برطانیہ میں اسلاموفوبیا کا بڑھتا جال

سیاسی مقاصد کے لیے مسلم مخالف ماحول بنانے کی سازشیں تیز ہیں

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

برطانوی عوام متعصب اور نفرتی رہنماؤں سے اوب چکے ہیں. امید کی نئی کرن
‘‘پچھلے چند دنوں کے دوران پیش آنے والے غیر متعلقہ واقعات نے ایک بار پھر ظاہر کر دیا کہ برطانیہ میں اسلام کے خلاف بیانیہ پیدا کرنا کتنا آسان ہے۔ صرف 20 سال پہلے لیبرپارٹی کے تحت برطانیہ کو ایک ‘کثیر ثقافتی اور نسلی آمیزش والی سوسائٹی’ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، لیکن اب برطانیہ میں ایک بار پھر کنزرویٹو حکمرانی کے تحت اسلامو فوبیا کو حکمراں جماعت اور حزبِ اختلاف دونوں ہی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے نظر آرہے ہیں۔ ’’
گزشتہ سال 7؍ اکتوبر کے بعد سے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے خلاف ہونے والی زبردست ریلیاں برطانیہ میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے خطرات کی ذمہ دار مانی جارہی ہیں۔ مسلم مخالف واقعات کی پیمائش اور نگرانی کرنے والی عوامی خدمت کی تنظیم TellMAMA کے مطابق 7؍ اکتوبر 2023 سے 7؍ فروری2024 کے درمیان مسلم مخالف واقعات کی تعداد میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس سے پہلے مسلم خواتین کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اسی طرح 2023 کے آخری تین مہینوں میں پچھلے سال کے مساوی عرصے کے مقابلے میں سامی مخالف واقعات میں چھ گنا اضافہ دیکھا گیا، جس میں حماس کے حملے کے فوراً بعد اور اسرائیل کی جانب سے اپنا فوجی ردعمل شروع کرنے سے پہلے اس میں اضافہ ہوا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ واضح پیغام دینے کے بجائے کہ نسل پرستی کی یہ شکلیں مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں، کچھ سیاست دانوں نے مزید کشیدگی کو ہوا دے کر ان واقعات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
خاص طور پر قدامت پسند سیاست دانوں یعنی کنزروویٹو یا ٹوری کہے جانے والے سیاست دان انتہائی نادانی سے اسلاموفوبیا کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔ سابق ہوم سکریٹری سویلا بریورمین نے دعویٰ کیا کہ ‘‘اسلام پسند، انتہا پسند اور یہود مخالف برطانیہ کے نگہبان بنتے جارہے ہیں۔’’ کنزرویٹو پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین لی اینڈرسن ایم پی نے پچھلے دنوں لندن کے لیبر میئر صادق خان کو اسلام پسندوں کوشہ دینے کا ذمہ دار ٹھیرایا اور کہا کہ مسلم سیاست داں برطانیہ میں اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
لیکن سب سے پہلے ہاؤس آف کامنز کے اسپیکر اور لیبر لیڈر کیئر اسٹارمر کے بیان سامنے آئے، جس کی وجہ سے غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبک نفرت کا دھماکہ ہوا ہے۔
ہم یہ کہہ کر سیاق و سباق کو مسخ نہیں کرسکتے کہ گزشتہ چند مہینوں سے برطانوی سیاست میں ایک پریشان کن بیانیہ مسلسل زور پکڑ رہا ہے۔ یہ بیانیہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ بنیاد پرست اسلام پسند برطانوی سماج پر قبضہ کر رہے ہیں، سیاست دانوں کو ڈرانے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہے ہیں، اور پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت خود خطرے میں ہے۔مزید یہ کہ برطانوی مسلمان برطانوی سیاسی نظام کو خراب کر رہے ہیں۔ یہ بیانیہ وائرل ہوا اور صرف 24 گھنٹوں میں زور پکڑ گیا۔ یہ معاملہ سب سے زیادہ برطانوی سیاست دانوں کی پہلے سے متعصبانہ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔سابق کابینہ کے وزیر رابرٹ جینرک نے 22 فروری کو ہاؤس آف کامنز میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ہماری سڑکوں پر اسلام پسند انتہا پسندوں کا غلبہ ہونے دیا جا رہا ہے۔’’ 22؍ فروری کو وزیر اعظم رشی سوناک نے شعلوں کو مزید ہوا دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘ہمیں انتہا پسندوں کو کبھی بھی پارلیمنٹ کے کام کرنے کا طریقہ تبدیل کرنے کے لیے اجازت نہیں دینی چاہیے۔’’ تاہم، نہ تو سوناک اور نہ ہی جینرک نے اپنے بیانات کو ثابت کرنے کی کوئی کوشش کی۔
سیاق و سباق کے مطابق، یہ تازہ ترین واقعہ ویسٹ منسٹر میں 21؍ فروری کے افراتفری کے واقعات کے بعد پیدا ہوا جب اسکاٹش نیشنل پارٹی (SNP) نے غزہ میں جنگ بندی کی حمایت میں ہاؤس آف کامنزمیں ایک تحریک پیش کی اور اسے آئینی بیانیہ میں ڈھالنے کے بجائے اسلاموفوبک بیان بازی کو ہوا دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔
یہ تحریک لیبر لیڈر کیئر سٹارمر کے لیے انتہائی شرمناک تھی،کیونکہ لیبر پارٹی کے بہت سے ممبران جنگ کے لیے ان کی حمایت کے شدید مخالف ہیں۔ یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ SNP اور کنزرویٹو دونوں پارٹیوں نے کیوں کامنز کے اسپیکر سر لنڈسے ہوئل کو ڈرایا، جب انہوں نے اپنے مشیروں کے مشورے کو مسترد کر دیا اور پارلیمانی کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لیبر پارٹی کو حکومت کی تحریک میں ترمیم کی اجازت دے دی۔
اس کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے یہ قدم پارلیمنٹ کے ممبران کی حفاظت کے لیے اٹھایا تھا۔ تاہم نہ تو انہوں نے اور نہ ہی اسٹارمر نے اس بات کی تفصیلات دی ہیں کہ انہیں یہ خبر کہاں سے ملی کہ اسلام پسند پارلیمان کے ممبران کو کس طریقے کی کارروائی کا نشانہ بناسکتے ہیں۔
دریں اثنا، مین اسٹریم برطانوی سیاست دان دعویٰ کر رہے ہیں کہ برطانوی مسلمان برطانوی جمہوریت کو تباہ کر رہے ہیں اور وہ ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اس سنگین اور اشتعال انگیز دعوے کے پس منظر میں، ہاؤس آف کامنز کے اسپیکر اور لیبر پارٹی کے رہنما، دونوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے دعوؤں کی تصدیق کریں۔ اسی دوران گریٹر مانچسٹر کی رچڈیل پارلیمانی سیٹ پر جارج گیلوے کی جیت نے بھی اسلاموفوبک محاذ کو ہوا دی ہے۔ کیونکہ گیلوے کنزرویٹو، لیبر اور دیگر امیدواروں کو ہرا کر فتح یاب ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنی فتح کو غزہ کی فتح قرار دیا ہے۔یعنی زیادہ تر سیاست دانوں کو یہ بات بھی ناپسند ہے کہ اب ایوانِ پارلیمان میں ایک ایسا شخص موجود ہوگا جو غزہ میں ہونے والے اسرائیلی ظلم و ستم اور وحشیانہ کارروائیوں کو ملک کے سامنے پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔دراں حالیکہ اس انتخاب کی سیاسی مہم کے دوران کنزرویٹو اور لبرل دونوں نے ہی اسلاموفوبیا کو مزید ہوا دینے والے بیانات دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
جس طریقے سے اسلاموفوبیائی سیاست داں برطانیہ میں حالیہ عرصے میں سیاست کرتے نظر آرہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ میں اسلاموفوبیا تیزی سے پھیل رہا ہے، اور وہ اس کو ختم کرنے کے بجائے عوام میں اسلاموفوبیا کو ویلن بناکر اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں، بجائے اس کے کہ اس وقت وہ ماضی میں برطانیہ کی جانب سے کی گئی غلطیوں کو ختم کرانے کی کوشش کریں۔مزید یہ کہ جس طریقے سے رشی سوناک کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی اقتصادی صورتِ حال کو پٹری پر لانے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے عوام میں اس کے مخالف جذبات میں اضافہ ہورہا ہے، تو ایسی صورت حال میں اپنی پرانی روایات کے مطابق اسے اس مشکل سے نکلنے کے لیے اسلام مخالف جذبات کو بھڑکا کر دیگر ووٹوں کو اپنی حمایت میں یکجا کرنا سب سے آسان نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بھی دیوانے کا خواب ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ عوام اب نہ صرف رشی سوناک بلکہ کنزرویٹو پارٹی اور اس کے کمزور رہنماؤں سے اوب چکے ہیں اور شاید آئندہ انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی حکومت سے باہر ہو جائے۔
حالیہ واقعہ نے لیبر قیادت کو بھی بے نقاب کر دیا ہے، خاص طور پر اسٹارمر کو جو فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں ایسا لگتا ہے کہ شاید LibDems ایک بار دوبارہ سیاسی طور پر متحرک ہوجائے جو اس سال یا اگلے سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اقتدار سنبھالنے والی کسی بھی کی حکومت کی ایک بڑی شراکت دار بن سکتی ہے۔

 

***

 ہم یہ کہہ کر سیاق و سباق کو مسخ نہیں کرسکتے کہ گزشتہ چند مہینوں سے برطانوی سیاست میں ایک پریشان کن بیانیہ مسلسل زور پکڑ رہا ہے۔ یہ بیانیہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ بنیاد پرست اسلام پسند برطانوی سماج پر قبضہ کر رہے ہیں، سیاست دانوں کو ڈرانے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہے ہیں، اور پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت خود خطرے میں ہے۔مزید یہ کہ برطانوی مسلمان برطانوی سیاسی نظام کو خراب کر رہے ہیں۔ یہ بیانیہ وائرل ہوا اور صرف 24 گھنٹوں میں زور پکڑ گیا۔ یہ معاملہ سب سے زیادہ برطانوی سیاست دانوں کی پہلے سے متعصبانہ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔سابق کابینہ کے وزیر رابرٹ جینرک نے 22 فروری کو ہاؤس آف کامنز میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری سڑکوں پر اسلام پسند انتہا پسندوں کا غلبہ ہونے دیا جا رہا ہے۔‘‘ 22؍ فروری کو وزیر اعظم رشی سوناک نے شعلوں کو مزید ہوا دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں انتہا پسندوں کو کبھی بھی پارلیمنٹ کے کام کرنے کا طریقہ تبدیل کرنے کے لیے اجازت نہیں دینی چاہیے۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 مارچ تا 23 مارچ 2024