آسام: کم عمری میں شادی کے خلاف کریک ڈاؤن کی مخالفت میں خواتین کا احتجاج، وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ مہم 2026 تک جاری رہے گی
نئی دہلی، فروری 5: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق ہفتہ کے روز آسام بھر میں سینکڑوں خواتین نے ریاستی حکومت کے کم عمری کی شادی کے خلاف کریک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج کیا۔
23 جنوری کو وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے اعلان کیا تھا کہ آسام حکومت بچوں کی شادی کے خلاف ریاست گیر مہم شروع کرے گی اور 14 سال سے کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنے والے مردوں کے خلاف پوکسو اور 14 سے 18 سال کی عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنے والوں کے خلاف پروہیبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرے گی۔
ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق ہفتہ کو وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ریاست میں بچوں کی شادی سے متعلق کل 4,074 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ دولہے کے والدین اور مذہبی پیشواؤں سمیت 8,134 افراد کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق بسوناتھ، دھوبری، بارپیٹا، کوکراجھار اور ہوجائی میں سب سے زیادہ گرفتاریاں کی گئیں۔
دھوبری، موریگاؤں، جنوبی-سالمارا مانکاچار کے اضلاع میں خواتین نے ریاستی حکومت کی کارروائی کے خلاف پولیس اسٹیشنوں پر احتجاج کیا۔ زیادہ تر احتجاج کرنے والی خواتین مالی امداد کے لیے اپنے شوہروں پر منحصر ہیں۔
پولیس نے دھوبری کے تمرہاٹ تھانے میں مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور انھیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق تین ماہ کے بچے کے ساتھ ایک خاتون نے کہا ’’میں پریشان ہوں کہ میں اپنے بچے کی دیکھ بھال کیسے کروں گی۔ میرے شوہر ایک کھیت مزدور کے طور پر کام کرتے تھے۔ میں شادی کے لیے گھر سے بھاگی تھی اس لیے میرے پاس کوئی اور سہارا نہیں ہے۔ ابھی میرے پاس ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔‘‘
دھوبری کے گولک گنج تھانے میں ایک 23 سالہ خاتون نے اپنے شوہر کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا اور دھمکی دی کہ اگر اسے اور اس کے والد کو رہا نہ کیا گیا تو وہ خود کشی کر لے گی۔
تاہم سرما نے کہا کہ بچوں کی شادی کے خلاف کریک ڈاؤن 2026 تک جاری رہے گا، جب آسام میں اگلے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی لیڈر نے کہا ’’ان معاملات میں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔۔۔۔ مستقبل میں لاکھوں لڑکیوں کو اس صورت حال سے بچانے کے لیے ایک نسل کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘‘
سرما نے مزید کہا کہ آسام میں کم عمری کی شادی کو روکنا ہوگا۔ انھوں نے کہا ’’میں نے ضلعی کلکٹروں سے کہا ہے کہ اگر کسی کو اس وجہ سے مالی پریشانی ہے کیوں کہ ان کے شوہر جیل میں ہیں، تو حکومت اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔‘‘
وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ گذشتہ 48 گھنٹوں میں بڑی تعداد میں گرفتاریوں نے یہ شعور پیدا کیا ہے کہ کم عمری کی شادی غیر قانونی ہے اور مختلف تنظیموں نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔
لیکن ریاست میں اپوزیشن لیڈروں نے اس مہم پر سوال اٹھایا ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گورو گوگوئی نے اس کارروائی کو بی جے پی حکومت کی طرف سے تعلقات عامہ کی مشق قرار دیا۔
گوگوئی نے ٹویٹر پر لکھا ’’آسام میں لوگوں نے کم عمری کی شادی پر کریک ڈاؤن کرنے کے وزیر اعلی ہمانتا بسوا سرما کی پہل کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس کو ایسے معاملات کی تفتیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے جو دہائیوں پرانے ہیں۔‘‘
آسام ترنمول کانگریس یونٹ کے صدر رپن بورا نے ریاستی حکومت پر چائلڈ میرج ایکٹ کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
بورا نے ٹویٹ کیا ’’کسی مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے انتخاب کی پالیسی نہیں ہونی چاہیے۔ مانکاچار میں، اپنے والدین کے جیل جانے کے خوف سے، ایک لڑکی نے خودکشی کر لی ہے۔ یہ سنکی کریک ڈاؤن کا اثر ہے۔‘‘
تاہم پولیس نے اس بات کی تردید کی کہ لڑکی کی موت حکومت کی کم عمری کی شادی کے خلاف مہم کی وجہ سے ہوئی ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ ’’اس نے اپنے خاندان سے متعلق دیگر مسائل کی وجہ سے ایسا کیا ہوگا۔ ہم اس معاملے کی مزید تفتیش کریں گے۔‘‘