لکھیم پور کھیری تشدد کیس میں سپریم کورٹ نے آشیش مشرا کی ضمانت منسوخ کر دی
نئی دہلی، اپریل 18: بار اینڈ بنچ کے مطابق سپریم کورٹ نے لکھیم پور کھیری تشدد کیس کے اہم ملزم اور مرکزی وزیر اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کو دی گئی ضمانت کو مسترد کر دیا۔
آشیش مشرا کو الہ آباد ہائی کورٹ نے 10 فروری کو ضمانت دی تھی۔
کسانوں کی تنظیموں نے الزام لگایا تھا کہ 3 اکتوبر کو اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری ضلع میں اب منسوخ شدہ تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کے دوران ان کی ایک گاڑی لوگوں پر چڑھ گئی۔ مشرا کو 9 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ 15 فروری کو جیل سے باہر آیا تھا۔
ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ نے ضمانت کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
پیر کی سماعت میں چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی کی قیادت والی بنچ نے مرکزی وزیر کے بیٹے کو ایک ہفتے کے اندر حکام کے سامنے خودسپردگی کرنے کو کہا۔
لائیو لاء کے مطابق ججوں نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے غیر متعلقہ تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے مشرا کو ضمانت دی تھی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ تشدد میں مارے گئے کسانوں کے اہل خانہ کو بھی ہائی کورٹ نے حکم جاری کرنے سے پہلے نہیں سنا۔
تین ججوں کی بنچ نے کہا ’’متاثرین کو سننے سے انکار اور ہائی کورٹ کی طرف سے دکھائے جانے والی جلد بازی ضمانت کے حکم کو رد کرنے کے قابل ہے۔ اس طرح ہم ملزم کی درخواست ضمانت پر نئے سرے سے غور کرنے کے لیے معاملے کو ہائی کورٹ میں واپس بھیج دیتے ہیں۔‘‘
جسٹس کانت نے مشاہدہ کیا کہ متاثرین کو ضمانت کی سماعتوں سمیت تمام کارروائیوں میں حصہ لینے کا ’’مکمل حق‘‘ حاصل ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’ایف آئی آر کو واقعات کا انسائیکلوپیڈیا نہیں سمجھا جا سکتا۔ فیصلے میں عدالتی نظیروں کو نظر انداز کیا گیا۔‘‘
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل دشینت ڈیو نے ججوں پر زور دیا کہ وہ کیس کو سماعت کے لیے ایک اور بنچ کو تفویض کریں۔ تاہم سپریم کورٹ نے معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر چھوڑ دیا۔
سماعتوں کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم اور کیس کی نگرانی کرنے والے ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج نے ضمانت کے حکم کے خلاف اپیل دائر کرنے کی سفارش اتر پردیش حکومت سے کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ مشرا ایک بااثر شخص ہیں۔
سینئر وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے، جو اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہوئے، سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس تجویز نے ’’ہمیں متاثر نہیں کیا‘‘۔
4 اپریل کو ایک سماعت میں سپریم کورٹ نے پوچھا کہ ریاست ضمانت کے حکم کو چیلنج کرنے میں کیوں ناکام رہی؟ چیف جسٹس نے اتر پردیش حکومت کے وکیل سے کہا ’’آپ نے خود اعتراف کیا کہ جرم بہت سنگین ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ نے ہائی کورٹ میں ملزم کی ضمانت کی درخواست کی سخت مخالفت کی تھی… اس لیے ہمیں توقع تھی کہ آپ نے SIT اور مانیٹرنگ جج کی ضمانت کے خلاف اپیل کرنے کی تجویز پر عمل کیا ہوگا۔‘‘
کسانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مشرا کی حرکتیں ارادی تھیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے وسیع تفتیش کے بعد پہلی نظر میں اس جرم میں مشرا کے ملوث ہونے کے ثبوت اکٹھے کیے ہیں۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس راجیو سنگھ نے مشرا کو ضمانت دیتے ہوئے یہ مشاہدہ کیا تھا کہ کسی بھی مرنے والے کے جسم پر اور تشدد میں زخمی ہونے والوں کے جسم پر آتشیں اسلحے کے زخم کے نشانات نہیں پائے گئے تھے۔
معاملے کی ایف آئی آر میں مشرا پر کسانوں میں سے ایک کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ حالاں کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں گولی لگنے کا کوئی نشان نہیں دکھایا گیا۔