بھارت کے مسائل کا حل’رجوع الی القرآن ‘ میں مضمر
پیغام الٰہی کی اشاعت کے لیے مسلمانوں کو مطلوبہ کردارادا کرنے کی ضرورت
محمد عبداللہ جاوید ، کرناٹک
ہم وطنوں کی اکثریت کا ایک خدا پر یقین اورکتاب ہدایت کا آفاقی پیغام انسانی فطرت سے مکمل ہم آہنگ
اہل وطن کے سامنے قرآن مجید کا پیغام پیش کرنے کی دو اہم وجوہات ہیں۔اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کو وجود و شعور بخشتے ہوئے انہیں اپنے سامنے حاضر کیا اور اپنی ربوبیت کی شہادت لی اور ان سے وفاداری کا اقرار کروایا۔ اس کا ذکر قرآن میں یوں کیا گیا ہے:
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰىۚ شَهِدْنَاۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
اور اے نبیؐ، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ: ہم اس بات سے بے خبر تھے۔ (سورہ الاعراف : ۱۷۲)
اس کی تفسیر میں امام النسفیؒ لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنی ربوبیت اور وحدانیت کے دلائل قائم کیے اور ان کو عطا کی گئی عقلوں پر اس کو گواہ بنایا۔ اور انہیں ہدایت و گمراہی میں تمیز کرنے والا بنایا اور خود ان کو ان کی ذات پر گواہ بناتے ہوئے اس بات کا اقرار کرالیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ان سب نے کہا ہاں کیوں نہیں؟ تو ہی ہمارا رب ہے ہم نے اپنے آپ پر اس کی گواہی دی اور تیری وحدانیت کا اقرار کرلیا (۱)۔ امام البغویؒ اس ضمن میں ایک وضاحت کرتے ہیں: اگر اس پر یہ اعتراض ہو کہ انسانوں پر حجت کیسے قائم ہوسکتی ہے حب کہ کسی کو وہ عہد وپیماں یاد ہی نہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کے دلائل واضح کر دیے ہیں اور اس کے رسولوں نے (مختلف زمانوں میں) جو خبر دی ان کی انہوں نے تصدیق کی ہے۔ اب اس کے بعد جو انکار کرے اس نے گویا ہٹ دھرمی دکھائی اور عہد کو توڑ ڈالا اس پر تو حجت قائم ہو گئی۔ اب اس کے بھول جانے اور یاد نہ رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سچے پیغمبر معجزات کے ذریعہ خبر دے چکے ہیں
(۲)۔ دوسری وجہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اس کو سوچنے سمجھنے اور فیصلہ لینے کی قوتیں عطا کیں۔ دنیا جہاں کو اس کے لیے مسخر کر دیا۔ قرآن مجید انسان ہی کو اپنی تعلیمات کا مخاطب بناتے ہوئے اس کے سامنے اسی عہد وپیمان کی یاد دہانی کے علاوہ بندگی رب کے لیے رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن مجید کا پیغام پیش کرنے کی غرض وغایت گویا انسان کے سامنے ان حقیقتوں کو اجاگر کرنا ہے۔ اس قرآنی پیغام سے اس کا تعلق اسی طرح گہرا اور پائیدار ہے جس طرح آسمان اور زمین میں پائے جانے والی چیزوں سے ہے۔
قرآنی پیغام‘ انسانی فطرت سے ہم آہنگ:
آپ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کا فطرتاً موحد ہونا اور زمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب ہونا‘ دراصل وہ فطری ساخت اور ذمہ داری ہے جس کے پیش نظر اس کی تخلیق کی گئی ہے۔ قرآن مجید کا پیغام گویا انسان کی اسی فطرت سے ہم آہنگ رب کا کلام ہے اور اسی جانب اس کو متوجہ کرتا ہے:
فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُۗ
پس یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جمادو‘ قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے۔(سورہ الروم:۳۰)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ
ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے (صحیح مسلم کتاب التقدیر)
بھارتیہ سماج کی اکثریت کا ایک خدا پر یقین
پیو ریسرچ سنٹر کی 2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک کی 97 فیصد آبادی ایک خدا پر یقین رکھتی ہے جبکہ 6 فیصد لوگ کئی خداؤں پر یقین رکھتے ہیں اور 54 فیصد لوگ کئی خداؤں پر اس لیے یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مطابق وہ خدا کے اوتار ہیں۔
(۳) اس تناظر میں بھارت کے لیے قرآن مجید کا پیغام اپنے اندر اپروچ اور منہج کے اعتبار سے وہی قالب میں ہے جو اس کی اصل ہے۔ یاایھا الناس یا بنی آدم اور یاایھا الانسان وغیرہ کی قرآنی صدائیں انسانوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی آرہی ہیں۔ یہ وہی صدائیں ہیں جو یہاں کی تہذیب میں ایک خدا کی پوجا وپرستش کی دیرینہ روایتوں کے طور پر یہاں کی تہذیب اور سسنکرتی کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہیں۔ اس کی اصل وہ نوری تعلیم ہی ہے جو ایک الہ کی بندگی پر مشتمل ہے۔ اس نور کی ہمہ رنگی شعاعیں اپنے اندر ہر بھارت واسی کے لیے خاص پیغام رکھتی ہیں۔
انہیں باتوں کی ایک طرح سے وضاحت کے لیے رسول اور ہادی دنیا میں آتے رہے۔ یعنی دنیا کے ہر خطے کی طرح ہمارا وطن عزیز بھی خدائی ہدایات ورہنمائی سے فیض یاب ہوا ہے۔ یہاں بھی اللہ سے ڈرانے والے اور انسانوں کو صحیح راستہ دکھانے والے رہنماء آئے ہیں۔ چنانچہ لِکُلِّ قَوْمٍ ھَاد ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے (سورہ الرعد:۷) کی تشریح میں علامہ عبد الرحمن بن ناصر بن السعدیؒ لکھتے ہیں:
ہر قوم کے لیے انبیاء ورسولوں اور ان کے متعبین میں سے ایک داعی ورہنما آتا ہے جو انہیں صحیح راستے کی طرف بلاتا ہے۔ اس ہادی کے پاس دلائل وبراہین ہوتے ہیں جو ان کے طریقہ دعوت کے صحت مند ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔
(۴) چنانچہ یہاں کی تہذیب کا ایک بنیادی عنصر ایک خدا کے تصور اور اس کی صفات سے معلق صحیح شعور پر مشتمل ہے۔ ابوریحان البیرونیؒ ‘کتاب الہند میں لکھتے ہیں: اللہ پاک کی شان میں ہندوؤں کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ واحد ہے۔ ازلی ہے۔ جس کی نہ ابتداء ہے نہ انتہا۔ اپنے فضل میں مختار ہے۔ قادر ہے۔ حکیم ہے۔ زندہ ہے۔ زندہ کرنے والا ہے۔ صاحب تدبیر ہے۔ باقی رکھنے والا ہے۔اپنی بادشاہت میں یگانہ ہے۔ جس کا کوئی مقابل اور مماثل نہیں۔ نہ وہ کسی چیز سے مشابہ ہے اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے۔
(۵) سلطان محمد دارا شکوہ نے اپنی کتاب مجمع البحرین میں ہندؤوں کی مقدس کتاب اپنشد کے بارے میں لکھتے ہیں:
یہ بحر توحید کا سرچشمہ ہے……اپنشدوں میں بنیادی طور پر مسئلہ توحید کی توضیح کی گئی ہے۔ اپنشدوں کی توحید کا حاصل یہ ہے کہ ما سوا یعنی انسانی نظر سے دکھائی دینے والی یہ پوری دنیا یا محسوس کثرت حقیقی نہیں ہے اور ان تمام چیزوں میں حقیقتاً ایک ہی خدا کی ذات جلوہ گر ہو رہی ہے۔ چنانچہ روح انسانی پر چھایا ہوا مجازی پردہ اگر اٹھ جائے تو دیکھنے والے کی نظر میں خدا کی ہستی کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہتا……اپنشدوں کی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز میں جلوہ ربانی دیکھا جائے کیونکہ دنیا کی موجودہ صورتیں اور شکلیں اللہ تعالیٰ نے اپنی بے مثل اور کامل قوت اعتباری یا اپنی کرشمہ ساز قوت خیالی سے آراستہ کر دی ہیں۔ غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف حیثیتیں اور نام تو بول چال کی سہولت کے لیے ہیں۔ اصل میں صاحب حیثیت اسی کا وجود واقعی اور حقیقی ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اپنشدوں کی بہت سی شُرتیاں (آیتیں) اشارہ کرتی ہیں
(۶) پیغام قرآن انسانوں کے نام
ان گونا گوں خصوصیات کے پیش نظر بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سرزمین ہند توحیدی پیغام سے ہم آہنگ کر دی گئی ہے۔لہذا جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اجاگر کرنے کی کوشش قرآنی پیغام کی اشاعت کا اصل مدعا ومنشاء ہونا چاہیے۔
قرآن مجید کا ہر انسان کے نام بڑا دوٹوک اور واضح پیغام ہے۔ انسان دنیا میں بھیجا گیا ہے لہذا جس نے بھیجا ہے اسی کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کرنی چاہیے اور اپنے رب کے سامنے کیے ہوئے اس عہد کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ یہ پیغام فطری یک رنگی اور انسانی ساخت سے ہم آہنگ ہے۔ البتہ اس یک رنگی نوری پیغام سے منعکس ہونے والی ہمہ رنگی شعاعیں اچھی طرح سمجھاتی ہیں کہ:
۱) انسان کی اصل اور اس کی فطرت کیا ہے جس پر اس کی پیدائش ہوئی ہے۔
۲) اس کے اطراف و اکناف کا ماحول کیسے صدائے توحید دیتا ہے؟
۳) کیسے قرآنی تعلیمات ‘عزت وسربلندی کا ذریعہ بنتی ہیں؟
۴) انسان کو حقیقی خدا کا تعارف کرانے والے رسول کون ہیں، ان کی پہچان کیا اور ان پر یقین کرنے کے تقاضے کیا ہیں؟
۵) زندگی گزارنے کے صحت مند اصول اور طریقہ کار کیا ہے؟
۶) پھر یہ کہ اس زندگی کی حقیقت اور جزا وسزا کے تعلق سے انسان کیا رویہ اختیار کر سکتا ہے؟
گویا رب کی بندگی کا پیغام الگ الگ پیرایوں میں واضح کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان جس مقام اور مخصوص تہذیب میں زندگی بسر کر رہا ہے اس کی بھرپور رعایت کی گئی ہے اور اس کے سامنے تعلیمات اس کی اپنی عقل اور حالات کے تقاضوں کے تحت پیش کی گئی ہیں تاکہ ان کے مطابق زندگی گزارنے میں کسی قسم کے پردے حائل نہ ہوں اور نہ ہی وہ ذرہ برابر بھی اجنبیت محسوس کرے۔ قرآنی پیغام سے واقفیت اپنائیت کے دروازے کھول دیتی ہے۔ پڑھنے اور سننے والے کو یوں لگے گا کہ یہ کتاب تو دلوں کی آواز آنکھوں کی ٹھنڈک اور نفس کی ہر طرح سے تسکین کا سامان کرتی ہے۔ یعنی یہ کتاب فرد سے ویسا ہی گہرا تعلق رکھتی ہے جیسا اس کا وجود اس مقام سے رکھتا ہے جہاں وہ اپنے شب وروز گزار رہا ہے۔
۱) انسان کی اصل اور اس کی فطرت کیا ہے؟
قرآن مجید کے حرکیاتی پیغام کی یہ خوبصورتی ہے کہ انسان کی اصل ‘بالکل پوری طرح واضح کردی گئی ہے۔ کیونکہ اس کی اصل جب تک واضح نہ ہو وہ نہ اپنے لیے کوئی صحیح طریقہ اختیار کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے پیدا کرنے والے خالق کے سلسلہ میں۔ انسان کی اصل کی وضاحت میں اس کی پیدائش سے لے کر اس کی فطری حالت اور اس کی قابلیتوں اور صلاحیتوں کا بڑا دل موہ لینے والا ذکر شامل ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ:
انسان کی پیدائش حقیر پانی سے ہوئی ہے (سورہ المرسلات:۲۰تا۲۳) لہٰذا وہ اپنی اس حیثیت کو کبھی نہ بھولے۔ البتہ اس کو بڑے خوبصورت انداز سے اور ایک تناسب سے خدا نے تخلیق کیا ہے (سورہ التین:۴ اور سورہ الانفطار: ۶تا۸)۔ اس لیے نہ خود احساس کمتری میں مبتلا ہو اور نہ ہی اپنے جیسے دوسرے انسان کو حقیر جانے۔ اس کو مختلف حالتوں سے گزار کر دنیا میں لایا گیا ہے (سورہ الانشقاق:۱۹) لہٰذا وہ اپنی حالت بدلنے پر ہمیشہ متوجہ رہے۔ اس کو علم کی روشنی میں دنیا میں بھیجا گیا ہے (سورہ البقرہ:آیت ۳۳) لہٰذا وہ ہمیشہ علم کی روشنی میں زندگی بسر کرے کبھی جہالت کا اندھیرا اپنے پاس آنے نہ دے۔ اس کو اچھے اور برے کی تمیز دی گئی ہے (سورہ الشمس: آیت ۱۰) اس لیے وہ ہمیشہ خیر کا طالب رہے اور شر کو دفع کرنے والا بنے۔
ان تمام امور پر انسان ہمیشہ متوجہ رہے اس لیے خدا نے اس کے لیے یہ زمین اور آسمان مسخر کردیے (سورہ الجاثیہ:۱۳) اس کو خشکی اور تری میں اختیارات دیے (سورہ بنی اسرائیل:۷۰)
فیصلہ لینے کی قوتیں عطا کیں (سورہ النحل:۷۸ اور سورہ الدھر:۳) وہ تمام چیزیں اس کے لیے حلال کر دیں جو اس کی جسمانی اور اخلاقی وجود کو بہترین ساخت پر پروان چڑھا سکتی ہیں (سورہ بنی اسرائیل:۷۰)
لہذا وہ اس دنیا میں اپنے پیدا کرنے والے کی اسی کے شایان شان بندگی بجا لائے اور اس کے ساتھ کسی اور کو ہرگز شریک نہ کرے۔یہی وہ اصل بات ہے جو قرآن مجید انسانوں پر واضح کرتا ہے کہ وہ صرف اپنے خالق کو مانیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں:
’’وہی تو ہے جِس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھیراؤ ‘‘(سورہ البقرہ:۲۲)
۲) اطراف کا ماحول صدائے توحید دیتا ہے
انسان کے لیے خدا کی معرفت اور اس کی دعوت کوئی نامانوس بات نہیں ہے۔ وہ فطرتاً اس سے بخوبی واقف ہے۔ مختلف زمانوں میں آنے والے نبیوں اور رسولوں کی تعلیمات کا ذخیرہ تہذیب وتمدن کی شکل میں موجود ہے جس میں وہ پلا اور بڑھا ہے۔یعنی انسان کا اپنے خالق کو پہچاننا آسان کر دیا گیا ہے۔ جیسے رنگوں کو دیکھ کر انہیں پہچاننا آسان ہے ویسے ہی آنکھیں دی گئی ہیں تاکہ خدا کی قدرت کی کاریگری اور اس کی پیدا کردہ شاندار مخلوقات کا مشاہدہ کرتے ہوئے بخوبی جان لے کہ حقیقی خالق و مالک کون ہے؟ جب انسان اپنی سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کرے گا تو یہ اقرار کیے بغیر رہ نہیں سکتا کہ اس کے اطراف واکناف کا ماحول ہمہ رنگ صدائے توحید دے رہا ہے اسی انسانی فطرت کا اظہار قرآن مجید یوں کرتا ہے:
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا (سورہ الانعام : ۹۷) وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور ان کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کر لیا کرو (سورہ یونس:۵) وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا (سورہ یونس:۶۷) وہ اللہ ہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے ایک لذیذ و شیریں اور دوسرا تلخ و شور (سورہ الفرقان:۵۳)۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو (سورہ یس:۸۰) وہ اللہ ہی جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار اور آسمان کو چھت بنایا (سورہ المومن:۶۴) اللہ ہی نے تمہارے لیے یہ مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ (سورہ المومن:۷۹) وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہوجانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے (سورہ الشوری:۲۸) وہی ہے جس نے تمہارے لیے اس زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہاری خاطر راستے بنادیے تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پاسکو (سورہ الزخرف:۱۰) اسی نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت اور عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے (سورہ الصافات: ۶ اور سورہ الملک:۵) ہر وہ چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے اللہ ہی کی تسبیح بیان کر رہی ہے (سورہ الحدید:۱)
انسان کی تخلیق اور اس کے لیے عطا کردہ نعمتیں دنیا میں اس کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں۔ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ وہ آسمانوں اور زمین میں ہونے والے چھوٹے بڑے حادثات اور واقعات سے سبق لے سکتا ہے۔ وہ اچھی طرح جان سکتا ہے کہ یہاں پیش آنے والے ان تمام امور کے سلسلہ میں اس کا کیا رویہ ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اس کے سامنے کائنات کے مسلم وفرمانبردار ہونے کی مختلف حیثیتیں پیش کرتا ہے۔ یہ تمام حقیقتیں انسان کے سامنے واضح ہیں اس لیے اس کے قلب وذہن کو جھنجوڑنے والا رب کایہ پیغام ضروری ہے تاکہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائے :
’’اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کے طریقہ (اسلام) کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چارو ناچار اللہ ہی کے تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے‘‘(سورہ آل عمران:۸۳)
وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَهُ الدِّیْنُ وَاصِبًاؕ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ
اُسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور خالصًا اسی کا دین (ساری کائنات میں) چل رہا ہے۔ پھر کیا اللہ کو چھوڑ کر تم کسی اور سے ڈرو گے؟(سورہ النحل:۵۲)
اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید کا پیغام ہی وہ واحد پیغام ہے جو اپنے مخاطبین کے لیے سوالات پیش کرتا ہے۔ سوالات بھی ایسے جن کے جوابات وہ بخوبی جانتے ہیں۔ سوالوں پر مشتمل اس پیغام کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب ہر انسان کو اپنا مخاطب سمجھتی ہے۔ اس کو ہر سوال کا جواب دینے کے قابل بھی مانتی ہے۔ دیکھیے خطاب کا انداز:
• ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ (الانعام:۱۲)
• ان سے پوچھو کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟
• یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟
• کون بے جان میں سے جان دار کو اور جان دار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟
• کون اس نظام عالم کی تدبیر کررہا ہے؟ (یونس :۳۱)
• کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے؟
• اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟
• اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟
• کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی(یہ کام کرنے والا) ہے؟ (النمل: ۶۲)
یعنی یہ اعجاز قرآن ہے کہ وہ انسانوں کے سامنے خدا کی پہچان بھی کراتا ہے اور وہ طریقہ بھی سکھلاتا ہے کہ کیسے اس خدا کے شایان شان اعتراف ہونا چاہیے۔ خدا کی پہچان کرانے کا دوسرا قرآنی طریقہ یہ ہے کہ وہ باطل کی حقیقت واضح کرتا ہے۔ یہ طریقہ بھی خدا کی پہچان کرانے کے طریقہ جیسا فطری ہے۔ اگر انسان توجہ دے تو یقینا ً ہر طرح کے شرک وجہالت سے اپنے کو پاک رکھ سکتا ہے:
جس نے کفر کیا اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے (سورہ الروم:۴۴) کیا یہ دیکھتے نہیں کہ جس خدا نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے؟ (سورہ حم السجدہ:۱۵) بھلا بتاؤ کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے اگر وہ اپنا رزق روک لے؟ (سورہ المک:۲۱) کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے دونوں یکساں ہیں؟ (سورہ النحل:۱۷) اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا (سورہ الانبیاء:۲۲)
۳) کیسے قرآنی تعلیمات ‘عزت وسربلندی کا ذریعہ بنتی ہیں؟
قرآنی پیغام اپنے اندر بلا کی جاذبیت زندگی کی ہمہ رنگی اور کامیابی وترقی کے لیے درکار تمام ہی اصول وشرائط رکھتا ہے۔ اس کا بیان تو یوں لگے گویا انسان کو اس کی کھوئی ہوئی قیمتی چیز لوٹائی جارہی ہے۔اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے اہل مکہ کے سامنے اسی بشارت کے ساتھ ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر تم یہ دعوت قبول کرلو گے تو عرب تمہارے تابع ہو جائیں اور عجم تمہیں جزیہ دینے لگیں (۷)۔ یعنی قرآنی پیغام محض چند رسومات اور عبادات کی مخصوص صورتوں تک محدود نہیں بلکہ یہ دنیا وآخرت کی سربلندی پر مشتمل ایک نظام حیات ہے۔ یہ دنیا میں انسان کو جینا سکھاتا ہے اور اس کو ہر اعتبار سے بلند مقام پر فائز کرتا ہے۔ اس قدر بلند کہ اصلاح وبہتری کے لیے لوگوں کی نگاہیں اسی پر جمی رہیں۔ انسانو ں کی امامت کا یہ مقام ‘ قرآنی پیغام کی تاثیر میں سے ہے۔ حضرت ابو موسی الاشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے جو علم اور ہدایت مجھے دے کر بھیجا ہے اس کی مثال اس زور دار بارش کی سی ہے جو زمین پر برستی ہے۔ زمین کے کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جو پانی جذب کر لیتے ہیں اور پھر گھاس اور سبزہ اگتا ہے۔ اور بعض حصے سخت ہوتے ہیں جن میں پانی ٹھہر جاتا ہے، اللہ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے لوگ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی پلاتے ہیں۔ اور زمین کے کچھ حصے چٹیل ہوتے ہیں جن میں پانی ٹھہرتا ہے نہ جذب ہوتا ہے۔ یہ مثال اس شخص کی ہے جس نے دین میں سمجھ پیدا کی اور میری تعلیمات سے فائدہ اٹھایا۔ خود بھی سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھایا۔ اور اس شخص کی مثال بھی ہے جس نے سر ہی نہ اٹھایا (یعنی توجہ ہی نہ کی) اور میری تعلیمات نہ مانیں۔
امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ اسحاق نے ’قیّلت الماء‘ کا ذکر کیا ہے، قاع: اس خطہ زمین کو کہتے ہیں جس میں پانی نہ ٹھہرے، اس سے مراد ہموار زمین ہے۔ (صحیح بخاری – کتاب العلم)۔
۴) انسان کو حقیقی خدا کا تعارف کرانے والے رسول کون ہیں ان کی پہچان کیا ہے اور ان پر یقین کرنے کے تقاضے کیا ہیں؟
خدا کی معرفت کی تمام باتیں اللہ کے رسولﷺ کی ذریعہ انسان کو معلوم ہوتی ہیں۔ لہذا قرآنی پیغام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ رسول کی حیثیت، مقام اور ان کی ذمہ داریوں پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے۔ پڑھنے اور سننے والے کو لگتا ہے کہ رسول، خدا کے چنندہ اور خاص بندے ہوتے ہیں۔ وہ ان کو نعوذ باللہ کوئی اوتار یا خدا کا روپ نہیں سمجھتے بلکہ ان کو صحیح راستہ دکھانے والے رہبر ورہنما اور سچے خیر خواہ سمجھتے ہیں۔ بھارتیہ سماج میں رسول کو رسول کی حیثیت سے پیش کرنا کافی محنت طلب کام ہے۔ اوتار واد اور پنر جنم جیسے تصورات کی بنا یہاں کوئی بھی، کہیں بھی اور کسی بھی وقت خدا بن سکتا ہے۔ لیکن قرآنی پیغام کی اشاعت کا تقاضا ہے کہ یہاں کے باشندوں کے کئی خداؤں پر یقین کو حقیقی خدا کو جاننے اور سمجھنے کی تڑپ پر محمول کیا جائے، یعنی جب حقیقی خدا کی معرفت نہ ہو تو ہر اچھائی اور ہر اچھے کام کرنے والے کو خدا کی ذات اور اس کی صفات کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں خدا کی متلاشی روحیں ایک کثیر آبادی پر مشتمل ہیں، ان کے سامنے رسالت کا صاف و شفاف تصور پیش کرنا انہیں ان کے خالق سے قریب کر سکتا ہے۔
قرآنی پیغام میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسولؐ امی تھے۔ اس سے مراد صرف یہ نہیں کہ آپؐ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے بلکہ الاُمِّی کی وضاحت کرتے ہوئے امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ آپؐ کی بعثت جن لوگوں میں ہوئی تھی ان کی اکثریت پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی اور نہ اس کے پاس کوئی آسمانی کتاب محفوظ تھی
(۸)۔ ان معنوں میں کہ انہوں نے تورات و انجیل میں اپنی خواہشات کے مطابق رد وبدل کر ڈالا تھا (سورہ المائدہ:۱۳) اس پس منظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ نبیؐ امی کی تعلیمات بھارتیہ سماج کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ پھر اس بات کی وضاحت کی گئی کہ رسولؐ کی بعثت سابق انبیاء کی دعاؤ ں کا نتیجہ ہے(سورہ البقرہ:129) اس سے متعلق وطن عزیز کے بڑے مذاہب جیسے ہندومت، بدھ مت اور عیسائیت کی مقدس کتابوں میں اس کے حوالے ملتے ہیں جن میں بڑی صراحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ ایک آخری نبی آمنہ کے لعل آنے والے ہیں۔ اس لحاظ سے آخری رسول کی بعثت اور ان کی تعلیمات منطقی طور پر بھارتیہ سماج کی صحت مند اور قدیم مذہبی روایتوں کا تسلسل معلوم ہوتی ہیں۔اس لیے قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے رسول کی بعثت ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں۔(سورہ الجمعہ:3)
سابقہ وموجودہ اقوام کی صورت حال کے پیش نظر رسالت کے قرآنی پیغام کا یہ منفرد پہلو بھی پوری آب وتاب کے ساتھ سامنے آتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ بشر اور خاتم النبین ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ بشر کی صراحت سے رسول کو خدا کا درجہ تو نہیں دیا جا سکتا جبکہ خاتم النبین سے مراد انسان کی فلاح وکامرانی صرف آخری رسول کی اتباع میں ہے، دوسرا کوئی راستہ اور طریقہ نہیں۔ اگر کوئی دوسرا راستہ اختیار بھی کرلے تو وہ ہرگز قابل قبول نہیں کیا جائے گا (سورہ آل عمران:85)
اللہ کے رسولؐ کی حیثیت اور مقام کی وضاحت کے بعد کار رسالت کا بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، یعنی رسول لوگوں کو خدا کی کتاب حکمت کی تعلیم اور ان کی زندگیوں کا تزکیہ فرماتے ہیں (سورہ الجمعہ:۲) پھر یہ کہا کہ رسولؐ کی جانب سے انسانی زندگی سنوارنے کا کام باضابطہ منصوبہ بند طریقے اور متعینہ اصولوں کے تحت انجام پاتا ہے۔ سورہ الاعراف کی آیت 157 میں اس کی وضاحت ہے کہ آپؐ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں برائیوں سے منع کرتے ہیں۔یعنی یہ حکم انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے کیونکہ ہر انسان خیر وشر کے درمیان فرق بخوبی سمجھتا ہے۔ پاک چیزیں حلال کرتے ہیں ناپاک چیزیں حرام کرتے ہیں۔ انسانوں پر نفرت وتعصب، غلامی اور مذہبی معاملات میں بے جاسختی ومشقت انسانی حقوق کی پامالی جیسے لدے ہوئے بوجھوں کو اتارتے ہیں پھر ان کے گردنوں میں توہمات اور غلط رسوم ورواج کاپڑا ہوا طوق نکال دیتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ کی ان ذمہ داریوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج بھارتیہ سماج انسانی مقام ومرتبہ کو لے کر جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان سے نکلنے کا آسان اور قابل عمل طریقہ ان حیات بخش تعلیمات پر توجہ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اتباع رسول کو ایک فطری امر کے طور پر پیش کیا ہے۔ یعنی جو انسان اپنے منعم حقیقی کو جان کر اس سے بے انتہا محبت کرتا ہے اسی محبت کا دوسرا رخ اس کے بھیجے ہوئے رسول کی اتباع ہے۔ انسان کی خدا سے محبت اسی وقت معتبر مانی جائے گی جب کہ وہ بلا چوں چرا آخری رسول کی بھی اتباع کرے (سورہ آل عمران:31)
۵) زندگی گزارنے کے صحت مند اصول اور طریقہ کار کیا ہے؟
خدا اور اس کے رسول کے بعد جس پہلو سے انسان کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہے وہ زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ ہے۔اسی سے اس مقصد کی تکمیل ممکن ہے جس کے لیے انسان کو دنیا میں بھیجا گیا ہے۔دنیا میں رہ کر صحت مند زندگی گزارنا اسی وقت ممکن ہے جب معلوم ہو کہ دنیا کیا ہے؟ دنیا میں پائی جانے والی چیزوں سے متعلق صحیح رویہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہ زندگی کس لیے دی گئی ہے اور یہاں رہ کر کس طرح کے کام انجام دینے ہیں؟ ان تمام امور سے متعلق قرآنی پیغام کچھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے(سورہ ھود:61) اسی نے تمہارے لیے زمین اور آسمانوں کو مسخر کیا (سورہ الجاثیہ:13) اسی نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا (سورہ النحل:80) اسی نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے۔ دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا (سورہ ابراہیم:32) تمہارا رب وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کر سکو (سورہ بنی اسرائیل:66) اسی نے اس زمین میں تمہارے لیے معیشت کے اسباب فراہم کیے ہیں اور بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جن کو رزق دینے کی ذمہ داری انسانوں کی نہیں ہے (سورہ الحجر:20) اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے (سورہ الروم:23) اللہ ہی نے تمہارے لیے یہ مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ (سورہ مومن:79) وہی ہے جس نے تمہارے لیے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو (سورہ الزخرف:12)
ان تمام باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ تمام انسان خدا کی بنائی ہوئی اس دنیا میں برابر کے مواقع رکھتے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں ملک عزیز کی صورت حال ایسی نہیں ہے۔ یہاں دولت مند اور غریب کے درمیان کا فرق معاشی نابرابری، غربت وبے روزگاری اور اسی سے متعلق کئی معاشرتی مسائل کافی سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ سال کی آکسفام (Oxfam) کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک کے صرف دس لوگ 57 فیصد دولت کے مالک ہیں۔جبکہ بقیہ آبادی صرف 13فیصد حصہ پر اکتفا کررہی ہے۔کووڈ کی پابندیوں کی وجہ سے 84فیصد لوگوں کی ماہانہ آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔98 فیصد رئیس لوگوں کے پاس جتنی دولت ہے وہ 55کروڑ بیس لاکھ لوگوں کے برابر ہے۔سال 2021ء میں ہمارے ہاں کروڑپتیوں کی تعداد 102سے 142 تک جاپہنچی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیے کہ قرآن کیا کہتا ہے:
دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے (سورہ النساء:77) یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا ہے(سورہ العنکبوت:64)
یہاں انسان کو درجہ بہ درجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے
(سورہ الانشقاق:19)
یعنی آخرت کی یقین دہانی انسانی وجود سے کرائی گئی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ انسان کی عمر اور کیفیات میں فرق واقع ہوتا ہے جو اس کے پاس ہے وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جاتا ہے۔ لہٰذا جس نے اس کو پیدا کیا اس کے پاس سب کچھ باقی رہ جاتا ہے۔ اس لیے قرآن کہتا ہے:
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔(سورہ النحل:96)آپ کہہ سکتے ہیں کہ عقیدہ آخرت کی دلیل انسان کے گزرنے والے ہر لمحہ اور دن سے وابستہ ہے۔ یعنی انسان ہر گزرتے ہوئے لمحہ کے ساتھ رب سے ملاقات کے لیے کشاں کشاں آگے بڑھ رہا ہے (سورہ الانشقاق:6) اس دنیا کی حقیقت ذہن نشین کرتے ہوئے خالق کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا اور ابدی زندگی کی کامیابی کی امید کرنا بس یہی خلاصہ ہے اس دنیا کی زندگی کا۔چنانچہ رب کی جانب سے اسی بات کی یاد دہانی کرائی گئی کہ ہم نے زندگی اور موت پیدا کی ہے تاکہ دیکھیں کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے۔(سورہ الملک:2)
دنیامیں رہنے کا سلقیہ بھی قرآنی پیغام کا حصہ ہے۔ اس لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک مثالی ازدواجی تعلقات کا قیام نیک اولاد کے لیے دعائیں اور ان کی تربیت آپسی معاملات لین دین اور کاروبارکے آداب نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں باہمی تعاون گناہ اور زیادتی کے کاموں میں عدم تعاون زمین کوفساد سے پاک رکھنا پیمانے ٹھیک بھر کردینا اور کسی کو گھاٹا نہ دینا جیسے امور سے متعلق قرآنی رہنمائی بڑی تفصیل سے ملتی ہے۔ دنیا میں رہنے کے سلیقے سے متعلق ان تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان خود مختار ہے۔ اس کو عمل کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ کوئی بڑا اور چھوٹا ہے تو ذات پات یا رنگ ونسل کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے نیک اعمال کی بنیاد پر ہے، یعنی جس عمل کا اختیار اس کو دیا گیا ہے اس کے صحیح اور کثرت استعمال سے وہ خدا کی نگاہ میں اپنا مقام بناتا ہے۔
۶) اس زندگی کی حقیقت اور جزا وسزا کے تعلق سے انسان کیا رویہ اختیار کرسکتا ہے؟
دنیا کی حقیقت اور یہاں کرنے کےکاموں سے واقفیت کے بعد اب آخری بات یہ رہ جاتی ہے کہ انسان کے سامنے یہ واضح کر دیا جائے کہ دنیا ہی کی زندگی کا ایک منطقی انجام اخروی زندگی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ ابدی زندگی وہ زندگی ہے جس کی تمنا لیے ہر ذی عقل اور ذی شعور انسان اپنی زندگی گزارتا ہے۔ قرآن مجید اس آخرت کے پیغام کو مختلف انداز سے بیان کرتا ہے۔کبھی بڑے سیدھے انداز سے جیسے: مان لو اپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے (سورہ الشوری:47) تو کبھی منطقی انداز سے: تم خدا کا کیسے انکار کر سکتے ہو جب کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے(سورہ البقرہ:28)
قرآن مجید آخرت کو ایک جامع عقیدے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس کی وضاحت کا انداز اس قدر فطری ہے کہ انسان اگر توجہ دے تو ابدی زندگی کو مانے بغیر رہ نہیں سکتا۔ بس یوں کہیں کہ دنیا میں گزرتے ایام اور چاروں طرف پھیلے نظارے اس عقیدہ آخرت کی وضاحت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار انسان کے عقل وشعور کے مطابق کیا ہے۔ اس لیے انسان کے سامنے اس نے وہ سب کر دکھایا ہے جس پر غور کرنے سے بخوبی معلوم ہوگا کہ وہ کیا کچھ کرسکتا ہے۔ یعنی انسان کو اگر یہ جاننا ہو کہ اس کا خالق مرنے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ کرے گا تو بس اس سے پہلے وہ اپنے چاروں طرف پھیلی اس کی کاری گری اور نشانیوں کو دیکھ لے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ وہ دوبارہ کیسے زندگی بخشتا ہے؟ دیکھیے قرآن مجید انسان کے اسی مشاہدے کو تقویت پہنچاتا ہے:
وہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہوکر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کرکے اٹھا کھڑا کیا جائے گا؟ کیا ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ (بنی اسرائیل: 98-99) جس طرح آسمان سے برسنے والے پانی سے زمین سیراب ہوکر لہلہا اٹھتی ہے اسی طرح زمین سے انسان دوبارہ نکالے جائیں گے۔ (سورہ الزخرف:11) یا ان لوگوں کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے اور ان کو بناتے ہوئے وہ نہ تھکا وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ اٹھائے؟ (الاحقاف: 33) کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی جسے اللہ نے بنایا ہے؟ (النازعات: 27) کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے؟ کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک ٹھیک بنادینے پر قادر ہیں………کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی چھوڑدیا جائے گا؟ (القیامہ:36 اور 43)
ظاہر بات ہے کہ جس شخص نے بھی آسمانوں کی بے پناہ وسعتوں اور ان کی ہئیت پر غور کیا وہ بخوبی سمجھ جائے گا کہ اس علیم وقدیر اور عزیز وحکیم خدا کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور جس شخص نے مردہ زمین سے ہریالی اور پیڑ پودوں کو اگتے ہوئے اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ بھلا کیسے انکار کر سکتا ہے کہ زمین میں مل کر سڑ گل جانے والے انسان کو وہی قادر مطلق خدا دوبارہ پیدا نہیں کرے گا؟
قرآن میں بیان کردہ عقیدہ آخرت کے دو اور پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان کو بہرحال موت آئے گی۔ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے کیونکہ اس خدا نے انسانوں کے درمیان رزق کی طرح موت بھی تقسیم کر دی ہے (سورہ الواقعہ:60) جہاں کہیں انسان رہے، چاہے کتنے ہی محفوظ قلعے میں بند رہے موت تو بہرحال آکر رہے گی (سورہ النساء : 78)
پھر دوسرا پہلو یہ کہ انسان کو اپنی اس زندگی کا حساب آخرت میں دینا ہے۔ قرآن یاد دہانی کراتا ہے:
اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے؟(سورہ التکویر : 14) اس روز ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا کیا دھرا سب معلوم ہوجائے گا۔(سورہ الانفطار:5) پس جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا (سورہ الانشقاق : 7تا8) اور جس کا نامہ ٔاعمال اس کی پیٹھ پیچھے دیا جائے گاتو وہ موت کو پکارے گا (سورہ الانشقاق : 19تا11) جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا(سورہ الزلزال:7تا8)پس جس کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ دل پسند عیش میں ہوگا اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے اس کی جائے قرار گہری کھائی ہوگی (سورہ القا رعۃ :6تا9)
دنیا سے متعلق صحیح طرز عمل کے سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
تم دنیا میں ایسے رہو جیسے اجنبی یا مسافر ہو۔ جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار مت کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو (صحیح بخاری)۔
بھارتی سماج میں قرآنی تعلیمات پر ہونے والے اعتراضات کی حقیقت
بھارت میں قرآن کے پیغام کی اشاعت کے عمل کو موثر اور بامعنی بنانے کے لیے ان غلط فہمیوں کو بھی دور کرنا چاہیے جو بوجوہ پیدا ہوگئی ہیں۔ مخالفین کی جانب سے قرآن مجید کی بعض تعلیمات کو حذف کرنے کی بات کہی جاتی ہے کیونکہ انہیں ان تعلیمات میں تخریب کاری اور دہشت گردی دکھائی دیتی ہے۔ اس پہلو سے جو کچھ کہا اور لکھا گیا وہ پیش نظر رہے۔ مختصر یہ کہ بھارت جیسے مخلوط سماج کے لیے قرآن ہر لحاظ سے رہنما ہے۔
جن قرآنی تعلیمات کے سلسلہ میں اعتراض کیا جارہا ہے اسے عدم واقفیت اور خالق سے دوری پر محمول کرنا چاہیے۔ کیونکہ قرآنی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے انسان کا اس ماحول میں ہونا ضروری ہے جس ماحول میں وہ اہم امور کو سمجھنا چاہتا ہے۔ جیسے قرآن یہ کہتا ہے کہ آسمانوں و زمین کی ساخت پر غور کرو، مطلب یہ ہے کہ انسان اس ماحول میں ہے اس لیے وہ ان سب پر غور وفکر کرسکتا ہے ورنہ اگر خلا کے اس پار کی چیزوں پر غور وفکر کی دعوت دی جاتی تو انسان کا سمجھنا محال ہو جاتا۔
مزید یہ کہ اعتراض کی جانے والی قرآنی آیات کو خدا کے حکم کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اس کے لیے کہ دل میں خدا کا تصور موجود ہونا ضروری ہے۔ جو شخص اپنے خدا کو ہی نہیں جانتا اور نہ ہی اس کے دل میں اس کی کوئی جگہ ہے تو وہ اس کے احکامات کو کیونکر مانے گا جو اس کی طرف سے انسانی معاشرہ کی بھلائی کے لیے ہیں؟ کسی شہر کا طائرانہ مشاہدہ کرنا اس کی گلی کوچوں میں کھڑے رہنے سے ممکن نہیں، اس کے لیے تو پہاڑوں کی سی بلندی درکار ہوتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی فکر ونظر کی بلندی اور اس کی آفاقیت کے لیے اپنے دل کو صرف خدا کی محبت کا مسکن بنائے۔ یہی محبت ایک قوت محرکہ بن کر اس کے قلب و ذہن کو آسمانوں کی سی بلندیاں عطا کرتی ہے اور وہ اس ماحول میں اپنے آپ کو پاتا ہے جہاں خدا کے تمام احکامات فطری معلوم ہوتے ہیں۔
معاشرہ کے محافظ مخصوص حالات میں مجرموں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیتے ہیں اور بعض کو ان کے جرم کے مطابق سزا دیتے ہیں۔ وہ ان کاموں کو کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور انہیں حق بجانب سمجھا جاتا ہے۔ انسانوں کے خالق نے بھی جن لوگوں کے وجود سے معاشرہ کا امن وچین خطرے میں پڑ سکتا ہو یا وہ جن کے ذریعہ زمین میں ظلم و فساد رونما ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہو ان کے خلاق سخت سزائیں تجویز کرتا ہے:
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ اَنَّ اللٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۙ
یہ ان (اعمال) کی سزا ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں۔ اور یہ (جان رکھو) کہ خدا (بندوں پر) ظلم نہیں کرتا (سورہ الانفال:51)
مسلمانوں کا مطلوبہ کردار کیا ہو؟
انسانی زندگی کے لیے ہوا پانی اور غذا کی ضرورت سے تو سبھی واقف ہیں لیکن ان میں خدائی کلام کی شمولیت کے بغیر یہ ضروری اجزاء نامکمل ہیں۔ انسانوں کے خالق نے انسان کی جسمانی ضروریات کے لیے وہ تمام مادی چیزیں بہم پہنچائی ہیں جبکہ اس کی روح کی تسکین و تذکیر کے لیے اپنی کتاب سے وابستگی لازمی قرار دی ہے۔گویا قرآن مجید اس رب کا بچھایا ہوا دستر خوان ہے۔ دیکھیے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت کردہ حدیث میں نبی کریمﷺ کیا نصیحت فرماتے ہیں:
بلاشبہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا دسترخوان ہے پس تم اپنی استطاعت کے مطابق اس سے استفادہ کرو۔ بے شک یہ قرآن مجید ﷲ تعالیٰ کی رسی ہے واضح اور چمکتا نور ہے اور فائدہ مند علاج ہے۔ جو اس سے اپنا تعلق مضبوط کرے اس کے لیے یہ باعث شان ہے۔اور جو اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو اس کے لیے نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ کبھی جھکتا نہیں کہ اس کو کھڑا کرنے کی ضرورت پڑے۔ یہ کبھی ٹیڑھا نہیں ہوتا کہ اس کو سیدھا کرنا پڑے۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اور بار بار کثرت سے پڑھتے رہنے سے یہ کبھی پرانا نہیں ہوتا (بیہقی فی شعب الایمان‘ صحیح ابن حبان)۔
لہذا قرآنی پیغام کی اشاعت کے لیے اس کی غیر معمولی تاثیر کا بڑا گہرا یقین ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں اشتراکیت (communism) جیسی اسلام اور انسانی فطرت کی مخالف اور انتہائی سخت گیر تحریک کا قرآن سے گرویدہ ہونے کا یہ واقعہ قابل غور ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے اپنی تفسیر الہام الرحمٰن میں اس کاذکر کیا ہے:
’’روسی انقلاب ایک اقتصادی انقلاب ہے جس کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ حیاتِ اخروی سے کوئی سروکار رکھتا ہے۔ ہم نے ان کی صحبتوں میں بیٹھ کر نہایت لطیف طریق سے امام ولی اللہ دہلوی کا وہ پروگرام انہیں بتایا جو حجۃ البالغہ میں مذکور ہے۔ جب انہوں نے ہم سے پوچھا کہ اس پروگرام پر کوئی قوم عمل بھی کرتی ہے؟ تو ہمیں اس کاجواب نفی میں دینا پڑا۔ تو انہوں نے کہا کہ افسوس اگر کوئی ایسی قوم ہوتی تو ہم ان کا مذہب اختیار کر لیتے اور ہمارے پروگرام میں جو سخت مشکل پیش آتی ہے یعنی کسانوں کا مسئلہ، وہ حل ہو جاتا۔ یہ ہے ان کی تمام باتوں کا ملخص۔ اس فکر میں ہم نے کوئی تحریف نہیں کی، ہم اس سے یقین کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے پروگرام کو قبول کرنے پر مجبور ہیں، خواہ کچھ عرصہ کے بعد ہی سہی۔ تاریخ انسانیت میں اشتراکیت سے بڑھ کر کوئی تحریک فطرت انسانی یعنی تعلیم قرآنی کے مخالف پیدا نہیں ہوئی۔ جب یہ تحریک بھی ہدایت قرآنی کے قبول کرنے کی محتاج ہے تو باقی تحریکات کا کیا پوچھنا‘‘
(٩) قرآنی پیغام پر عمل اور اس کی اشاعت کے سلسلہ میں خرم مراد مرحوم کا دورہ چین کا واقعہ بھی قابل ترغیب ہے۔ جب مرحوم کی سر زمین چین پر آمد ہوئی تو چینی زبان میں کچھ کہہ کر ان کا استقبال کیا گیا۔ دن بھر وہ جہاں بھی جاتے شروع میں ان کو انہیں کلمات سے مخاطب کیا جاتا۔ بالآخر جب انہوں نے چینی زبان جاننے والے سے پوچھا کہ یہ کس بات کو بار بار دہرایا جا رہا ہے تو بتایا گیا ماؤزے تنگ، معروف چینی مارکسی وسیاسی رہنما کا قول ہے کہ صبح جو جملہ ادا ہو اس کو دن بھر ہر کوئی ہر جگہ دہراتا رہے۔ اس سے خرم مرادؒ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نماز فجر میں امام صاحب جن آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں وہ گویا دن بھر کے لیے حرکت و عمل کا منصوبہ ہے۔ رجوع الی القرآن کا عملی نمونہ بننا اس کی تعلیمات سے انفرادی واجتماعی زندگیاں سنوارنا امت مسلمہ ہند کا مشترکہ اور ترجیحی عمل ہونا چاہیے۔نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغام میں تاثیر اعلیٰ اخلاق وکردار سے ممکن ہے۔ کوہ صفا سے آپؐ نے اہل مکہ کو یا صباح کہہ کر مخاطب فرمایا تھا اور اس وقت لوگوں نے آپؐ کے صادق وامین ہونے کی تصدیق کی تھی۔ یعنی اہل وطن کے لیے ہماری یا صباح کی صدا میں زور اس وقت پیدا ہو گا جب ہم بحیثیت امت معاشرہ میں اخلاقی لحاظ سے برتر رہیں اور لوگ ہمارے بلند وبالا اخلاق وکردار کے قائل ہو جائیں۔
حواشی:
(۱)ومعنى ذلك أنه نصب لهم الأدلة على ربوبيته ووحدانيته وشهدت بها عقولهم التي ركبها فيهم وجعلها مميزة بين الهدى والضلالة، فكأنه أشهدهم على أنفسهم وقررهم وقال لهم: ألست بربكم؟ وكأنهم قالوا: بلى أنت ربنا شهدنا على أنفسنا وأقررنا بوحدانيتك
(مدارک التنزيل و حقائق التأويل)۔
(۲)كيف تلزم الحجّة واحد لا يذكر الميثاق؟ قيل: قد أوضح الله الدلائل على وحدانيته وصدق رسله فيما أخبروا، فمن أنكره كان معانداً ناقضاً للعهد ولزمته الحجّة، وبنسيانهم وعدم حفظهم لا يسقط الاحتجاجُ بعد إخبار المخبِر الصادق صاحب المعجزة۔(المعالم التنزیل)۔
(۳) Pew Research Centre, Survey conducted between 17 Nov 2019 to 23 March 2020
(۴) }ولکل قوم ھاد{ أی: داع یدعوھم الی الھدی من الرسل واتباعھم ‘ومعھم من الأدلۃ والبراھین ما یدل علی صحۃ ما معھم من الھدی
(تفسیر تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان)۔
(۵) کتاب الہند ‘البیرونی ترجمہ از سید اصغر علی‘ صفحہ ۲۷۔
(۶)مجمع البحرین ‘ ترجمہ ازپروفیسر محمد یونس شاہ گیلانی‘ صفحہ ۵۱ اور۷۴تا۷۶۔
(۷) اُرِیْدُ مِنْھُمْ کَلِمَۃً وَاحِدَۃً یَقُوْلُوْنَھَا تَدِیْنُ لَھُمْ بِھَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّي اِلَیْھِمْ بِھَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ۔(سیرت ابن ہشام)۔
(۸) الأمي منسوب إلى أمة العرب، لما أنهم أمة أميون لا كتاب لهم، ولا يقرأون كتاباً و لا يكتبون۔ (مفاتیح الغیب)۔
(۹)مولانا عبید اللہ سندھی، الہام الرحمن ، 1: 14، 15۔
***
***
جو شخص اپنے خدا کو ہی نہیں جانتا اور نہ ہی اس کے دل میں اس کی کوئی جگہ ہے تو وہ اس کے احکامات کو کیونکر مانے گا جو اس کی طرف سے انسانی معاشرہ کی بھلائی کے لیے ہیں؟ کسی شہر کا طائرانہ مشاہدہ کرنا اس کی گلی کوچوں میں کھڑے رہنے سے ممکن نہیں، اس کے لیے تو پہاڑوں کی سی بلندی درکار ہوتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی فکر ونظر کی بلندی اور اس کی آفاقیت کے لیے اپنے دل کو صرف خدا کی محبت کا مسکن بنائے۔ یہی محبت ایک قوت محرکہ بن کر اس کے قلب و ذہن کو آسمانوں کی سی بلندیاں عطا کرتی ہے اور وہ اس ماحول میں اپنے آپ کو پاتا ہے جہاں خدا کے تمام احکامات فطری معلوم ہوتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022