آسام: ’مسمار کیے گئے مدارس القاعدہ کے دفاتر تھے‘، وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کا دعویٰ
نئی دہلی، ستمبر 8: آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما نے بدھ کے روز دعویٰ کیا کہ ریاست میں حال ہی میں جن مدارس کو مسمار کیا گیا ہے وہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے دفاتر تھے۔
وزیرِ اعلیٰ نے یہ بیان گولپارہ ضلع کے مکینوں کے ذریعے ایک مدرسے کو منہدم کرنے کے ایک دن بعد دیا جب اس سے وابستہ ایک عالم کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جہاں مکینوں نے گولاپارہ میں مدرسہ کو مسمار کر دیا، وہیں آسام حکومت نے ایک ماہ کے دوران ایسے تین دیگر اداروں کو منہدم کر دیا ہے، جب سے پولیس نے انصار اللہ بنگلہ ٹیم کے مبینہ ماڈیولز کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں جو کہ بنگلہ دیش میں قائم ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ کی شاخ ہے۔
اس سے قبل گذشتہ ماہ سرما نے کہا تھا کہ ان اداروں کو دہشت گردی کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
سرما نے بدھ کو دعویٰ کیا کہ ’’تمام مسمار کیے گئے مدارس، مدارس نہیں بلکہ القاعدہ کے دفاتر تھے۔ ہم نے دو تین کو گرایا اور اب عوام دوسروں کو گرانے آرہی ہے۔ مسلم کمیونٹی کے لوگ بھی یہ کہہ کر انھیں منہدم کرنے آ رہے ہیں کہ وہ ایسا مدرسہ نہیں چاہتے جہاں القاعدہ کا کام ہو۔‘‘
3 ستمبر کو پولیس نے گولپارہ ضلع میں AQIS اور انصار اللہ بنگلہ ٹیم کے ارکان ہونے کے شبہ میں دو افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان کی شناخت عبدالسبحان اور جلال الدین شیخ کے طور پر کی گئی ہے جو گولپارہ میں دو مختلف مدارس کے امام ہیں۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وی وی راکیش ریڈی نے اے این آئی کو بتایا کہ رہائشیوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ گرفتار کیے گئے افراد میں سے ایک مدرسہ کا استاد تھا۔
انھوں نے کہا کہ لوگوں نے ایک مضبوط پیغام دیا ہے کہ وہ جہادی سرگرمیوں کی حمایت نہیں کرتے۔
3 ستمبر کو گرفتاری کے بعد ریڈی نے کہا تھا کہ اہلکاروں کو ان دونوں مولویوں کے گھروں سے القاعدہ، جہادی عناصر، پوسٹر اور کتابوں سے متعلق اشتعال انگیز مواد ملا ہے۔
ریڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ سبحان اور شیخ نے اے کیو آئی ایس کے رکن ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ریڈی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دونوں اماموں نے دو دہشت گردوں کو پناہ دی تھی، جو مفرور ہیں۔