اروناچل تصادم: کم از کم 20 ہندوستانی فوجی زخمی، بی جے پی ایم پی نے ‘دی ٹیلی گراف’ کو بتایا

نئی دہلی، دسمبر 13: بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ تاپیر گاؤ نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ گذشتہ ہفتے اروناچل پردیش کے توانگ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ میں کم از کم 20 ہندوستانی فوجی زخمی اور ان میں سے چھ ’’شدید زخمی‘‘ ہوئے تھے۔

اروناچل مشرقی حلقہ سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ گاؤ کے تبصرے مرکزی وزارت دفاع کے اس بیان سے مختلف ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ 9 دسمبر کو ہونے والی جھڑپ میں دونوں طرف کے چند فوجیوں کو ’’معمولی چوٹیں‘‘ آئیں۔

گاؤ نے ٹیلی گراف کو یہ بھی بتایا کہ چھ فوجی جو شدید زخمی ہوئے تھے، انھیں آسام کے گوہاٹی لے جایا گیا ہے۔

منگل کو وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں اس بات کا اعادہ کیا کہ دونوں طرف کے چند فوجی زخمی ہوئے ہیں۔

سنگھ نے لوک سبھا میں ایک بیان میں کہا ’’میں اس ایوان کو بتانا چاہوں گا کہ ہمارے فوجیوں میں سے کسی کی موت نہیں ہوئی یا کسی کو کوئی شدید چوٹ نہیں آئی۔ بھارتی فوجی کمانڈروں کی بروقت مداخلت کی وجہ سے PLA [پیپلز لبریشن آرمی] کے سپاہی اپنے اپنے مقامات پر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔‘‘

وزیر دفاع نے چین کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ ’’یکطرفہ طور پر‘‘ تنازعے کو بڑھانے کی کوشش کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انھوں نے مزید کہا کہ 11 دسمبر کو اروناچل پردیش کے توانگ کے علاقے یانگتسے کے مقامی بھارتی آرمی کمانڈر نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ فلیگ میٹنگ کی۔

وزیر دفاع کا یہ بیان اس وقت آیا جب اپوزیشن جماعتوں نے پیر کو نریندر مودی کی قیادت والی حکومت پر جھڑپوں کو چھپانے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ٹویٹ کیا ’’پچھلے دو سالوں سے ہم بار بار حکومت کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن مودی حکومت صرف اپنی سیاسی شبیہ کو بچانے کے لیے معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے چین کی بے باکی بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘

رمیش نے مودی پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ اپنی شبیہ بچانے کے لیے ملک کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے پوچھا ’’تصادم کی وجہ کیا تھی؟ کیا گولیاں چلائی گئیں یا یہ گلوان کی طرح تھا؟ کتنے فوجی زخمی ہوئے؟ ان کا کیا حال ہے؟‘‘

ہندوستانی فوج کی تعریف کرتے ہوئے اویسی نے دعوی کیا کہ ’’مودی کے تحت کمزور سیاسی قیادت کی وجہ سے چین کے خلاف (فوج کی) یہ تذلیل ہوئی۔‘‘

اویسی نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے تصادم پر بحث کے لیے لوک سبھا میں التوا کا نوٹس پیش کیا ہے۔

کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے ٹویٹ کیا ’’چین نے اب اروناچل پر اپنی بری نظر ڈالی ہے۔ کیا وزیر اعظم اپنی شبیہ بچانے کے لیے دوبارہ چین کو کلین چٹ دیں گے؟‘‘

دریں اثنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما سبرامنیم سوامی نے مطالبہ کیا کہ اگر چین مودی سرکار کو بلیک میل نہیں کر رہا ہے تو بھارت تمام چینی کمپنیاں بند کر دے اور چین میں موجود بھارتیوں کو واپس بلا لے۔

پیر کو اپنے بیان میں وزارت دفاع نے کہا تھا کہ اروناچل پردیش کے توانگ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ کچھ علاقوں ایسے ہیں، جن میں دونوں ممالک کے فوجی اپنے دعوے کے مطابق گشت کرتے ہیں۔

وزارت نے مزید کہا ’’یہ رجحان 2006 سے جاری ہے۔‘‘

جون 2020 میں لداخ کی وادی گلوان میں ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے۔