’’ڈرنے والوں کو کامیابی نہیں ملتی، حق کے لیے ڈٹ جائیں‘‘ — آصف اقبال تنہا
ضمانت پر رہا آصف اقبال تنہا سے ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت
افروز عالم ساحل
قریب 400 دن جیل کی تنہائی میں وقت گزارنے کے بعد آصف اقبال تنہا اب سلاخوں کے باہر ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں جیل کی پہلی رات کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ وہ اپنے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلی رات میرے ساتھ تشدد زیادہ ہوا تھا۔ جیل کے اندر مجھے فسادی، جہادی، دیش دروہی، دہشت گرد اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہوئے پیڑ سے باندھ کر مارا گیا تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا اور اتفاق سے شب قدر کی رات تھی۔ میری آزمائش کی رات تھی۔ میں نے سحری کے لیے کھانا مانگا تو دینے سے انکار کر دیا گیا۔ مجھے تکلیف بھی تھی، نیند بھی نہیں آرہی تھی، پوری رات ذکر الٰہی میں گزاری۔
آپ نے کبھی سوچا تھا کہ کبھی ایسا دن بھی آئے گا کہ میں جیل جاؤں گا؟ اس سوال پر آصف تنہا کہتے ہیں کہ ’جب میں نے جامعہ میں ایکٹیوزم شروع کیا، ہر طلبہ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا۔ تب بھی میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ کبھی اس ایکٹیوزم کی بنا پر مجھے جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ جب جامعہ میں سی اے اے اور این آر سی مخالف تحریک کی شروعات ہوئی، ابتدائی 15 دنوں میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ پولیس اس مہم کو کچلنے کے ہمیں جیل میں ڈال سکتی ہے۔‘
یعنی آپ ذہنی طور پر تیار تھے؟ ’بالکل میں جیل کو مدرسہ سمجھ رہا تھا اور پھر یہ بات بھی ذہن میں تھی کہ ہمارے علماء بھی اسلام کے لیے جیل گئے تھے۔ ملک کو آزاد کرانے والے ہمارے قومی رہنما بھی جیل گئے تھے۔۔۔‘
ہفت روزہ دعوت نے آصف تنہا کی امّی جہاں آرا سے بھی خاص بات چیت کی۔ وہ اپنے بیٹے کی رہائی کی خبر سن کر دہلی آگئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’اس دن میں ظہر کی نماز ادا کر رہی تھی۔ جیسے ہی نماز پڑھ کر اٹھی، مجھے پتہ چلا کہ آصف کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے اور وہ اب جیل میں ہے۔ مجھے تو ایک جھٹکا سا لگا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا۔ میرے بچے نے ایسا کیا کر دیا کہ اسے جیل جانا پڑ گیا؟ گھر میں آصف کے ابو دل کے مریض ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی ان کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ مجھے انہیں بھی سنبھالنا تھا۔ مجھے لگا کہ مجھے پریشان دیکھ کر وہ مزید پریشان ہوں گے۔ میں نے اپنی پریشانی کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔ انہیں نیند کی دوا دے کر سلانا پڑا لیکن اگلے دن انہوں نے بھی ہمت دکھائی، انہوں نے مجھے بھی حوصلہ دیا کہ گھبراؤ نہیں، آصف جلد ہی آجائے گا۔ وہ جانتے تھے کہ میرے بچے نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود میں پریشان ہی رہتی تھی۔ لگتا تھا کہ میرا کچھ کھو سا گیا ہے۔ میں اپنے بچے سے ایک دن بھی بات کیے بغیر، اس کی خیریت جانے بغیر چین کی نیند نہیں سوتی تھی، اس سے میری تین چار مہینوں تک کوئی بات نہیں ہوئی۔
آپ کے پڑوسی اور رشتہ داروں کا کیا رویہ تھا؟ اس پر آصف کی ماں کہتی ہیں، وہ بھی فخر کر رہے تھے کہ میرا بچہ لوگوں کی حق کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ ان کے حق کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ ملک کے آئین کو بچانے کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ تمام لوگوں کا تاثر اچھا تھا۔ ان لوگوں نے ہمیں کافی سمجھایا اور ہر وقت حوصلہ دینے کا کام کیا۔ ان سب کی دعاؤں کا اثر ہے کہ آج میرا بچہ میرے پاس ہے۔
آصف اقبال تنہا ہفت روزہ دعوت کے ساتھ ایک طویل گفتگو میں بتاتے ہیں کہ ’پہلی بار مجھے تہاڑ کی دو نمبر جیل میں رکھا گیا، جہاں مجھے 14دن کورنٹائن میں رہنا پڑا۔ اسے مکمل کرنے کے بعد مجھے چار نمبر جیل میں شفٹ کیا گیا، وہاں ایک الگ ہی دنیا تھی۔‘
الگ دنیا سے آپ کی مراد؟ ’وہاں ہم ایک دوسرے سے بات کرسکتے تھے مل سکتے تھے جبکہ دو نمبر جیل میں ایسا نہیں تھا۔ مجھے ایک چھوٹی سی اندھیری کوٹھری میں اکیلے ہی رکھا گیا تھا، جہاں مجھ سے کوئی مل نہیں سکتا تھا۔ میرے سیل کا تالا ہمیشہ بند رہتا تھا۔ تب مجھے وہی جیل لگی تھی، اور میں یہ سوچ کر پریشان رہتا تھا کہ میں یہاں کیسے رہ پاؤں گا اور کب تک مجھے یہاں رہنا پڑے گا؟ 14 دن بالکل تنہا رہا۔۔۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ چار نمبر جیل میں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں قیدی باجماعت نماز ادا کر رہے ہیں۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ میں نے بھی ان کے ساتھ با جماعت نمازیں ادا کیں۔ اس وقت میں نے انہیں نہیں بتایا کہ میں عالم ہوں۔ لیکن اگلے دن نماز پڑھانے والے سے کہا کہ آج میں نماز پڑھانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا، بالکل! کوئی بھی نماز پڑھا سکتا ہے۔ جب میں نے امامت شروع کی، میری آواز، میری قرات سن کر سب کافی خوش ہو گئے۔ اب یہاں میں ہی نماز پڑھانے لگا۔
یہ پوچھنے پر کہ جیل میں کیا ان لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی جو سی اے اے تحریک کے بعد جیل گئے ہیں۔ اس پر آصف نے بتایا کہ جیل میں لوگوں کو نام کے پہلے حروف کے لحاظ سے رکھا جاتا ہے۔ میرے ساتھ جیل میں اطہر خان تھے، ان پر بھی وہی الزام ہیں، جو مجھ پر ہیں۔ جیل میں وحدت اسلامی کے عبداللہ دانش سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان سے ان کے معاملے کو بخوبی سمجھا۔ سچ پوچھیے تو یو اے پی اے اور اس طرح کے دیگر قوانین کو میں وہیں سمجھا۔ مجھے وہیں مجھے معلوم ہوا کہ یو اے پی اے انسداد ہشت گردی قانون ہے، ایسا کوئی کام جو ملک مخالف ہو، ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے ہو۔ لیکن میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ آزادی اظہار رائے یا کسی قانون کو لے کر مخالفت کرنا ملک کو نقصان پہنچانا کیسے ہو گیا؟ آئین ہمیں مخالفت کرنے کا حق دیتا ہے پھر کوئی ان چیزوں کو دہشت گردی کے زمرہ میں کیسے رکھ سکتا ہے؟
وہ مزید کہتے ہیں کہ میرے لیے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ قانون کی باریکیاں مجھے جیل میں ہی سمجھ میں آئیں۔ اور ساتھ میں یہ بھی سمجھ میں آیا کہ ہماری حکومت اور پولیس یا انتظامیہ قانون کا غلط استعمال کیسے کر رہی ہیں۔ مجھے جیل میں ہی سمجھ آیا کہ دفعہ 376 کا کتنا غلط استعمال ہورہا ہے۔ مجھے جیل میں کئی افراد ملے جو دفعہ 376 یا اس طرح کی دیگر دفعات کی وجہ سے سزا کاٹ رہے ہیں۔ میں مستقبل میں اس طرح کی دفعات کے غلط استعمال پر کام کرنا چاہوں گا کہ کیسے لڑکیاں غلط طریقے سے پھنسا دیتی ہیں۔
کہیں آپ نے یہ ارادہ تو نہیں کرلیا ہے کہ اب شادی نہیں کروں گا؟ اس پر آصف زور سے ہنس پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا کوئی ارادہ فی الحال نہیں ہے۔ نکاح سنت ہے اور وقت آنے پر یہ سنت ضرور ادا کی جائے گی۔
آصف اقبال تنہا کا تعلق جھارکھنڈ کے ضلع رام گڑہ کے گاؤں جئے نگر سے ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں وہیں ہوئی۔ وہ یہاں مدرسہ جامعہ اشرفیہ کے طالب علم رہے۔ ان کے مطابق جھارکھنڈ کے ہزاری باغ علاقے میں ان کے نانا لڑکیوں کا مدرسہ چلاتے ہیں۔ جب ان کی نانی کا انتقال ہوگیا تو نانا نے ان کی امی سے کہا کہ وہ آکر مدرسہ (یتیم خانہ) سنبھال لیں۔ پھر وہ سب وہاں منتقل ہوگئے۔ وہاں ان کا داخلہ سینٹ اوگسٹین اسکول میں ہوا۔
آصف آگے بتاتے ہیں کہ پانچویں تک کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد جامعة الفلاح کے جامعہ مصباح العلوم میں ان کا داخلہ ہوا۔ اس طرح پھر سے ان کی مدرسے کی تعلیم شروع ہوئی۔ کچھ سال جامعتہ الفلاح میں بھی رہے اور عالمیت کی ڈگری حاصل کی۔ آصف کے مطابق وہ سال 2015میں عالمیت کے آخری سال کا امتحان دے رہے تھے، اسی درمیان انہوں نے دہلی آ کر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں عربک و اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ میں داخلہ کے لیے ٹیسٹ دیا اور واپس مدرسہ پہنچے۔ انہوں نے بتا یا کہ عالمیت کی ڈگری حاصل کرکے وہ دوبارہ دہلی آ گئے۔
گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے آصف بتاتے ہیں ’’اس سال جامعہ میں میرا داخلہ نہیں ہو سکا۔ دہلی میں رہنے کا خرچ نکالنے کے لیے میں نے کال سنٹر میں نوکری شروع کی۔ پھر سے جامعہ میں داخلہ فارم بھرا، اس بار میں نے شعبہ فارسی کا فارم بھرا تھا کیونکہ میری فارسی زبان میں کافی دلچسپی تھی۔ اس بار کامیابی ملی اور جامعہ میں میرا داخلہ ہوا۔ میرا بی اے سال 2020 میں ہی مکمل ہو جاتا، لیکن جیل کی وجہ سے ایک پیپر دینے سے محروم رہ گیا۔ یعنی ایک پیپر دینا ابھی باقی ہے۔ انشاء اللہ اس بار امتحان دے کر یہ بھی مکمل کر لوں گا۔
غور طلب ہے کہ آصف تنہا کو 16 مئی 2020 کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا، جب انہیں پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا تھا۔ ان پر جامعہ میں تشدد کرنے کا الزام تھا، لیکن بعد میں دہلی پولیس نے دہلی فساد کی سازش میں ملوث قرار دیتے ہوئے ان پر یو اے پی اے لگا دیا۔
آصف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سی اے اے اور این آر سی مخالف تحریک میں کافی سرگرم تھے۔ 15 جون کو دہلی ہائی کورٹ نے طلبا کارکنان دیونگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال تنہا کی ضمانت منظور کر لی۔
دہلی پولیس نے ان پر الزام لگایا تھا کہ یہ تینوں پچھلے سال شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد ہونے والے تشدد کی ایک ’’بڑی سازش‘‘ کا حصہ تھے۔ ان تینوں کارکنوں پر سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کیا گیا تھا۔ لیکن جسٹس سدھارتھ مردل اور انوپ جے بھمبھانی کے ڈویژن بنچ نے ’’اختلاف رائے کو دبانے‘‘ کے لیے حکومت کے اس اقدام پر تنقید کی۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ’’ایسا لگتا ہے کہ اختلاف رائے کو دبانے کی بے چینی میں احتجاج کے حق کی آئینی ضمانت اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کے مابین لائن کچھ دھندلے پن کا شکار ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ جمہوریت کے لیے ایک تکلیف دہ دن ہو گا۔‘‘ عدالت نے یہ بھی ذکر کیا کہ اشتعال انگیز تقاریر کرنا اور چکہ جام (سڑک کی ناکہ بندی) کا اہتمام کرنا جیسے اقدامات ایسے وقت میں غیر معمولی نہیں ہوتے جب ’’حکومتی یا پارلیمانی اقدامات کی بڑے پیمانے پر مخالفت‘‘ ہوتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ طویل گفتگو میں آصف بتاتے ہیں کہ مدرسہ سے ہی وہ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) سے جڑ گئے تھے لیکن جامعہ آ کر معلوم ہوا کہ بازار میں اور بھی طرح کے نظریات ہیں۔ میں نے ان کو سمجھنے کی کوشش کی۔ مجھے ایس آئی او کا نظریہ سب سے بہتر معلوم ہوا۔ ایس آئی او کا جو مقصد ہے، وہ دیگر طلبا تنظیموں میں نظر نہیں آیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے لیے سب سے بہتر پلیٹ فارم ایس آئی او ہی ہے۔ اسی سے جڑ کر میں نے جامعہ میں کیمپس ایکٹیوزم میں سرگرم ہوا۔
آپ ضمانت پر جیل سے باہر ہیں، اب آگے کیا؟ اس پر آصف تنہا کہتے ہیں کہ ’میں ایس آئی او میں ہوں۔ پہلے بھی تھا اور آگے بھی رہوں گا۔‘ لیکن 30 سال بعد تو ریٹائر کر دیا جاتا ہے؟ ’ابھی میرے پاس چار پانچ سال کا وقت ہے۔ اس وقت میں مسلسل کام کروں گا۔ ایس آئی او جب چاہے جہاں چاہے اور جس طرح سے چاہے مجھے استعمال کر سکتی ہے، اس کے لیے میں ہمیشہ تیار ہوں‘
قوم کے نوجوانوں سے کیا کہنا چاہیں گے؟ اس پر آصف کہتے ہیں، ’قوم کے نوجوانوں سے کہوں گا کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ آزمائش کا وقت ہے۔ ہمیں مشکل حالات میں بھی خیر کا پہلو تلاش کرنا چاہیے۔ اگر آپ ہر طرح کی پریشانیوں کو برادشت کرنا سیکھ گئے تو آپ کوئی بھی جنگ جیت سکتے ہیں۔ آپ اسلامی تحریک کی تاریخ، اخوان کی تاریخ اور موجودہ دور میں فلسطین کے نوجوانوں و بچوں کے حوصلوں کو دیکھ لیں۔ اگر وہ ڈر گئے ہوتے تو انہیں کوئی کامیابی نہیں ملتی۔ ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں اگر ہمارے مجاہد آزادی ڈر گئے ہوتے تو آج ہم غلام ہوتے۔ ہمارا ملک آزاد نہیں ہوتا۔ اس لیے میں نوجوانوں سے یہی کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ حق کے راستے پر ہیں تو ڈرنے کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو کامیابی نہ ملے لیکن آنے والی نسلیں اس کا مزہ ضرور چکھیں گی اور اگر ابھی ڈر گئے تو آنے والی نسلیں آپ کو کوسیں گی۔‘
آپ کو کبھی ڈر نہیں لگا؟ ’بالکل ڈر نہیں لگا۔ سوائے اللہ کے کسی سے بھی ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘
آصف تنہا کی امی جہاں آرا کہتی ہیں کہ ’اب تو ہم یہی سوچتے ہیں کہ آصف پڑھائی جاری رکھے۔ زندگی میں کامیاب ہو۔‘
تو کیا آگے کسی تحریک میں شامل ہونے سے روکیں گی؟ اس پر وہ کہتی ہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میں کیسے روک سکتی ہوں۔ وہ غلط کرتا تو میں روکتی۔ یہ تو لوگوں کے حق کی لڑائی لڑ رہا ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں، اللہ نے اسے طاقت دی ہے۔ میں یہ سوچ کر دہلی آئی تھی کہ میں اسے ہمت وحوصلہ دوں گی، لیکن میں اسے کیا ہمت دوں گی، وہی مجھے ہمت دے رہا ہے۔ میں دعا کروں گی کہ وہ قوم و ملک کے کام آئے۔ اس کے ابو کی بھی یہی خواہش ہے۔
آخر میں وہ کہتی ہیں کہ جیل میں ہمارے جتنے بھی بچے قید ہیں، ان سب کے لیے بھی میں دعا کرتی رہتی ہوں، آپ سب کو بھی دعا کرنی چاہیے۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ سب بچے بھی جلد از جلد سلاخوں کے باہر ہوں گے۔ وہ سب بے گناہ، بے خطا ہیں، معصوم ہیں، عدالت سے مجھے پوری امید ہے کہ ان کے معاملے میں بھی انصاف ہوگا اور سب آزاد ہوں گے۔
***
’’میرا بیٹا قوم و ملک کے کام آئے‘‘
آصف کی ماں کی دعا
آصف تنہا کی امی جہاں آرا کہتی ہیں کہ ’اب تو ہم یہی سوچتے ہیں کہ آصف پڑھائی جاری رکھے۔ زندگی میں کامیاب ہو۔‘
تو کیا آگے کسی تحریک میں شامل ہونے سے روکیں گی؟ اس پر وہ کہتی ہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میں کیسے روک سکتی ہوں۔ وہ غلط کرتا تو میں روکتی۔ یہ تو لوگوں کے حق کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں، اللہ نے اسے طاقت دی ہے۔ میں یہ سوچ کر دہلی آئی تھی کہ میں اسے ہمت وحوصلہ دوں گی، لیکن میں اسے کیا ہمت دوں گی، وہی مجھے ہمت دے رہا ہے۔ میں دعا کروں گی کہ وہ قوم و ملک کے کام آئے۔ اس کے ابو کی بھی یہی خواہش ہے۔ آخر میں وہ کہتی ہیں کہ جیل میں ہمارے جتنے بھی بچے قید ہیں، ان سب کے لیے بھی میں دعا کرتی رہتی ہوں، آپ سب کو بھی دعا کرنی چاہیے۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ سب بچے بھی جلد از جلد سلاخوں کے باہر ہوں گے۔ وہ سب بے گناہ، بے خطا ہیں، معصوم ہیں، عدالت سے مجھے پوری امید ہے کہ ان کے معاملے میں بھی انصاف ہوگا اور سب آزاد ہوں گے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021