آسام-میگھالیہ سرحدی تشدد: مظاہرین نے امت شاہ، کونراڈ سنگما کے پتلے جلائے
نئی دہلی، نومبر 27: شیلانگ میں کئی سماجی تنظیموں کے ارکان نے ہفتہ کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونراڈ کے سنگما، ریاست کے وزیر داخلہ لہکمن ریمبوئی اور دیگر کے پتلے جلائے اور اس ہفتے کے شروع میں آسام پولیس کی فائرنگ کے خلاف احتجاج کیا جس کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔
گروپس نے ابتدائی طور پر شیلانگ میں وزیر اعلیٰ کے بنگلے کے دروازے پر پتلے جلانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پولیس نے انھیں قریبی علاقے میں منتقل کر دیا تھا۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق اس احتجاج کا اہتمام سیو ہینی وٹریپ مشن نے کیا تھا، جس میں ہینی وٹریپ یوتھ کونسل، ایسٹ جینتیا نیشنل کونسل، جینتیا اسٹوڈنٹس موومنٹ، ہینی وٹریپ اچک نیشنل موومنٹ اور کنفیڈریشن آف ری بھوئی پیپل شامل ہیں۔
منگل کے روز مکروہ گاؤں میں پولیس کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں میں سے پانچ میگھالیہ کے رہائشی تھے، جب کہ ایک آسام فاریسٹ گارڈ کا اہلکار تھا، سنگما نے دعویٰ کیا تھا، اور یہ گاؤں ان کی ریاست کا حصہ تھا۔ تاہم آسام حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ صرف چار افراد ہلاک ہوئے ہیں اور یہ گاؤں اس کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔
دونوں ریاستوں کے درمیان علاقائی تنازعات اس وقت شروع ہوئے تھے جب 21 جنوری 1972 کو آسام تنظیم نو قانون 1971 کے تحت میگھالیہ کو آسام سے الگ کر دیا گیا تھا۔ میگھالیہ کی جانب سے اس قانون کو چیلنج کرنے کے بعد تنازعات پیدا ہوئے۔
ہفتہ کو ہینی وٹریپ یوتھ کونسل کے جنرل سکریٹری رائے کوپر سنریم نے کہا کہ فائرنگ کا واقعہ بین ریاستی سرحدی تنازعہ کو حل کرنے میں مرکزی، آسام اور میگھالیہ حکومتوں کی بے حسی کا نتیجہ ہے۔
نارتھ ایسٹ ناؤ کے مطابق سنریم نے کہا ’’فائرنگ کا واقعہ سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے تینوں حکومتوں کی جانب سے سنجیدگی کے فقدان کی وجہ سے پیش آیا۔‘‘
دریں اثنا آسام-میگھالیہ سرحد کے ساتھ واقع مُکروہ گاؤں میں امتناعی احکامات نافذ رہے۔
جمعہ کے روز آسام پولیس نے شہریوں کو میگھالیہ کا سفر نہ کرنے کے اپنے مشورے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ریاست میں صورت حال ’’اب بھی بہت اچھی نہیں ہے۔‘‘