سید شعیب ہاشمی
نقل مکانی، سفری مسائل اور مخالفین کے حملوں سے سیکڑوں مسلمان ہلاک
میانمار فوج کی جانب سے انتہائی وحشت ناک مظالم کا شکار ہونے کے بعد روہنگیا مسلمانوں کو اپنی جان، مال اور ایمان کی حفاظت کے لیے مختلف ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ زیادہ تر روہنگیا مسلمانوں نے اپنے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی جن کی تعداد کم و بیش دس لاکھ ہے۔ قتل و غارت گری کے خوفناک ماحول سے بچ کر نکلنے والے بے سر وسامانی کی حالت میں ایک ملک سے دوسرے ملک سیکڑوں کلومیٹر کا سفر کرکے ہجرت کرنا روہنگیا مسلمانوں کے لیے کوئی آسان کام نہ تھا۔ ایک طرف کچھ قافلے کشتیوں کے ذریعے سمندری راستے سے نکل گئے تو وہیں دوسری جانب لاکھوں افراد سواریاں میسر نہ ہونے کی وجہ سے پیدل ہی نکل پڑے۔ دونوں ہی راستے ان مہاجرین کے لیے پر خطر تھے۔ ایک طرف سمندر میں بیشتر کشتیاں ڈوب جانے کی وجہ سے ان گنت مہاجرین جاں بحق ہو گئے تو دوسری طرف پیدل سفر پر نکلنے والے ہزاروں مہاجرین کو بھوک، پیاس، سیلاب، لمبے سفر کی تھکاوٹ، جنگلی جانوروں اور دشمنوں کے حملوں نے موت کی نیند سلا دیا۔ اس طرح ہجرت کے دوران ہزاروں مہاجرین بنگلہ دیش پہنچنے سے قبل ہی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔
ہزاروں مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کے بعد جب لاکھوں افراد نے بنگلہ دیش کی سرزمین پر قدم رکھا تو انہیں دشمنوں کے خوف سے نجات تو مل گئی لیکن ان کے سامنے زندگی گزارنے کے لیے مسائل کا انبار لگا ہوا تھا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے مہاجرین کے لیے کیمپ تو بنوائے تھے لیکن ان کیمپوں میں لاکھوں مہاجرین کے کھانے، پینے اور پہننے اوڑھنے کا معقول بندوبست نہیں تھا۔ اس دوران کیمپوں میں منتقل ہونے سے قبل سیکڑوں حاملہ عورتیں، شیر خوار بچے اور ضعیف افراد بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں سب سے بڑا پناہ گزیں کیمپ بنوایا گیا ہے جہاں لاکھوں افراد مقیم ہیں۔ آج بھی ان مہاجرین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ آئے دن نت نئی قدرتی آفات کی وجہ سے روہنگیا مسلمان آج تک اپنے کیمپوں میں سکون کی سانس تک نہیں لے سکے ہیں۔ موسم باراں میں ہر سال زور دار بارش کی وجہ سے لینڈ سلائڈنگ اور سیلاب کی صورت حال سے بھی انہیں دو چار ہونا پڑتا ہے جس کی وجہ سے کئی جانیں چلی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ روہنگیا کیمپوں میں آتشزدگی عام بات ہے۔بنگلہ دیش کی وزارت دفاع کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2021 سے دسمبر 2022 کے درمیان روہنگیا کیمپوں میں آتشزدگی کے 222 واقعات رونما ہوئے ہیں، مارچ 2021 میں بستی کے ایک کیمپ میں آگ لگنے سے کم از کم 15 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور تقریباً 50 ہزار افراد بے گھر ہو گئے تھے۔اسی طرح گزشتہ امسال مارچ میں بھی پناہ گزینوں کے کیمپوں میں آگ لگنے سے دو ہزار سے زائد کیمپ جل کر خاکستر ہوگئے اور تقریباً بارہ ہزار لوگ بے گھر ہو گئے۔
اتنے مصائب اور پریشانیوں کو جھیلنے کے بعد دسیوں مرتبہ اجڑنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں کو دوبارہ بسانےکا کام چل ہی رہا تھا کہ طوفان موکا نے ایک مرتبہ پھر بڑی تعداد میں پناہ گزیں کیمپوں کو نیست و نابود کرتے ہوئے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بے سروسامانی کی زندگی گزارنے والے روہنگیا مسلمان طوفان کے شدید خطرات کی زد میں آ گئے۔ رپورٹس کے مطابق چار سے پانچ سو تک پناہ گزیں کیمپوں کو نقصان پہنچا ہے۔ طوفان نے روہنگیا مسلمانوں کو ایک بار پھر سخت دشواریوں سے دوچار کر دیا ہے۔ ماہرین نے طوفانی بارش سے لینڈ سلائیڈنگ کا اندیشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کے سنگین خطرے سے نمٹنے کے لیے امدادی اشیا، پینے کے پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کے سامان کی فوری ضرورت ہے۔ یو این ایچ سی آر کی ترجمان اولگا ساراڈو کے مطابق ان حالات میں رواں سال کے آغاز میں بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کو دی جانے والی غذائی امداد میں 17 فیصد کٹوتی کرنی پڑی۔ اگرچہ سمندری طوفان کے اثرات بنگلہ دیش میں کہیں زیادہ بدترین ہو سکتے ہیں تاہم وہاں پناہ گزینوں کے کیمپوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
واضح رہے کہ آئندہ ماہ جون سے بارش کا موسم شروع ہونے والا ہے، ایسے میں پناہ گزیں علاقوں خصوصاً کاکس بازار میں زور دار بارش اور لینڈ سلائڈنگ کا خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔کمزور معاشی حالات والے ملک بنگلہ دیش کو اس انسانی المیے سے نبرد آزما ہونے میں شدید پیچیدگیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ روہنگیا پناہ گزینوں کو بار بار بساتے بساتے بنگلہ دیش حکومت تنگ آچکی ہے اور وہ یہ چاہتی ہےکہ کسی طرح روہنگیا پناہ گزیں ان کا ملک چھوڑ کر اپنے وطن ہجرت کر جائیں ۔وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ اپنے مصائب کے علاوہ ہمسایہ ملک میانمار سے آئے روہنگیا پناہ گزینوں کی طویل موجودگی بنگلہ دیش کی معیشت، ماحولیات، سلامتی، سماجی اور سیاسی استحکام پر سنگین اثرات مرتب کر رہی ہے۔ خیال رہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں وہاں غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔یہ لوگ کئی دہائیوں سے رخائن صوبے میں مقیم ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں بنگالی کہہ کر دھتکارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں وہ بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جانے والی بولی کے مماثل ہے۔ میانمار میں انہیں کسی طرح کے کوئی شہری حقوق حاصل نہیں ہیں۔دنیا بھر سے حقوق انسانی کے متعدد گروپس، اقوام متحدہ اور سماجی و ملی تنظیمیں میانمار حکومت سے یہ اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے، لیکن ان کی یہ اپیل نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہورہی ہے۔ عالمی برادری، اقوام متحدہ اور خصوصاً مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو مستقل طور پر پُر امن علاقوں میں بسانے کے لیے لائحہ عمل تیار کریں تاکہ انہیں پرسکون زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 مئی تا 03 جون 2023