مسلمان ہونے کی وجہ سے مقامی رکن اسمبلی کا متعصابہ رویہ : یہ کہانی شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی سے آگے کی ہے

آپ اپنی ہی ریاست کے کسی دوسرے ضلع سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر آپ کا انتخابی حلقہ کوئی اور ہے، تو ہوسکتا ہے کہ اس علاقے کا رکن اسمبلی آپ کو اس حلقے میں رہنے نہ دے۔

دعوت نیوز ڈیسک

یہ کہانی شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی سے آگے کا ہے۔ اگر آپ مسلم ہیں، آپ کی شہریت مسلمہ ہے، لیکن آپ اپنی ہی ریاست کے کسی دوسرے ضلع سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر آپ کا انتخابی حلقہ کوئی اور ہے، تو ہوسکتا ہے کہ اس علاقے کا رکن اسمبلی آپ کو اس حلقے میں رہنے نہ دے۔ جی ہاں، ایسا ہی ایک واقعہ آسام کے سونت پور ضلع میں دیکھنے کو ملا ہے۔

 اس  ضلع کےسوتیا حلقہ انتخاب سے 426 خاندانوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ ان کے گھروں سے محض اس لیے نکال دیا گیا کیونکہ یہ اس انتخابی حلقے کے رائے دہندگان نہیں تھے۔ ان تمام خاندانوں کے گھروں کو مکمل طور پر نیست و نابود کرکے ان خاندانوں کو کیمپوں میں منتقل کردیا گیا، جہاں یہ غریب شدید سردی کے موسم میں کھلے آسمان تلے وقت گزارنے کو مجبور ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تمام خاندان یہاں تقریباً تیس چالیس برسوں سے رہتے آرہے تھے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ انھوں نے اپنا ووٹر کارڈ اپنے پرانے انتخابی حلقے سے منتقل نہیں کرایا تھا۔ اس ’جرم‘ کی پاداش میں یہاں کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا نے انہیں نوٹس بھیجا، اور اعلان کیا کہ اس کے انتخابی حلقے میں صرف وہی لوگ رہیں گے، جن کے ووٹ اس کے حلقے میں ہوں گے۔ دیگر مقامات کے لوگوں کو رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پدما ہزاریکا سوتیا حلقہ انتخاب سے رکن اسمبلی ہیں۔ پہلے ان کا تعلق آسام گن پریشد سے تھا، لیکن اب بھارتیہ جنتا پارٹی میں ہیں۔

پدما ہزاریکا کے بقول ’’یہ لوگ درانداز ہیں۔ بنگلہ دیشی ہیں۔ یہ جہاں چاہے رہیں، لیکن میں انہیں اپنے ضلعے میں رہنے نہیں دوں گا۔‘‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان خاندانوں کے پاس تمام کاغذات موجود ہیں۔ این آر سی کی حتمی فہرست میں بھی ان خاندانوں کا نام آچکا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری جناب محمد احمد نے اس معاملے کی اطلاع ملنے  پر ، 22دسمبر کو آسام کے ان علاقوں کا دورہ کیا، اور نکالے گئے سبھی خاندانوں سے ملاقات کی۔ ان کے ساتھ جماعت اسلامی اپر آسام ڈویژن کے اشفاق اللہ حسین اور بذل الباسط چودھری بھی موجود تھے۔

جماعت کی ٹیم نے دوکیمپوں 4 نمبرسیرونی چپوری اور ماکوا چپوری کا دورہ کیا اور گھروں سے نکالے گئے خاندانوں سے بات چیت کی۔ انھوں نے متاثرین کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ۔ ٹیم کو معلوم ہوا کہ ان کیمپوں میں رہنے والے خاندانوں کے پاس نہ کھانے کے لیے مناسب غذا ہے، اور نہ شدید سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑوں کا انتظام ہے۔ گذشتہ کئی دنوں سے انٹرنیٹ خدمات بند ہونے کی وجہ سے یہاں کے حالات کے بارے میں باہر کے لوگوں کو کچھ بھی پتہ نہیں۔ یہاں تک کہ میڈیا والے بھی اس خبر کو عوام تک پہنچانے سے قاصر رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کی ٹیم نے ان علاقوں کا بھی دورہ کیا جہاں متاثرہ خاندان کے گھر تھے جنہیں منہدم کردیا گیا ہے۔ ٹیم نے متاثرین کے تعلق سے اہم معلومات بھی حاصل کیں، جس سے پتہ چلا کہ یہ لوگ آسام ہی کے شہری ہیں اور ان کے نام بھی این آر سی میں شامل ہیں۔ متاثرین نے  بتایا کہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ متعصابہ رویہ اپنایا جا رہا ہے، اور انھیں ہر طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری جناب محمد احمد نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کہا کہ انھوں نے اس سلسلے میں رکن اسمبلی پدما ہزاریکا سے بھی ملاقات کی۔ ’’ان کا صاف طور پر کہنا تھا کہ یہ ہمارے لوگ نہیں ہیں۔ ہمیں ان سے کوئی مطلب نہیں ہے۔  اس سے آگے وہ ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔‘‘

جناب محمد احمد نے مزید کہا ’’کیمپوں میں پناہ گزین ان لوگوں کو ہر طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس ظلم کے خلاف اگر عدالت بھی جانا پڑے تو ہم جائیں گے، کیونکہ ملک کا شہری کہیں بھی کسی بھی ضلعے میں جاکر زندگی بسر کر سکتا ہے۔‘‘

بذل الباسط چودھری نے بتایا ’’اس ضلع میں اب تک 200 سے زائد خاندانوں کو بے گھر کیا جا چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب گجرات کا آدمی دہلی یا کشمیر میں زمین خرید کر رہ سکتا ہے تو آسام کے شہری آسام کے کسی دوسرے ضلع یا انتخابی حلقہ میں کیوں نہیں رہ سکتے؟‘‘

جماعت کی ٹیم نے دورے کے بعد بعض اہم تجاویز پیش کی ہیں، جن پر جلد سے جلد عمل آوری کی بات کہی گئی ہے۔ ٹیم  کے بقول متاثرین کےلیے فوری طور پر غذا، کپڑا اوررہنے کا مناسب انتظام ضروری ہے، کیونکہ یہ لوگ سردی کے موسم میں کھلے آسمان کے نیچے رہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ متاثرین کو قانونی مدد فراہم کرنے اور ان کی بازآبادکاری کےلیے فوری اقدامات پر بھی زور دیا گیا ہے، تاکہ تقریباً 1800 متاثرین کو ان صبرآزما حالات سے باہر نکالا جاسکے۔