بدعنوان تاجروں کے 10 لاکھ کروڑ کے قرضوں کو ’’مفت کی ریوڑی‘‘ کی طرح معاف کر دیا گیا: ورون گاندھی کا مودی پر طنز

نئی دہلی، اگست 6: بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ورون گاندھی نے ہفتہ کے روز وزیر اعظم نریندر مودی کے ’’مفت کی ریوڑی‘‘ والے تبصرے پر تنقید کی او دعوی کیا کہ پچھلے پانچ سالوں میں بدعنوان تاجروں کے تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے کے قرضے معاف کیے گئے ہیں۔

مودی نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں کا ووٹروں کو مفت خدمات دینے کا اعلان کرنا ملک کی ترقی اور بہبود کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق انھوں نے اتر پردیش میں ایک ریلی میں کہا تھا ’’ریوڑی کلچر کو فروغ دینے والے محسوس کرتے ہیں کہ لوگوں میں مفت ریوڑی تقسیم کرکے وہ انھیں خرید سکتے ہیں۔ ہمیں مل کر اس سوچ کو شکست دینے کی ضرورت ہے۔ ملک کی سیاست سے ریوڑی کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

ہفتہ کے روز ورون گاندھی نے ایسے قرضوں کی ایک فہرست ٹویٹ کی، جو مالی سال 2017-18 کے بعد سے معاف کردیے گئے ہیں۔ یہ فہرست 2 اگست کو وزیر مملکت برائے خزانہ بھاگوت کراڈ کے راجیہ سبھا میں دیے گئے جواب کی بنیاد پر جمع کی گئی تھی۔

وزیر نے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ملیکارجن کھرگے کے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ہندوستان میں بینکوں نے مالی سال 2017-18 اور 2021-22 کے درمیان خراب قرضوں کے طور پر 9,91,640 کروڑ روپے معاف کردیے ہیں۔

گاندھی نے وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں لکھا ’’میہول چوکسی اور رشی اگروال (بزنس مین) ان لوگوں کی فہرست میں سرفہرست ہیں جنھوں نے ’مفت کی ریوڑی‘ لی ہے۔ حکومت کے اثاثوں پر پہلا دعویٰ کس کا ہے؟‘‘

مودی کے یہ کہنے کے فوراً بعد کہ ’’ریوڑی کلچر‘‘ کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے تبصرہ کیا تھا کہ شہریوں کو مفت پانی، بجلی اور صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کو ایسا نہیں کہا جانا چاہیے۔

سیاسی مبصرین نے نوٹ کیا ہے کہ وزیر اعظم کے تبصرے میں عام آدمی پارٹی جیسے حریفوں پر نشانہ بنایا گیا تھا، جنھوں نے سرکاری سبسڈی سے مالی امداد سے چلنے والی فلاحی اسکیموں کے ذریعے اپنی حکومت کی بنیاد بنائی ہے۔

اس دوران چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس کرشنا مراری اور ہیما کوہلی پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ بھی اس معاملے پر ایک عرضی کی سماعت کر رہی ہے۔ ایڈوکیٹ اور بی جے پی لیڈر اشونی کمار اپادھیائے نے ووٹروں کو مفت خدمات کا لالچ دینے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کی ہدایت مانگی ہے۔

3 اگست کو اس معاملے کی سماعت کے دوران مرکز نے عدالت کو بتایا کہ ووٹروں کو مفت خدمات دینے سے ملک کی معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ یہ اس وقت ہوا جب عدالت نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ وہ اس معاملے پر موقف لینے سے کیوں ہچکچا رہی ہے۔

اس معاملے کی پچھلی سماعت میں عدالت نے تجویز پیش کی تھی کہ مختلف اسٹیک ہولڈرز جیسے حکومت، نیتی آیوگ، فائنانس کمیشن، لاء کمیشن، ریزرو بینک آف انڈیا اور اپوزیشن کے اراکین پر مشتمل ایک ماہر ادارہ تشکیل دیا جائے، جو اس معاملے پر اپنی تجاویز دیں۔

درخواست پر دوبارہ سماعت 8 اگست کو ہوگی۔