آسام: ’’غیر ملکی قرار دیے گئے‘‘ تمام افراد کو ریاست کے سب سے بڑے حراستی مرکز میں منتقل کیا گیا

نئی دہلی، مارچ 13: پیر کو آسام میں غیر ملکی قرار دیے گئے تمام افراد کو گولپارہ ضلع کے ماٹیا ٹرانزٹ کیمپ میں منتقل کر دیا گیا، جو ریاست کا سب سے بڑا حراستی مرکز ہے۔

ماٹیا حراستی مرکز کا استعمال غیر ملکیوں کے طور پر شناخت شدہ اور ملک بدری یا وطن واپسی کے منتظر افراد یا ایسے افراد کو رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے جو اپنی شہریت کے دعووں کے تصفیہ ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ گرفتار شدگان میں سے بہت سے ہندوستانی شہری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جنھیں آسام میں موجود غیر ملکیوں کا پتہ لگانے کے طریقۂ کار کے ذریعہ مشتبہ کے طور پر رکھا گیا ہے یا وہ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے مناسب دستاویزات پیش نہیں کر سکے ہیں۔

ریاستی حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق حراستی مراکز کو اب ٹرانزٹ کیمپ کہا جاتا ہے۔

آسام کے جیل خانہ جات کے انسپکٹر جنرل پبلی گوہین نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ سلچر حراستی مرکز سے 87 نظربندوں کی آخری کھیپ کو ماٹیا ٹرانزٹ کیمپ لے جایا گیا ہے۔ گوہین نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی منتقلی کا تمام عمل مکمل ہو گیا ہے اور آسام میں چھ حراستی مراکز اب بند ہو جائیں گے۔

بند ہونے والے چھ حراستی مراکز گولپارہ، کوکراجھار، تیز پور، جورہاٹ، ڈبرو گڑھ اور سلچر کی ضلعی جیلوں کے اندر واقع تھے۔

غیر ملکی قرار دیے گئے ان لوگوں کو منتقل کرنے کا عمل 27 جنوری کو گولپارہ حراستی مرکز سے 68 نظربندوں کی منتقلی کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ گولپارہ کے ڈپٹی کمشنر کھنندرا چودھری نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ نئے ماٹیا ٹرانزٹ کیمپ میں 217 غیر ملکی قرار دیے افراد بھیجے گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’’یہ اعداد و شمار عدالتی فیصلوں اور غیر ملکیوں کی ملک بدری کے ساتھ اکثر بدلتے رہتے ہیں۔ صرف تین دن پہلے ماٹیا کیمپ سے تین بنگلہ دیشیوں کو ان کے ملک واپس بھیجا گیا ہے۔‘‘

2014 میں مرکز نے آسام حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ ’’غیر ملکی قرار دیے گئے‘‘ افراد کے لیے کم از کم ایک خصوصی حراستی مرکز قائم کرے تاکہ انھیں جیلوں میں قیدیوں اور زیر سماعت ملزموں کے ساتھ نہ رکھا جائے۔

اس کے بعد آسام حکومت نے ایسے لوگوں کی زیادہ تعداد کو دیکھتے ہوئے کم از کم 10 ایسے مراکز تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جو شہریوں کے قومی رجسٹر سے باہر رہ گئے تھے۔ مجوزہ 10 کیمپوں میں ماٹیا حراستی مرکز پہلا تھا۔

اگست 2019 میں آسام نے شہریوں کا ایک قومی رجسٹر شائع کیا تھا جس کا مقصد ریاست میں رہنے والے غیر دستاویزی تارکین وطن سے ہندوستانی شہریوں کو الگ کرنا تھا۔ اس رجسٹر میں 19 لاکھ سے زیادہ لوگوں یعنی ریاست کی تقریباً 6 فیصد آبادی کو حتمی شہریوں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔

تاہم ریاستی حکومت نے شہریوں کے قومی رجسٹر کے حتمی مسودے کو ’’غلط‘‘ قرار دیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ اس میں آسام کے سینکڑوں مقامی باشندوں کو خارج کر دیا گیا ہے۔