت سے نکالنے کے لیے موثر پالیسی سازی کرنی ہوگی۔
***
***
ملک میں کل روزگار کا تقریباً تین چوتھائی حصہ زراعت، تعمیر اور کاروبار کے شعبہ سے ہے۔ ان تینوں شعبوں میں اجرت بہت کم ہے۔ مگر زراعت اور تعمیر میں محنت کمر توڑ رہتی ہے۔ اس کے لیے خوراک اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین خوراک کے مطابق ان دیہی علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کو 2400کیلوریز سے تھوڑا ہی زیادہ مقدار مل پاتا ہے جبکہ ایسے سخت کام کرنے والوں کے لیے چارہزار تا ساڑھے چار ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوردنی اور زرعی تنظیم (FAQ) کا ندازہ ہے کہ ہمارے 16فیصد شہری تغدیہ کی کمی کا شکار ہیں یعنی ان محنت کشوں کو جتنی کیلوریز کی ضرورت ہے اس کے مقابلے ان مزدوروں کو نصف کے قریب ملتا ہے وہ کسی طرح مفت راشن یا اپنے پڑوسیوں کی مدد پر جیتے ہیں۔ ان غربا کے پاس ایسا روزگار نہیں ہوتا جس سے حسب ضرورت بذریعہ خوراک کلوریز حاصل کرسکیں۔ ان کو امداد و راحت پر گزر بسر کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل بھی نہیں رہتا ۔ حکومت کو مزدوروں کو کسمپرسی کی حالت سے نکالنے کے لیے موثر پالیسی سازی کرنی ہوگی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022