سرکاری بینکوں کی نجکاری کے خلاف بینک ملازمین کی ہڑتال لگاتار دوسری دن بھی جاری، کسانوں کی طرح طویل احتجاج کرنے کا انتباہ دیا

نئی دہلی، مارچ 16: سرکاری شعبے کے بینکوں کی نجکاری کے اقدام کے خلاف ملک گیر ہڑتال آج لگاتار دوسرے روز بھی جاری ہے۔

یہ ہڑتال یونائیٹڈ فورم آف بینک یونینز نے طلب کی ہے، جو نو بینک یونینوں کی مشترکہ تنظیم ہے۔ اس سے بینکوں کے باقاعدہ کاموں میں چار دن کا وقفہ ہوجائے گا کیوں کہ بینک ہفتہ اور اتوار کو پہلے ہی بند تھے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق یونینوں نے خبردار کیا ہے کہ وہ کسانوں کے احتجاج کی طرح طویل عرصے تک اس احتجاج کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ واضح رہے کہ دسمبر سے ہزاروں کسانوں نے دہلی کے باہر ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ان کا احتجاج لگاتار تین مہینے سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔

پی ٹی آئی کے مطابق پیر کو سرکاری شعبہ کے بینکوں میں نقد رقم کی واپسی، جمع، چیک کلیئرنس اور ترسیلات جیسی بینکاری خدمات متاثر ہوئیں۔ یونین رہنماؤں نے دعوی کیا کہ 10 لاکھ کے قریب بینک ملازمین اس ہڑتال میں شامل ہوئے ہیں۔

آل انڈیا بینک ایمپلائز ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری سی ایچ وینکٹاچلام نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ تمام مراکز میں بینکاری کاموں کو مفلوج کردیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’’چیک کلیئر نہیں ہوسکتا ہے کیوں کہ شاخیں کلیئرنس کے لیے چیک قبول نہیں کررہی ہیں کیوں کہ شاخیں بند ہیں۔‘‘

بینک یونینوں کے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق تین بڑے شہروں چنئی، ممبئی اور دہلی میں 16،500 کروڑ روپیے کے کل 2.01 کروڑ چیک انوائسز پر کارروائی نہیں ہوسکی ہے۔

بینک کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پیر کی ہڑتال میں اسکیل I ، II اور III بینک ملازمین کی 100 فیصد شرکت ہوئی ہے۔

نجی بینکوں جیسے ایچ ڈی ایف سی بینک، آئی سی آئی سی آئی بینک، کوٹک مہندرا بینک، ایکسس بینک اور انڈس انڈ بینک پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انھوں نے معمول کے مطابق اپنی کارروائی جاری رکھی۔ تاہم یہ ملک میں بینکاری خدمات کا صرف ایک تہائی حصہ ہے۔

آل انڈیا بینک آفیسرز ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری سومیا دتہ نے کہا کہ نریندر مودی حکومت کی پالیسیاں معیشت پر منفی اثر ڈالیں گی۔

دتہ نے کہا کہ ’’اگر حکومت ان کی بات نہیں مانتی ہے تو وہ کسانوں کے احتجاج کی طرح اس سے بھی بڑی غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال کریں گے۔ ہم اپنی شاخوں کے ذریعہ کروڑوں کی آبادی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، ہم اپنے صارفین کو حکومت کی ناقص پالیسیوں اور اس سے ان پر اثر انداز ہونے کے طریقوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔‘‘

معلوم ہو کہ یکم فروری کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے حکومت کی جانب سے 1.75 لاکھ کروڑ روپیے کی تعمیر نو منصوبے کے حصے کے طور پر IDBI بینک کے علاوہ دو سرکاری شعبہ کے بینکوں کی نجکاری کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان نے ہی اس احتجاج کو جنم دیا ہے۔

اگرچہ سیتارمن نے نجکاری کے لیے چنے گئے ناموں کا ذکر نہیں کیا، لیکن ریوٹرز نے 15 فروری کو اطلاع دی کہ اس میں بینک آف مہاراشٹرا، بینک آف انڈیا، انڈین اوورسیز بینک اور سنٹرل بینک آف انڈیا شامل ہیں۔

بینک ملازمین نجکاری کے اس اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں کیوں کہ اس سے ان کی ملازمتوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ بینک یونینوں کے تخمینے کے مطابق بینک آف انڈیا میں 50،000 کے قریب ملازمین کام کرتے ہیں، سنٹرل بینک آف انڈیا میں 33،000 کا عملہ ہے، انڈین اوورسیز بینک میں 26،000 ملازمین ہیں، جب کہ بینک آف مہاراشٹر میں 13،000 کے قریب ملازمین ہیں۔