بنگالی نژادمسلمان 75برسوں سے ظلم و ناانصافی کے شکار

میاں میوزیم پر تنازعہ۔آسام حکومت کا ایک اورغیر آئینی قدم

نوراللہ جاوید

کیاثقافت و کلچر کی حفاظت کے لیےاٹھایا جانے والا قدم غیر آئینی ہے اور جرم کا ارتکاب ہے۔ آیا دستورکی دفعہ 29اور 30کی معنویت ختم ہوچکی ہے۔دراصل یہ سوالات آسام کے تناظر میں پیدا ہورہے ہیں۔ کیوں کہ ہیمنت بسواسرما کی حکومت نے ریاست کے گوالپارہ میں ’’میاں میوزیم ‘‘ کو اس کے افتتاح کے محض دو دن بعد بند کردیا ہے اور میوزیم بنانے کے جرم میں صدر ، سیکریٹری اور ایک عہدہ دار کو یو اے پی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ میوزیم ’’میاں کمیونیٹی ‘‘ کے تہذیبی و ثقافتی ورثے کےلیے نجی طور پر قائم کیا گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میوزیم کےلیے الگ سے نہ کوئی زمین لی گئی اور نہ کوئی عمارت کی تعمیر ہوئی۔ بلکہ آل آسام میاںپریشد کے صدر مہر علی نے اپنی رہائش گاہ کے ایک حصے کو میوزیم کےلیے مخصوص کیا ہے۔اس میوزیم میں عام طور پر کمیونٹی میں رائج اشیاء، جیسے لنگی، لنگول، پیٹھا (چاول کے کیک کی ایک شکل)، اور کاشتکاری کے کچھ سامان کی نمائش کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق اس میوزیم کی تعمیر میں محض0 7ہزار روپے کا صرفہ آیا ہے۔مگر طرفہ تماشہ دیکھئے 7ہزار روپے کی فنڈنگ سے متعلق حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس کی جانچ کی جائے گی کہ غیر ملکی ایجنسی کی مدد تو نہیں لی گئی ہے؟۔کہیں اس رقم کے ذریعہ آسام کے امن وامان کو نقصان پہنچانا مقصود تو نہیں ہے۔آل آسام میاں پریشد کے صدر ایم مہر علی،جنرل سیکرٹری عبدالبتین اور تنو ددھومیاںاس وقت پولس کی حراست میں ہیں’ظالمانہ قانون یواے پی ‘‘ کے تحت انہیں مقدمات کا سامنا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ دیگر مسلم نوجوان قیدیوں کی طرح پس دیوار زنداں لگادیا جاتا ہے یا پھروہ انصاف حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔میاں کمیونیٹی گزشتہ ایک صدی سے تعصب ، نفرت اور ناانصافیوں کا سامنا کررہی ہے۔گرچہ ان کے اجداد کا تعلق آسامی النسل آبادی سے نہیں ہے۔مگر ایک صدی قبل انگریزوں نے چائے باغات اور زراعت کےلیے متحدہ بنگال کے مختلف علاقوں سے لاکر یہاں آباد کیا۔برہم پترا اور آسام کے مرکزی و نچلے علاقوں میں بڑی تعداد میں بنگالی کمیونیٹی آباد ہے جنہیں نفرتی لہجے میں ’’میاں ‘‘ کہا جاتا ہے ۔بھارت کی آزادی کے بعد سے ہی یہ کمیونیٹی سیاسی طالع آزمائوں کے نشانے پر ہے۔80کی دہائی میں قتل عام کیا گیا ۔اس کے بعد این آر سی کے نام پر سالہا سال تک ہراساں کیا گیا۔اپنی شہریت ثابت کرنے کےلیے انہیں کئی کئی سو کلو میٹردور حکومتی دفاتر کی خاک چھاننی پڑی ۔این آر سی کا حصہ بننے کے بعد بھی انہیں تعصب و نفرت اور’’باہری ہونے‘‘کے طعنے کا سامنا ہے۔2021میں ہیمنت بسواسرما کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے ہی آسام کے مسلمان سرخیوں میں ہے۔پہلے انہوں نے آسام کے امداد سے چلنے والے مدرسوں کا کردار تبدیل کردیا۔ان مدرسوں کو اسکول میں تبدیل کردیا،جب کہ مدرسے کےلیے زمین مقامی مسلمانوں نے چندہ کرکے دیا تھا۔اس سے قبل انہوں نے سرکاری اور جنگل کی اراضی خالی کرانے کے نام پر دیہی علاقوں میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا تھا۔جب کہ ان میں وہ لوگ تھے جو سیلاب کی زد میں آنے کے بعد منتقلی کےلیے مجبور ہوکر وہاں آباد تھے۔دہشت گردی کے نام پر مدرسوں کو منہدم کیا گیا۔میڈیا میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی مدرسوں کے خلاف انہدامی کارروائی دہشت گردی کی سازش میں ملوث ہونے کی وجہ سے کی جارہی ہے مگرمدرسوں کو تعمیراتی خامیوں کا نوٹس دے کر کارروائی کی گئی۔اس کے بعد مقامی اور غیر مقامی آسامی مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ۔اب اپنے ثقافتی ورثہ کی حفاظت کےنام پر قائم کردہ میوزیم کو نہ صرف بند کردیا گیا بلکہ تین افراد کی کی گرفتاری بھی عمل آچکی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر ایک چھوٹی سی عمارت میں قائم کردہ میوزیم میں ایسا کیا ہے کہ ہیمنت بسواسرما چراغ پا ہیں اور اس چھوٹے سے قدم کو آسامی تہذیب و ثقافت کےلیے خطرہ بتایا جارہا ہے۔دوسرے یہ کہ میا ں میوزم کے قیام کا تعلق کیا سیاست سے ہے؟آیا اس کے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آخر یہ میاں کمیونیٹی کیا ہےاور ان کی تہذیب و ثقافت کیا ہے؟ان سوالوں پر غور کرنے سے قبل ضروری ہے کہ میوزیم پر تالا بندی اور اس کے بعد گرفتاری آسام پولس کے متضاد موقف پرغور کیا جائے ۔تین افراد کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے گوالپارہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وی وی راکیش ریڈی نے بتایا کہ مہرعلی کی گرفتاری ضلع نل باری میں درج ایک دوسرے کیس کے سلسلے میں ہوئی ہے۔میوزیم پر تالا بندی صرف ا س بنیاد پر کیا گیا ہے کہ اس مکان کی تعمیر ’’پردھان منتری آواس یوجنا ‘‘ کے تحت ہوئی ہے ۔رہائش کےلیے دی گئی عمارت کا استعمال میوزیم کےلیے نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس لیے سیل کردیا گیا ہے۔ریڈی نے بتایا کہ مہر علی کی گرفتاری کا میاں میوزیم کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نل باڑی ضلع کے پولس سپرنٹنڈنٹ نے اس پورے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔جب کہ آسام پولس کے خصوصی ڈائریکٹر جنرل جی پی سنگھ نےٹوئیٹر کے ذریعہ اطلاع دی کہ ان تینوں کے خلاف دفعہ 120 (B)، 121، 121 (A)، 122 کے تحت بھارت کے خلاف جنگ چھیڑنے یا چھیڑنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے غیر ملکی تنظیموں سے تعلقات کی بھی جانچ کی جائے گی۔پولس انتظامیہ کے متضاد بیانات سے واضح ہوگیا ہے کہ مدرسوں کے خلاف کارروائی کی طرح اس معاملے میں بھی پولس کے پاس کارروائی کرنے کی کوئی دلیل اور موقف نہیں ہے ۔ان کا مقصد میوزیم بند کرانا تھا اور اس کےلیے یہ کارروائی کی گئی۔
’’ میاں ‘‘ شناخت پر فخر کا اظہار
1826میں آسام کے برطانوی الحاق کے بعد متحدہ بنگال بالخصوص مشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بنگالی کمیونٹی مختلف مرحلے میں آسام کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئی۔1890میں اس میں تیزی آئی ہے۔ بنگالی کمیونیٹی کو اکثر تضحیک آمیز انداز میں’’میاں‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔بنگالی کمیونیٹی کی ہجرت کرنے کی وجہ سےخطے کی آبادیاتی ساخت میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ لاٹھی باری نامی قدیم پرفارمیٹی مارشل آرٹ میں انہیں مہارت حاصل تھی۔برہم پتر دریا کے جزیروں میں میں ان کی آبادی ہے۔اس علاقے کو چارچا پوری بھی کہا جاتا ہے۔یہ لوگ دراصل بنگالی نژاد ہی ہیں ۔چوں کہ برہم پتر ندی کے آس پاس رہنے کی وجہ سے ان کی آبادی سیلاب کی زد میں اکثرآجاتی ہے اس کی وجہ سے انہیں نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔ان میں بعض آبادیوں کا سڑک سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔اس کی وجہ سے اس علاقے میں ترقیاتی کام نظر نہیں آتے ۔سیلاب کی تباہی اور حکومت کی بے توجہی کی وجہ سےیہ حکومت کی فلاحی اسکیموں سے بھی محروم ہے۔غربت اور کھیتوں میں کام کرنے کے باعث اور روایتی طور پر وہ رنگ برنگے کپڑے پہنتے ہیں ۔اس کے علاوہ سفید بنیان اور دھوتی بھی ان کی شناخت ہے۔تاہم اس علاقے میں بنگالی کمیونیٹی کے علاوہ دوسری کمیونیٹی جیسے لاپتہ، دیوریز، کوچاری، نیپالی بھی یہاں رہتے ہیں۔ویسے آسام بھر میں بنگالی نژاد مسلمانوں کی بڑی آبادی رہتی ہے۔ڈیڑھ صدی سے زاید عرصے سے رہنے کی وجہ سے بنگالی نژاد مسلمانوں نے اپنی زبان چھوڑ کر آسامی زبان اورثقافت و کلچر کو رضاکارانہ طور پر احتیار کرلیا ہے۔ظاہر ہے کہ اپنی زبان کو ترک کرنا ایک بڑی قربانی ہے۔مگر اس کے باوجود آسامی النسل مقامی آبادی آج بھی انہیں باہری قرار دیتی ہے ۔ویسے آسامی اور بنگالی زبان کے لہجہ اور رسم الخط میں بڑی حد تک مماثلت ہے تاہم الفاظ الگ ہیں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد 1971تک اور اس کے بعد بھی بنگالی ہندئوں کی بڑی تعداد آسام میں آکر آباد ہوئی ۔بنگالی ہندئوں کو بھی تعصب اور نفرت کا سامنا رہا ہے۔80کی دہائی میں بنگالیو ں کے تحریک کا نشانے پر بنگالی ہندوبھی آئے۔مگر آسام کے دیگر علاقوں میں آباد بنگالی نژاد مسلمانوں کی معاشی حالت تجارت اور تعلیم کی بدولت کافی مستحکم ہے ۔مگر برہم پتر ندی کے کنارے رہنے والے افراد غربت اور پسماندگی کے شکار ہیں ۔اس کے اثرات ان کے لباس سے بھی عیاں ہوتے ہیں۔
بھارت کی آزاد ی کے بعد سے ہی آسامی ثقافت و کلچر کے نام پر بنگالی نژاد افراد کو نفرت اور تعصب کا سامنا ہے۔آبادی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو آسام میں آسامی النسل افراد اقلیت میں ہیں ۔کیوں کہ بنگالی نژاد شہریوں کے علاوہ بڑی تعداد میں قبائلی بھی ہیں جو اپنی شناخت آسامی کے طور پر نہیں کرتے ۔اسی طرح بوڈو آبادی بھی خود کو آسامی النسل کے طور پر پیش نہیں کرتی ۔مگر آسام کے کلچر اور حکومت پر آسامیوں کا دبدبہ ہے۔بنگالی نژاد مسلمانوں کی تذلیل کرنے کےلیے ’’میاں‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ 80کی دہائی کے بعد اس میں اضافہ ہوا ۔مگر حالیہ برسوں میں بنگالی نژاد مسلمانوں کے ایک حصے نے ’’میاں ‘‘ کو فخر کا ذریعہ بنالیا۔چناں چہ 2016میں بنگالی نژاد مسلم شاعر سلیم ایم حسین نے اپنی کتاب میں بتایا کہ تنگیل، پبنا، میمن سنگھ، ڈھاکہ اورمشرقی بنگال سے ہجرت کرنے والوں کی اولاد’’میاں ‘‘ ہیں ۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ پڑھے لکھے بنگالی بولنے والے آسامی مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنی ’’میاں شناخت ‘‘ کو چھپاسکتے ہیں مگر لنگی پہننے والے مزدور اور رکشہ والے جنہیں ریاست میں حقیر نظروں سے دیکھا جاتا ہے وہ اپنی شناخت نہیں چھپاسکتے ہیں۔ چناں چہ حالیہ برسوں میں ’’میاں کمیونیٹی ‘‘اپنی علاحدہ شناخت اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت کےلیے کوشاں ہیں۔اس کمیونیٹی سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ کئی نوجوانوں کے ایک گروپ نے ’’میاں کمیونیٹی ‘‘ کے امپاور منٹ اور ان کی تہذیب و ثقافت اور کلچر کی حفاظت کےلیےMiya Community Research Collectiveکے نام سے ایک ریسرچ گروپ کی بھی تشکیل دی ہے۔اسی طرح ان کی ادبی تنظیم چار چاپوری ساہتیہ پریشدبھی ہے۔اس پریشد کے صدر حفیظ احمد نے ایک نظم لکھی ’’میں ایک میاں ہوں‘‘(میں ایک میاں ہوں، میں ایک آسامی ہوں۔ میں آسامی معاشرے کا حصہ ہوں۔ میں اپنے آپ کو میاں کے طور پر پہچانتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں،)یہ نظم خوب وائر ل ہوئی اور آسام میں اس پر خوب تنقیدیں بھی ہوئیں ۔
2022میں ہیمنت بسواسرما نے سرکاری اور جنگل کی زمین خالی کرانے کے نام پر مسلم بنگالیوں کے مکانات پر بڑے پیمانے پر بلڈوزر چلائے ۔شرما کی اس کارروائی کے بعد کانگریس کے ممبر اسمبلی شرمین احمد نے ان کارروائیوں کو میاں کمیونیٹی کے خلاف کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دراصل اس کا مقصد آبادی کے ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا ہے ۔شرمین احمد 2020میں گوہائی میں وشنوائی مصلح سریمانتا سنکر دیوکے نام پر قائم ثقافتی سنٹر میں میاں میوزیم کو بھی شامل کرنے کی تجویز اسمبلی میں رکھا ۔2021میں وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ہیمنت بسواسرما نے کہا کہ ’’میاں کمیونٹی ‘‘ کےلیے الگ شناخت کے مطالبات ’’آسام کی ثقافت اور شناخت کےلیے خطرہ ہے۔اور یہ آسامیوں کے حقوق کو چھیننے کی کوشش ہے۔
شرمین احمد نے کہتے ہیں وہ ہمیں ’’میاں‘‘ کہہ کر تذلیل کرتے تھے مگر اب ہم کہتے ہیں کہ ہاں میں ’’میاں‘‘ ہوں ، ہمیں اپنی اس شناخت پر فخر ہے اور ہم اسی شناخت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔ہمارے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ہماری آبادی آسام میں بوجھ بن کر رہ گئی ہے مگر ہم اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کے ذریعہ یہ بتانا چاہتے ہیں ہم آسام میں بوجھ نہیں ہیں بلکہ محنت مزدوری کے ذریعہ کھیتی کڑتے ہیں ۔ہم ایک جفاکش کمیونٹی ہیں۔میاں شناخت پر فخر کرنے کےلیے ہی یکم ستمبر 2021میں کانگریس کے ممبر اسمبلی شرجین علی احمد نے دہلی میں واقع آسام بھون میں کھڑے ہوکر لنگی اور گنجی پہن کر تصویر کھینچوائی اور اس کو فیس بک پر پوسٹ کرتے ہوئے اپنی اس شناخت پر فخر کا اظہار کیا۔
تاہم ’’میاں کمیونیٹی ‘‘ کی ثقافت و کلچر کی حفاظت کےلیے ایک ایسے وقت میں مہم چلائی جارہی ہے جب آسام میں ’’مذہبی شناخت‘‘ کی بنیاد پر فرقہ وارانہ دراڑ ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایسے ماحول میں میاں کمیونیٹی کی حفاظت اور اس کےلیے میوزیم کے قیام پر خود میاں کمیونٹی سے آواز اٹھ رہی ہے۔بنگالی نژاد مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی بدرالدین اجمل کی قیادت والی سیاسی جماعت اے یو ڈی ایف کے ترجمان و رکن اسمبلی امین الاسلام کے بقول ’’میاں میوزیم‘‘ اور شرجین علی احمد کی مہم ہندتو سیاست کےلیے پانی کا کام کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی ’’میاں میوزیم‘‘ کے خیال کی حمایت نہیں کرتی ہے ۔ہم سب آسامی ہیں اور ذیلی گروپوں میں تقسیم سے مسلمانوں کو ہی نقصان ہو گا۔گوریا مسلمان، میاں مسلمان اورآسامی مسلمان کے نام پرتقسیم کی سیاست بی جے پی کا قدیم ایجنڈا ہے ۔تاہم امین الاسلام کہتے ہیں حکومت کی کارروائی مکمل طور پر غیرآئینی ہے ۔میوزیم کے قیام سے آئین کے کسی بھی دفعہ کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ میوزیم قائم کرنے والوں کے خلاف یواے پی ایکٹ لگانا مضحکہ خیز اور طاقت کا بے جا استعمال کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
اپوزیشن جماعت کانگریس’ میاں میوزیم کی تشکیل اور گرفتاریوں کو ’’مذہبی پولرائزیشن ‘‘ کے طور پر دیکھتی ہے۔کانگریس نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے باپ دادا کی یادگار کی حفاظت کرنا کوئی جرم نہیں ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہیمنت بسواسرما اس پربیان بازی کررہے ہیں مگر انہیں جو کام کرنا چاہیے وہ نہیں کررہے ہیں ۔آسام سول سروس کے امتحان میں آسامی لازمی نہیں ہے اور آسام کے بالائی حصے میں ریڈیو کی نشریات سے آسامی زبان کو ہٹادیا گیا ہے مگر اس پر وہ کچھ بھی نہیں کررہے ہیں ۔آسامی میڈیم اسکول بند ہورہے ہیں۔
’’میاں ‘‘ میوزیم پر کانگریس اوربی جے پی کا دونوں یہ اعتراض ہے کہ میوزیم میں زرعی اور ماہی گیر ی کے جن اوزاروں کی نمائش کی گئی ہے۔وہ صرف میاں ثقافت و کلچرکی خصوصیت نہیں ہے بلکہ یہ آسام کے کلچر کا حصہ ہےتاہم کونسی اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ آسام کے کلچرکا حصہ ہے یا نہیں مگر صرف اختلافات کی بنیاد پر میوزیم کو بند کردیا جانا اور میوزیم قائم کرنے والوں کی گرفتاری کا جواز ہے۔تاہم میوزیم قائم کرنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ ہم نے ان یادگار سامانوں کی نمائش اس لیے کیا تاکہ ہم بتاسکے ہماری بہت سی مشترکہ یادیں ہیں جس کی حفاظت ہونی چاہیے۔
دراصل کانگریس کے معطل ممبر اسمبلی شرمین علی احمد صرف میاں کلچر و ثقافت کی حفاظت نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ گزشتہ 76سالوں میں بنگالی نژاد مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے تاریخی بیانیہ پرہی سوال کھڑا کررہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اب تک آسام میں تمام خلفشار کےلیے بنگالی مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہاہے مگر حقیت یہ ہے کہ 1979 سے 1985 تک جاری رہنے والی آسام تحریک کے دوران بنگالی کمیونیٹی ظلم و تشدد کا شکار ہوئی ہے ۔آسامی بولنے والے نوجوانوں نے حملے کئے ۔ ہمارے لوگوں کا قتل کیا گیا ۔نہ کانگریس کے دور اقتدار میں انصاف ملا اور تو امید بھی نہیں کی جاسکتی ہے شرمین احمد کہتے ہیں کہ المیہ یہ ہے کہ آسام تحریک برپا کرنے والے جن کے ہاتھ ہزاروں افراد کے قتل سے لہولہان ہیں انہیں غازی اور ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔کیا حملہ آور اور قاتل بھی ہیرو ہوگا۔شرمین علی احمد کے یہ وہ بیانات ہیں جس کی وجہ سے میاں کمیونیٹی کی علاحدہ شناخت کی بحث کا رخ دوسری طرف موڑ دیتا ہے۔جب کہ اس میں تاریخی حقائق ہیں ، نیلی کے فسادات ملک کے بھیانک ترین فسادات میں سے ایک ہے۔تاہم یہ سوال ہے کہ شرمین علی احمد کے یہ پرجوش بیانات سے آسام میں بنگالی مسلمانوں کو انصاف مل سکے گا ؟ ۔کیا پولرائز یشن کے شکار معاشرہ میں تقسیم کی لکیریں گہری نہیں ہوگی۔کیا اس کے رد عمل میں آر ایس ایس کو اپنے تفرقہ انگیز ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی مدد نہیں ملے گی ۔ چناں چہ بنگالی نژاد مسلمانوں کا ایک بڑے حلقے کا موقف ہے کہ ان حالات میں میاں کمیونیٹی کو زیادہ ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔جارحانہ موقف سے کمیونٹی کی مدد تو نہیں ہوگی، مگر دوسری طرف، مزید تقسیم پیدا ہوگا اور یہ حالات بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیے حالات سازگار کریں گے۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022